جب آپ ہی نے گنہگار کر کے چھوڑ دیا

کامران غنی صباؔ

  زمینی سطح پر اردو ہر زمانے میں کس مپرسی کا شکار رہی ہے۔ ہرزمانے میں اردو کے مر مٹنے کی پیشن گوئی بھی کی جاتی رہی ہے۔کبھی اسے اپنے گھر میں بے آبرو کیا جاتا ہے، کبھی اسے اپنے پڑوسیوں کے تعصبات کی بھینٹ چڑھنا پڑتا ہے لیکن یہ وہ زبان ہے جو آندھیوں کے رْخ پر بھی اپنا چراغ روشن رکھنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔یہ محبت کی زبان ہے اس لیے ہر عہد میں اس سے سچی اور بے لوث محبت کرنے والے ’’عاشقین صادقین‘‘ کی جماعت کی رفاقت حاصل رہی ہے۔ یہ لوگ اس مالی کی طرح ہیں جو سردوگرم کی پروا کیے بغیر باغ کے پھولوں کی آبیاری کرتے ہیں اور جب پھول جوان ہو کر اپنی رعنائیاں بکھیرنا شروع کرتے ہیں تو کچھ گلچیں انہیں توڑ کر لے جاتے ہیں، رنگ برنگے گلدستے بناتے ہیں، بازار میں نیلام کرتے ہیں اوراپنے ’’فن‘‘ کی واہ واہی بٹورتے ہیں۔ مالی پھر سے نئے پھولوں کی آبیاری میں مصروف ہو جاتا ہے۔گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔مالی کو کبھی یہ غم نہیں ہوتا کہ گلچیں نے اس کی محنت پر اپنا تصرف کیوں کیا؟اسے تو بس یہ غم ستاتا ہے کہ اگر باغ میں پھول نہیں کھلیں گے تو گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا؟

یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہاں گلشن سے مراد اسکول، کالج، یونیورسٹی اور مدارس ہیں۔ مالی سے مراد اردو کے خدمت گار اساتذہ اور سچے بہی خواہ ہیں اور گلچیں سے مراد۔۔۔۔ ؟

اشعار کے پردے میں ہم جن سے مخاطب ہیں

وہ جان گئے ہوں گے کیا نام لیا جائے

اردوزبان ان شاء  اللہ تاقیامت زندہ رہے گی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ایسے مالیوں کی ہمیشہ ضرورت رہے گی جو اپنے خونِ جگر سے سینچ کر اس کی آبیاری کرتے رہیں ورنہ گلشن کے مرجھائے ہوئے پھولوں کی طرح یہ زبان بھی سسکتی اور آنسو بہاتی رہے گی۔ اس وقت اردو زبان کی کچھ ایسی ہی حالت ہے۔

ابھی کچھ روز قبل این آئی او ایس کے ڈی ایل ایڈ کورس سے اردو زبان کو بے دخل کر دیا گیا۔ اردو کے ہزاروں امیدوار وںکے علاوہ اردو سے محبت رکھنے والے عام لوگ بھی مایوسی کا شکار ہوئے۔ کچھ اخبارات نے خبریں بھی شائع کیں لیکن اردو کے کسی ادارے یا اردو کے کسی’’ سرکردہ گلچیں‘‘ نے معاف کیجیے گا اردو کی کسی سرکردہ شخصیت نے اس معاملہ میں مداخلت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بھلا ہو جناب امتیاز احمد کریمی، ڈائرکٹر اردو ڈائرکٹوریٹ کا کہ صرف ان کی طرف سے تھوڑی سی پیش قدمی کی گئی۔ بعد میں کچھ نوجوانوں کی فعالیت اور جوش و جذبے کی بدولت عدالت کا سہارا لے کر ایک بار پھر سے این آئی او ایس کے نصاب میں اردو کو شامل کروایا جا سکا۔

اردو کا مستقبل اردو کے تعلیمی ادارے ہیں جہاں اردو سب سے زیادہ کس مپرسی کا شکار ہے۔ بہار کے سبھی سرکاری پرائمری اور مڈل اسکولوں میں نصابی کتابیں مفت میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس سیشن سے کتابوں کی جگہ طلبہ و طالبات کے اکائونٹ پر پیسے بھیجے جا رہے ہیں۔ کتابیں انہیں بازار سے خریدنی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس بار بہار اسکول ٹکسٹ بک کائورپوریشن نے اردو میڈیم کی کتابیں شائع ہی نہیں کی ہیں۔ یعنی اردو میڈیم سے پڑھنے والے طلبہ و طالبات کو بحالتِ مجبوری ہندی مڈیم کی کتابیں خریدنی ہوں گی۔ ویسے بھی اردو میڈیم کی کتابیں شاید ہی کبھی وقت پر دستیاب ہوتی تھیں۔ اْس پر اکثر اساتذہ اردو میڈیم سے پڑھانا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ اب تو سرے سے اردو میڈیم کی کتابوں کی اشاعت ہی بند ہوگئی تو کون پڑھے اور کون پڑھائے؟

یہ تو ہوادوسرے موضوعات کی اردو میڈیم کتابوں کا مسئلہ۔ اردو کی جو درسی کتابیں درجہ سوم سے درجہ ہشتم تک پڑھائی جاتی ہیں اْس میں زبان و بیان کی اتنی خامیاں ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ درجہ ہشتم میں مرزا غالب کا چلتا پھلتا شعر ؎

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

اس طرح درج ہے ؎

ہم ہیں مشتاق اور وہ بے نیاز

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

ایسی بے شمار غلطیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں اور ہر سال تصحیح کے بغیر شائع ہوتی ہیں اور تقسیم ہوتی ہیں۔ میں نے درجہ ششم سے درجہ ہشتم تک کی اردو کی نصابی کتابوں میں طباعت کی غلطیوں کی طرف کئی بار ایس سی ای آر ٹی اور بہار ٹکسٹ بک کارپوریشن کی توجہ مبذول کرائی لیکن کون سنتا ہے فغان درویش۔۔۔

یہ تو ہے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں اردو کی صورت حال۔ گیاروہیں اور بارہویں جماعت میں چلنے والی اردو کی کتاب تقریباً دیڑھ سال سے پورے بہار میں کہیں دستیاب نہیں ہے۔گیارہویں اور بارہویں جماعت کا اردوکا نصاب تو نہ جانے کب سے شائع ہی نہیں ہوا۔ یعنی اساتذہ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ انہیں درسی کتابوں کے علاوہ قواعد، مضمون نگاری، خطوط نگاری، تلخیص نگاری وغیرہ میں سے کیا کچھ پڑھانا ہے۔

کالج اور یونیورسٹیز میں بھی اردو کی صورت حال بہت اطمیان بخش نہیں ہے۔ اساتذہ کی بحالی نہیں ہونے اور پرانے اساتذہ کی سبکدوشی یا پروموشن کی وجہ سے خالی ہونے والی جگہیں ہنوز خالی ہیں۔ کہیں کہیں یہ کمی ریسرچ اسکالرز پوری کر رہے ہیں اور کئی جگہ تالالگنے کی نوبت ہے۔

ابھی حال ہی میںشیخ عقیل احمد نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں بطور ڈائرکٹر اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ یہ ہندوستان میں اردو کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ ہے۔ شیخ عقیل احمد نے ذمہ داری سنبھالتے ہی پرائمری سطح پر اردو کو رائج کیے جانے پر زور دیا ہے۔ ’’اردو کو پرائمری سطح پر رائج کیا جانا ضروری‘‘ اس عنوان سے ان کا بیان ہندوستان کے تقریباً سبھی اردو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوا ہے۔ یقیناً پرائمری سطح پر اردو کو رائج کیے بغیر اردو کی ترقی کا سبھی خواب ادھورا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پرائمری سطح پر اردو کو رائج کرانے کے لیے کون لوگ آگے آئیں؟ اساتذہ کی کمی کا مسئلہ، کتابوں کی عدم فراہمی کا مسئلہ، اردو اساتذہ کی تربیت کا مسئلہ، اردو کی نصابی کتابوں کی اشاعت کا مسئلہ۔۔۔۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے کیا لائحۂ عمل اختیار کیا جائے؟ جن لوگوں کے پاس وسائل اور اختیارات ہیں اگر وہ بھی ’’گلچیں‘‘ کی طرح باغوں کے پھول کو زینت کوچہ و بازار بنانے پر آمادہ ہو جائیں تو بیچارے مالی وفا کی آس لیے کس کے پاس جائیں گے  ؎

وفا کی آس لیے کس کے در پہ جائیں شکیلؔ

جب آپ ہی نے گنہگار کر کے چھوڑ دیا

تبصرے بند ہیں۔