جب بھی کرتا ہے ترا ہجر پریشان مجھے 

جمیل اخترشفیق

جب بھی کرتا ہے ترا ہجر پریشان مجھے

لگنے لگتی ہے بہت موت بھی آسان مجھے

دیکھ کر مجھ کو نہ مصروف ہوا کر پیارے

میں بھی لگتا ہوں کوئ غور سے پہچان مجھے

تیرا پل بھر کے لیے یونہی خفا ہوجانا

کر گیا کتنا ترے شہر میں انجان مجھے

اس سے بڑھ کر بھی محبت کا حوالہ کیا دوں

سب سمجھتے ہیں ترے واسطے نادان مجھے

گر نکلنا ہے تو پھر پہلے تصور سے نکل

کیونکہ کرتا ہے ترا عکس پریشان مجھے

سوچتا رہتا ہوں کب درد سے باہر نکلوں

پڑھنا پڑتا ہے مگر میر کا دیوان مجھے

ایک مدت سے اسی کرب میں جیتا ہوں شفیق

کاش مل جاتا کہیں پیار کا سامان مجھے

تبصرے بند ہیں۔