جاری رہے گاتا ابد اسوہ خلیلؑ کا

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

‘‘ذی الحجہ’’ اسلامی سال کاسب سے آخری مہینہ ہے؛جو ماہ رمضان کے بعد عظمت وفضیلت میں اپنی نمایاں شان اور منفردشناخت  رکھتا ہے، اس مہینے کا چاند نظر آتے ہی ہرمسلمان کے دل میں اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے؛جوجلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادےنےپیش کی،جس کی مثال پیش کرنےسے تاریخ عاجزوقاصرہے۔

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ رب العزت کے جلیل القدر پیغمبراور ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد امجدتھے، ابتلا و آزمائش کے ان گنت مراحل سے گزرے، سفر ہجرت اختیار کیا، اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور ننھے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ لق ودق صحرا میں چھوڑا۔ تبلیغ دین کا ہر راستہ دراصل انقلاب کا راستہ ہے اور شاہراہ انقلاب پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسی انقلابی جدوجہد سے عبارت ہے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں التجا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ مجھے ایک نیک، صالح اور پاکباز بیٹے سے نواز، اللہ پاک دعائے ابراہیمی کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہیں ، بارگاہ خداوندی سے انہیں اطاعت گزار بیٹا عطا ہوتا ہے جن کا نام اسماعیل رکھا جاتا ہے۔ باپ کی آنکھوں کا نور، اور اس کی دیرینہ محبتوں اور چاہتوں کا مرکز،ان کی آخری عمر کا سہارا ۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اس بے پناہ محبت کو دیکھ کر اللہ رب العزت نےخواب میں ارشاد فرمایا کہ ابراہیم! اپنے لخت جگر اسماعیل کو ہماری راہ میں قربان کرو۔

غور کیا جائے تو یہ مقام حیرت و استعجاب ہے۔ اللہ کا پیغمبر یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آج تک کسی انسان کی قربانی کا حکم نہیں دیا گیا، وہ اس پر لیت و لعل سے بھی کام لے سکتے تھے اور اس کا قرینہ بھی تھا کیونکہ یہ حکم آپ کو خواب میں دیا گیا تھا لیکن دیکھیے پیغمبر کے ایمان و عمل کی رفعتیں ! انہوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر سارا ماجرا اپنے بیٹے اسماعیل کو سنایا لیکن انہیں حکم نہیں دیا بلکہ ان سے رائے پوچھی۔ قربان جائیں اس پیغمبر زادے کی ایمانی عظمتوں پر بھی جنہوں نے باپ کے خواب کو اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے سر تسلیم خم کر کے تاریخ انسانیت میں ذبیح اللہ کا منفرد اعزاز حاصل کیااوراللہ نے اس عمل کو اس طرح شرف قبول بخشا کہ تاقیام قیامت ہمیشہ کےلیے جاری وساری کردیا ۔

‘‘ قربانی’’ مذہب اسلام کا ایک خصوصی وصف و شعار اور قرب خداوندی حاصل کرنے کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے؛یہی وجہ ہے کہ سرکاردوعالمﷺزندگی بھرپورےاہتمام کے ساتھ اس عبادت کو انجام دیتے رہے اور وقتاًفوقتاًاس کی ترغیب بھی فرماتےرہے۔

اس قربانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”اور ہم نے ہرامت کے لیے قربانی مشروع کی تاکہ اللہ نے ان کو جو چوپائے بخشے ہیں ، ان پر وہ اس کا نام لیں ۔ پس تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اسی کے حوالے کر دو۔ اور خوش خبری دو ان کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے خدا کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں ۔ ان کو جو مصیبت پہنچتی ہے ، اس پر صبر کرنے والے، نماز کا اہتمام رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے، اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔”(الحج )

ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قربانی من جملۂ عبادات ہے ۔ انبیا کی امتوں میں یہ ہمیشہ مشروع رہی ہے۔ یہ خالص اللہ کے لیے ہے ۔ اسے شرک کے شائبے سے بھی پاک ہونا چاہیے اور اسے اپنے آپ کو اپنے مالک کے حوالے کر دینے کے جذبے سے انجام دینا چاہیے۔

قربانی کا حکم دے کر اسلام نے انسانی فلاح و بہبود کا سامان کیا، اس کےعظیم مقاصد پر غور و فکر کیا جائے تو کئی اہم پہلونکھرکر سامنے آتے ہیں ۔ اسلام نے محبت و اخوت اور مروت کی جو تعلیم دی اسی کی تجدید ہر سال قربانی کے ذریعے ہوتی ہے، انسانی نفس کی پاکیزگی و طہارت کا جو درس قربانی سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم جانور کی قربانی کر کے اپنے نفس اور بے جا خواہشات کو قربان کر دیں ، اپنے رب کی رضا اور آقاے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشنودی کے لیے اپنی زندگی گزاریں اور صفت تقوی سے اپنے آپ کو متصف کرنے کی کوشش کریں ۔

قربانی کا موسم بہار سایہ افگن ہے، ان مبارک ایام میں اللہ کریم کی بارگاہ میں سوائے قربانی کے کوئی عمل اس قدر مقبول و پسندیدہ نہیں ۔ ذرا غور کریں ! کیا حکمتِ الٰہیہ ہے قربانی میں کہ ان ایام میں دوسرے اعمال صالحہ اس کا بدل نہیں ، در اصل یہ دستورِ قدرت رہا ہے کہ حق کے فروغ اور اشاعت کے لیے قربانیوں کی بساط سجائی گئی ہے،قربانی کے ذریعے مسلمانوں نے حق کی حفاظت کی، فتح و نصرت سے ہم کنار ہوئے،جانور کی قربانی اپنے رب کی رضا کے لیے کرنا اسلام کے لیے جاں نثاری کا پیغام ہے۔آج ہزاروں باب کھلے ہیں جو ہم سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں ، ہزاروں مسائل ہیں ، ہر فیلڈ میں بہ حیثیت مسلمان ہمیں قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہے، نفس و مال کی قربانی، وقت و صلاحیت کی قربانی اوربہ وقت ضرورت اسلام کے لیے اپنی جان کی قربانی بھی پیش کر دینا چاہیے۔

یوں تو قربانی کےبے شماردنیاوی اور اخروی فوائدہیں جن سے براہ راست دنیا کے تمام مسلمان مستفید ہوتے ہیں ،اب  آئیے قربانی سے مطلوب کچھ اہم مقاصد پر سرسری نظر ڈالتے چلیں !

بارگاہ الہی کا تقرب اور تقوے کا حصول:

قربانی کے عظیم ترین مقاصد میں ایک اہم مقصد تقوی کا حصول ہے، قرآن مجید میں ارشادخداوندی ہے :” خدا تک نہ ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون – اس کی بارگاہ میں صرف تمھارا تقوی جاتا ہے -"(الحج)  بنیادی طور پر خداوند متعال قربانی کے گوشت کا محتاج نہیں ہے، کیونکہ وہ نہ جسم ہے اور نہ جسمانی تقاضوں کا محتاج، بلکہ وہ ایک بےنیاز ذات ہے؛جو ہر جہت سے پاک اور ہر ضرورت سے مبرا ہے-

بہ الفاظ دیگر، قربانی کو واجب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم تقوی کے مختلف منازل طے کر کے ایک انسان کامل کی راہ پر گامزن ھو جائیں اور روز بروز خداوند متعال کے قریب تر ہوتے جائیں ،اس طرح قربانی کے ذریعے ہمیں اللہ کی قربت حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے؛ جیسے کہ خود لفظ قربانی اس بات پر دال ہے۔

غریبوں سے ہمدردی:

اسلام نے قربانی کے درس میں غریبوں کے حقوق کا بھرپور خیال رکھا،غریب ہمارے معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں ، انھیں فراموش کر دینا انسانیت نوازی کے خلاف ہے ۔ اسی لیے قربانی کے گوشت میں غربا کا خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے؛تاکہ وہ بھی ہمارے ساتھ خوشی منائیں ، اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہوں ،وہ بھی معاشرے کے استحکام میں شریک ہوں اور ان سے ہم دردی کا یہ سلسلہ اس درسِ قربانی کے ساتھ دراز ہوتاچلاجائے  کہ پھر ان کے حقوق کا خیال پورے سال رکھا جائے۔

قربانی انسان کو جاں نثاری ، فدا کاری ، عفو و بخشش اور ان کے علاوہ حاجتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کا سبق سکھاتی ہے۔

اطاعت و جاں نثاری:

آج عزمِ ابراہیمی درکار ہے۔ اطاعت و جاں نثاریِ حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام شجاعت کا استعارہ بن چکی ہے، عید قرباں پر بارگاہِ الٰہی میں قربانی کے ذریعے ہم اس درس کی تجدید کرتے ہیں جو عرب کے ریگ زار میں اللہ کے سچے پیغمبر نے اپنے فرزند کی قربانی پیش کر کے وفا شعاری کا عزم دیا، اور رب کریم کی اطاعت و فرماں برداری کا درس دیا، پھر عزم جواں چاہیے جس سے اسلام کی فصیل کو اندرونی و بیرونی حملوں سے بچانے کا سامان مہیا ہو سکے۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ رب کی رضا کے لیے جیو، زندگی گزارو اپنے خالق کی خوشنودی کے لیے، جہاں رہو جس حال میں رہو اسلام کے سچے وفادار بن کر رہو، اسلامی احکام پر عمل کرو، اسلامی تہذیب اپنا کر زندگی کامیاب بناوٴ؛ یہی ہمارا مقصد ہو کہ ہمارا ہر لمحہ اطاعت الٰہی اور محبت رسالت پناہی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں گزرے ، ہمارا ہر عمل اسلام کے مطابق ہو، شریعت پر ہو، شریعت کے خلاف جتنی راہیں ہیں سب سے دور و نفور رہیں۔

اتحاد و اتفاق کی تعلیم:

 اللہ تعالی کا اس (قربانی کو) مخصوص دنوں میں مشروع قرار دینا دراصل ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم انہی مخصوص دنوں میں ایک ساتھ قربانی پیش کر کے یہ سبق لیں کہ جس طرح ہم نے ایک ساتھ قربانی پیش کی اسی طرح ہمیں دیگر تمام معاملات میں بھی آپس میں مل کرکام کرنا چاہئے اور اتحاد و اتفاق کو اپنا شیوہ بنا لینا چاہئے اور یہ مقصد اسلام کےجملہ ارکان توحید، نماز، روزہ اور حج وغیرہ میں بھی عیاں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔