جانِ گل 

 گل بخشالوی

جانِ گل آج ترے حسن کی تعریف کروں

سرخ گالوں کی یہ سرخی ہے کہ کابل کا انار

گول چہرے پہ یہ ابرو ہیں کہ ارجن کی کمان

مست آنکھوں کے کٹورے ہیں کہ خیام کے جام

اور پلکوں کے یہ جگنو ہیں کہ مندر کے چراغ

تیرے ہونٹوں کی یہ لالی تری زلفوں کی بہار

تیری سانسوں کی ہے خوش بو کہ ہے صندل کی ہوا

تیرے موتی سے چمکتے ہوئے دانتوں کی قسم

ایک محشر ہے صنم تیرا جمال رعنا

ہے تری موج ِتبسم کہ دھنک کا منظر

کس قدر عطر شماہے پسینہ تیرا

خلد منظر ترے بالوں کا معطر سایا

سولہواں سال تیرا مجھ پہ قیامت ڈھائے

تجھ سے شاداب ہے دنیا مری اے جانِ غزل !

جھیل سے جسم میں آنکھیں تری مانند کنول

تیرے گفتار کا جادو ،ترے ہونٹوں کی مٹھاس

اے صنم !عطر حنا ہے ترے ماتھے کا عرق

ہے ترا حسن سراپا کہ حسیں تاج محل

تیرا مکھڑا ہے کہ حافظ کی غزل کا مطلع

تیری انگڑائی پہ قربان ہوئی قوس وقزح

تیری رفتار سے جاگے ہیں ہزاروں فتنے

میرا ہر شعر ترے حسن کا ممنون صنم

میرے من میں ہے جوانی تری رعنائی کی

تیرے کندن سے دمکتے ہوئے چہرے کی قسم

تیرا چہرہ ہے کہ اک سجدئہ گہہ عالم کےے

اس سے بڑھ کر میں بھلا کیا تری تعریف کروں

1 تبصرہ
  1. گل بخشالوی کہتے ہیں

    پہلی بار مضامین ۔کام دیکھا آپ نے میرے کلام کو جگہ دے کر حوصلہ افزائی کی ،اس کے لئے بہت بہت شکریہ
    انشا ء اللہ رابظی رہے گا

تبصرے بند ہیں۔