تین مسافروں کی کہانی

مولانا محمد کلیم اللہ حنفی

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصحیح للبخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:تم سے پہلی امتوں میں سے تین حضرات ایک سفر پر نکلے، دوران سفر رات ہوگئی اور بارش بھی ہونے لگی تو ایک غار میں رات گذارنے کے لیے وہ حضرات داخل ہوگئے؛ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایک بڑا سا پتھر لڑھک کر نیچے آیا اور غار کے دہانے کو بند کردیا، یہ دیکھ کر انہوں نے آپس میں مشورہ کیاکہ اس آزمائش سے نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ مشورہ سے یہی طے ہوا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے،چنانچہ وہ اپنے اپنے عمل کے حوالے سے دعائیں کرنے لگے۔
پہلے شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا: یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور شام کو میں سب سے پہلے انہی کو دودھ پلاتا تھا، ان سے پہلے میں اہل وعیال اور غلام وخادم کو نہیں پلاتاتھا،ایک دن میں اپنے جانوروں کے چارہ کی تلاش میں دور نکل گیا اور جب واپس آیا تومیرے والدین سو چکے تھے، میں نے دودھ دوہا اور ان کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ گہری نیند میں ہیں، میں نے ان کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور ان سے پہلے اپنے اہل وعیال اور غلاموں کو پلانا بھی گوارا نہیں کیا، میں دودھ کا پیالہ ہاتھ میں پکڑے، ان کے سرہانے کھڑا، ان کے جاگنے کا انتظار کررہا تھا، حتی کہ صبح ہوگئی، جب وہ خود بیدار ہوئے تو میں نے انہیں ان کے شام کے حصے کا دودھ پلایا، یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام صرف تیری رضا اور خوشنودی کے لیے کیا تھا۔ تجھے اس کا واسطہ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما ، دعا کے نتیجے میں وہ چٹان تھوڑی سی سرک گئی، لیکن با ہر نکلنا ممکن نہ تھا۔
دوسرے شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا: یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میری ایک چچازاد بہن تھی، جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی، حتی کہ وہ محبت اپنے انتہا کو پہنچ چکی تھی، ایک مرتبہ میں نے اس سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کیا، لیکن وہ آمادہ نہیں ہوئی اور انکار کردیا، حتی کہ ایک وقت آیا کہ قحط سالی نے اسے میرے پاس آنے پر مجبور کردیا، میں نے اسے اس شرط پر ایک سو بیس دینار دیے کہ وہ اپنے آپ سے نہ روکے ، وہ آمادہ ہوگئی، جب میں تنہائی میں اسے لے گیا وہ ہرطرح سے میرے قابو میں آگئی تھی، یہاں تک کہ وہ میری مکمل دسترس میں تھی اسی دوران اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ سے ڈر!اس کے ان الفاظ نے یا اللہ تیرا خوف میرے اوپر طاری کردیا اور میں اس سے دور ہوگیا، حالانکہ وہ عورتوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی،اور میں نفسانی خواہشات کو پورا بھی کر سکتا تھا لیکن تیرے خوف سے میں نے گناہ چھوڑ دیا میں نے سونے کے وہ دینار بھی اس کو دے دیے۔یا اللہ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما چنانچہ وہ چٹان کچھ اور سرک گئی، لیکن باہر نکلنے کا راستہ اب بھی بدستور ناکافی تھا۔
تیسرے شخص نے دعا مانگتے ہوئے کہا : یا اللہ! تجھے میری حقیقت حال اچھی طرح معلوم ہے ،میں نے اپنے کام کے لیے کچھ مزدوروں کو اجرت پر رکھا تھا، سب کی اجرت میں نے ادا کردی، صرف ایک مزدور ناراض ہو کر اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا، میں نے اس کی مزدوری سے غلہ خریدا، اسے بویا، پھر اس سے بتدریج بکری، گائے اور غلام وغیرہ خریدے، حتی کہ بہت سارا مال جمع ہوگیا، کچھ عرصہ کے بعد وہ آیا اور کہنے لگا کہ اللہ کے بندے! مجھے میری اجرت ادا کردے، میں نے کہا: یہ اونٹ، گائے، بکریاں اور غلام جو تجھے نظر آرہے ہیں، یہ سب تیری اجرت کا ثمرہ ہیں، ان سب کے تم مالک ہو، اس نے کہا: اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا : میں تم سے مذاق نہیں کررہا ہوں، حقیقت بیان کررہا ہوں، چنانچہ وہ سارے کا سارا مال لے کر چل دیا، یا اللہ! اگر میں نے یہ کام صرف تیری رضا کی خاطر کیا ہے، توہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما چنانچہ وہ چٹان بالکل ہٹ گئی اور غار کا منہ کھل گیا او ر تینوں باہر نکل آئے۔ مشکل اوقات میں جیسے انبیاء و اولیاء کا وسیلہ دیا جا سکتا ہے بعینہٖ اسی طرح نیک اعمال کا وسیلہ بھی جائز ہے۔ دعا تو بغیر وسیلے کے بھی قبول ہوتی ہے لیکن وسیلے کے ساتھ جلد قبول ہوتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔