جامعہ اسٹور: منزل بھی راستہ بھی

عارف اختر نقوی

(پروڈیوسر ٹی وی،جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی)

      شام ہوگئی، جامعہ کے دفتر اب بند ہوگئے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے دفتروں سے نکل کر گھر جارہے ہیں لیکن کچھ لوگ کسی اور ہی سمت رواں ہیں۔ جامعہ سینٹرل آفس کی عمارت جس میں شیخ الجامعہ، مسجل اور دیگر انتظامی امور کے اہم دفاتر ہیں۔ اس عمارت کے مرکزی گیٹ کے پاس چند دوکانیں ہیں۔ مکتبہ جامعہ سے شروع ہوکر نگینہ اسٹور اور موٹر ورکش شاپ تک محدود یہ چھوٹا سا بازار جو اسٹور کہلاتا ہے جامعہ کا دل ہے۔ یوں تو سارے دن ہی یہ بازار کُھلا رہتا ہے، لوگ ڈاک خانے آتے جاتے رہتے ہیں، آس پاس کے چائے خانوں میں بھی لوگ چائے پیتے رہتے ہیں مگر اس بازار کی رونق شام ڈھلے ہی شروع ہوتی ہے۔ استاد، شاگرد، ملازمین اور وہ لوگ بھی جو آس پاس رہتے ہیں سب شام کو یہاں جمع ہوجاتے ہیں۔ جامعہ سے باہر نوکریاں کرنے والے جامعی بھی لوٹ کر گھر جانے سے پہلے اسٹور پر رک کر دوستوں کے ساتھ چائے ضرور پیتے ہیں اور سارے دن کی تھکن اُتار کر گھر جاتے ہیں۔ بین الاقوامی مسائل، قومی معاملات اور ذاتی امور سب کچھ اس انجمنِ سرِ راہ میں موضوعِ بحث  آتے ہیں۔ یہاں روایت پرست بھی ہیں اور روایت شکن بھی، یہاں محفلِ رنداں بھی سجتی ہے اور حلقہء واعظ و نصیحت بھی۔ یہ اہلِ شوق کی بستی بھی ہے اور سر پھروں کا دیار بھی۔ یہاں اساتذہ اور طالب علموں کا عقیدت و احترام بھی ہے، اور یاروں کی بزمِ بے تکلف بھی۔ یہاں نہ مذہب کا فرق ہے نہ مسلک کا، یہاں نہ رتبہ و منزلت دیکھی جاتی ہے نہ دولت و ثروت، یہاں بس ایک ہی مسلک ہے مسلکِ جامعی۔ مختلف نظریات و افکار کے ماننے والوں کی گرما گرم بحثیں ہیں مگر ذاتی اختلافات چائے کی پیالی کے ساتھ ختم کرکے رُخصت ہونے کی روایت ہے۔

                تاریخی کتابوں اور زبانی تاریخ کے مطابق جب جامعہ قرول باغ سے اوکھلا منتقل ہوئی تب تک اوکھلا ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ ذاکر صاحب نے اپنے تعلیمی و تدریسی منصوبوں کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی مدِ نظر رکھا کہ زندگی کی بنیادی ضروریات بھی جامعہ کے آس پاس مُہیا کروائی جائیں۔ چنانچہ اور بہت سے انتظامات کے ساتھ ساتھ یہاں ایک کواپریٹو اسٹور قایم کیا گیا۔ جامعہ والے ہی اس اسٹور کو چلاتے تھے۔ کچھ لوگ شروع شروع میں مدد کے لیے رکھے گئے جنھیں بعد میں جامعہ میں ملازمت مل گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جامعہ والے گھر کا سودا سلف لینے مہینے میں ایک بار نورالدین صاحب مرحوم کے ساتھ جامعہ کی لاری میں بھر کر جامع مسجد پرانی دلّی جاتے تھے۔ کواپریٹو اسٹور کے قیام سے بہت سہولت ہوگئی۔ اسی اسٹور کی وجہہ سے یہ جگہ ہی اسٹور کہلانے لگی۔ پھر کچھ عرصے بعد سڑک کے کنارے پیڑ کے نیچے ایک سبزی اور پھل کی دوکان شروع ہوئی جو آگے چل کر مرچنٹ صاحب کی دوکان کہلانے لگی۔ اس کے بعد موچی، نائی اور پان والوں نے بھی دوکانیں لگا لیں۔ ابتدا میں اسٹور پر بہت مختصر سی دوکانیں اور ڈاک خانہ ہی تھا۔

                 کچھ دن بعد بعد گیٹ کے پاس جامعہ کے ملازمین نے شفیق الرحمان قدوائی صاحب مرحوم کے مشورے پر ایک کلب بنایا جہاں شام کو لوگ جمع ہوتے تھے۔ اب شام کو اسٹور پر رونق ہونی شروع ہوگئی۔ جیسے جیسے جامعہ کی ترقی ہوتی گئی اسٹور بھی بڑھتا چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد مکتبہ جامعہ کی کتابوں کی دوکان کے پیچھے ایک اور اسٹاف کلب قایم ہوگیا جہاں اساتذہ اور کچھ سینئرملازمین دیر رات تک شطرنج اور تاش کھیلتے تھے۔ اسی کے پاس عبداُللہ بھائی کی کینٹین تھی۔ عبداُللہ بھائی کی کینٹین در اصل اسٹاف کلب  میں آنے والوں کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ شام ڈھلنے کے بعد کھلتی تھی اُس وقت اسٹور کی دوکانیں بند ہونے لگتی تھیں۔ سینئر طالب علموں کو بھی جب کوئی خاص بات کرنی ہوتی تو وہ اکثر اسٹور کی گہماگمی سے بچ کر اندر آکر بیٹھ جاتے تھے۔ دیر تک جاگ کر پڑھائی کرنے والوں اور شب باشوں کے لیے بھی رات گئے تک چائے ناشتے کا سہارا عبداُللہ بھائی کی کینٹین ہی تھی۔

                  جیسے جیسے جامعہ میں استادوں، طالب علموں اور ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اسٹور کی رونق بھی بڑھتی گئی۔ دوکانیں بھی بڑھتی چلے گئیں۔ جامعہ نے اس بڑھتی ہوئے بازار کومنظم رکھنے کے لیے دوکانوں کو لائسینس جاری کئے۔ جو دوکانیں ابتدائی دنوں میں کھُلی تھیں ان دوکانوں پر پشت در پشت ایک ہی خاندان کی آنے والی نسلیں بیٹھنے لگیں۔ ان پشتینی کاروباریوں کا رشتہ جامعہ والوں سے محض کاروباری نہیں تھا۔ ایک ذاتی تعلق اور اُنسیت تھی۔ یہ لوگ جامعہ کو اپنی جامعہ سمجھتے تھے اور اس کے مراحل و مسائل پر اپنی رائے رکھتے تھے۔ ۱۹۸۴ء کی بات ہے، یومِ تاسیس کے موقعے پر ایک مضمون میں نے جامعہ کے متعلق پڑھا اور اس میں اپنے بزرگوں سے سُنے کچھ واقعات شامل کئے جو کتابوں میں شائع نہیں ہوئے تھے۔ جلسے کے بعد جب میں اسکول سے باہر نکلا تو ڈی پارک کے پاس کھڑے ایک بزرگ نے مجھے آواز دی اور مجھے اسٹور پر ڈاک خانے کے برابر والے چائے خانے پرلے گئے۔ مجھ سے نام، پتا، خاندان دریافت کیا اوریہ جان کر کہ میرا تعلق پرانے جامعی خاندان سے ہے بہت خوش ہوئے اور بولے۔ ۔ ۔ ‘وہی تو ہم سوچ رہے تھے کہ یہ سب باتیں کوئی اپنا ہی جان سکتا ہے’۔ یہ بزرگ ببّو بھائی مرحوم تھے اور وہ چائے خانہ جس میں ہلکے سرمئی رنگ کا فرنیچر تھا اس کے مالک تھے۔

                اسٹورپر تین پان کی دوکانیں تھیں جو کئی پشت سے چل رہی تھیں۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ہر پان والے کے مخصوص گاہک تھے۔ اگر کسی وقت کوئی گاہک کسی بچّے کو پان لینے بھیج دے اور بچّہ غلط دوکان پر جاکر والد کا نام بتائے تو دوکان دار خود بتا دیتا تھا کہ وہ میری دوکان پر پان نہیں کھاتے تُم فلاں شخص کی دوکان پر جائو۔ ہمیں ایک بار شمیم بھائی کی دوکان سے ایک پیکٹ سگریٹ اُدھار لینے کی ضرورت پڑ گئی، ڈرتے ڈرتے ان سے کہا کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو دے دیں، پیکٹ ہاتھ میں تھماتے ہوئے انھوں نے کہا کیسی بات کرتے ہیں ہم کیا جانتے نہیں آپ فلاں صاحب کے نواسے، فلاں کے بھتیجے اور فُلاں کے بھانجے ہیں۔ ۔ ہم نے سگریٹ کا پیکٹ واپس کرتے ہوئے کہا کہ ایک پیکٹ اُدھار میں سارے خاندان کی عزت دائو پر لگ رہی ہے ہمیں معاف کریں۔ ا س نوعیت کا تعلق تھا اسٹور کے دوکانداروں کا جامعہ اور جامعہ والوں سے۔ طالب علموں خصوصاً ہاسٹل میں رہنے والوں طالب علموں کو اسٹور کے ہوٹلوں سے بڑا سہارا تھا۔ گھر سے پیسے آنے میں دیر ہو جائے یا کوئی اور دقّت پیش آجائے مگر ان کا چائے ناشتہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔ دیکھاگیا ہے کہ بہت سے طالب علموں نے جامعہ سے فارغ التحصیل ہوکر بر سرِ روزگارہونے کے بعد بھی اسٹور کے ہوٹلوں کا اُدھار چُکتا کیا ہے۔

                اسٹور کی یادوں کوایک مختصر مضمون یا ایک کتاب میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ہر شخص کی ا پنے اپنے عہد کی یادیں ہیں۔ اسٹور سڑک کے کنارے لگا وہ چھتنار درخت تھا جس کے نیچے برسوں مسافر رُک کر آرام کرتے رہے۔ کئی نسلوں نے اس درخت کے سائے تلے وقت گزرا۔ وہ لوگ بھی ابھی باقی ہیں جنھوں نے اسٹور کو جنم لیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ جب آس پاس آبادی بڑھنے لگی اور بہت سے استادوں اور ملازمین نے قریب کے محلوں اور کالونیوں میں سکونت اختیار کرلی تب اسٹور جامعہ اور آس پاس کی بستیوں کے درمیان رابطے کا ایک اہم ذریعہ بن گیا۔ کسی کا کوئی مہمان بس سے اترے اور پتا معلوم کرے تو اسے صرف پتا ہی نہیں بتایا جاتا تھا ہر قسم کی مدد فراہم کی جاتی تھی۔ ایک طرح سے کہا جائے تو اسٹور جامعہ کا outreach پروگرام بن گیاتھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر قُرب و جوار کی بستیوں کی سماجی زندگی پر جامعہ کا جو اثر پہلے تھا، جامعہ والے جس طرح پہلے ان بستیوں کے معاملات اور مسائل میں ایک قائدانہ کردار ادا کرتے تھے اس میں کئی اور وجوہات کے ساتھ ساتھ اسٹور کا بھی اہم کردار تھا۔

لیکن سچ کہا ہے علامہ اقبال ؔنے

ثبات صرف تغیّرکو ہے زمانے میں

       جامعہ اسکول کے سامنے جہاں اسٹور ہوا کرتا تھا وہاں اب چوڑی فُٹ پاتھ اور کشادہ سڑک ہے۔ جس سڑک پر کبھی صرف 18 نمبر کی بس اورM 24 کی منی بس چلتی تھی اب ٹریفک سے کھچا کھچ بھری رہتی ہے۔ اوپر میٹرو دوڑ رہی ہے۔ جامعہ میں اب بہت بڑی بڑی کئی کینٹین ہیں مگر ان میں اسٹور جیسی روح نہیں پیدا  ہوسکتی ہے۔

    اسٹور کو ختم ہوئے تقریباً بیس سال ہوگئے ہیں۔ مگر آج بھی اسٹور کی یادیں بہت سے دلوں میں باقی ہیں۔ کوئی دلّن بھائی کے کباب یاد کرتا ہے تو کوئی بُدھ رام کے چھولے، کسی کو مناّ بھائی کی دال فرائی یاد آتی ہے تو کسی کو شاکر کی دوکان کا ناشتہ۔ کبھی کبھی کوئی پرانی شکل دکھائی دیتی ہے تو خیال آتا ہے کہ اس کو کبھی اسٹور پر دیکھا کرتے تھے۔ نام پتا جانے بغیر ہی اس سے ایک اُنسیت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے۔ اسٹور ختم ہونے کے بعد اسٹور کے کچھ پرانے دوکان دار آس پاس کی بستیوں میں اب بھی کاروبار کر رہے ہیں۔ نور نگر میں نگینہ اسٹور سے اب بھی پرانے لوگوں کا وہی تعلق ہے۔ کبھی کوئی پرانا ساتھی آجاتا ہے تو پرانے لوگوں کا گروپ ابوالفضل میں شاکر کے ہوٹل پر ناشتہ کرنے ضرور جاتا ہے۔ شاکر بھی ایکسٹرا مکھن میں چھولے فرائی کرکے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ فیس بُک پر ـ” اسٹورچی ” کے نام سے ایک گروپ چل رہا ہے جس پر لوگ اپنی اپنی یادیں لکھتے رہتے ہیں۔ جون ایلیا ؔنے پتا نہیں کس بزم کی بات کی ہے مگر ہمیں تو اسٹور پر ہی صادق آتے لگتے ہیں ان کے یہ اشعار

بزم شوخی کا کسی کی، کیا کہیں حال جہاں

دِل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

یادِایام کہ اِک محفلِ جاں تھی کہ جہاں

ہاتھ کھینچے بھی گئے، ہاتھ ملائے بھی گئے

تبصرے بند ہیں۔