جام غم کا پی کے جو لہر اے ہے
دانش اقبال
جام غم کا پی کے جو لہر اے ہے
زیست کا ہر راز وہ پا جائے ہے
…
یا د ماضی جب کھبی آ جائے ہے
خون کے آنسو مجھے رُلوائے ہے
…
جب بھی بر فیلی ہوا یادآئے ہے
تن بدن میں آگ سی لگ جائے ہے
…
خود نہ سمجھا ہو جو اپنے آپکو
وہ کسی کو کیا بھلا سمجھائے ہے
…
آئینے کے سامنے وہ خوب رُو
عکس اپنا دیکھ کر شر مائے ہے
…
دیکھ دانش یہ میری بے کسی
ہر مسرت مجھ سے کترا جائے ہے
تبصرے بند ہیں۔