جب لڑکے لڑکے نہیں رہیں گے

مرد فرنگ کے مردو زن نا شناسی کا فلسفہ

عبدالعزیز
انگریزایک طرف آسمانوں میں کمندیں ڈال رہے ہیں اور پوری دنیا میں علم و تحقیق کے معاملے میں سب سے آگے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی زندگی اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے جو بہت پہلے فرنگیوں کیلئے کہا تھا وہ آج بھی سہی ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا ۔۔۔ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا۔۔۔ آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا!
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا ۔۔۔ زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
حقیقت یہ ہے کہ یورپ، امریکہ اہل دانش سے بھرا ہوا ہے مگر اہل نظر کم یاب ہیں جس کی وجہ سے انسانیت بھٹک رہی ہے۔ تعلیم عام ہے مگر جو تعلیم کی روح ہوتی ہے تربیت وہ ندارد ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اہل یورپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف بھی مبذول کرائی تھی:
زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے ۔۔۔ زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوزِ دماغ
علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ہے ۔۔۔ ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
اہل دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہل نظر ۔۔۔ کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا یاغ
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادِ دل کہاں ۔۔۔ کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!
مرد فرنگ کا ایک زمانہ سے بڑا مسئلہ زن ناشناسی کا ہے۔ وہ عورت کیا ہے؟ اسے کیا درجہ دینا چاہئے؟ مرد و زن میں فرق کیا ہے؟ دونوں کا دائرہ کار کیا ہونا چاہئے؟ اس سے وہ ہر دور ہر زمانہ میں ٹھوکر پر ٹھوکر کھا رہے ہیں :
ہزار بار حکیموں نے اس کو سمجھایا ۔۔۔ مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں ۔۔۔ گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پروین
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور ۔۔۔ کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
یہ اہل فرنگ کبھی مرد کو زن اور زن کو مرد بنانے کی تدبیر کرتے ہیں اور کبھی ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہوتے ہیں تو اسے ہم جنسی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس وقت برطانیہ کے اکثر اسکولوں میں لڑکوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اسکول میں اسکرٹ (Skirts) پہن کر آئیں اور لڑکیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پتلون یا جھالر دار پائجامہ (Trousers) پہن کر آئیں۔ ٹیچروں کو ہدایت دی جارہی ہے کہ لڑکے کو نہ لڑکا کہیں اور نہ لڑکی کو لڑکی بلکہ Gender – Neutral Terms یعنی جنس کا اظہار نہ ہو۔ برطانیہ کے عقلمند بیوقوفوں (جہل خرد) کے دماغ میں دور کی کوڑی آئی ہے کہ اس سے لڑکے جو لڑکیوں کو ستاتے ہیں اور ان کو پریشان کرتے ہیں۔ اس میں کمی واقع ہوجائے گی۔ اس پہلے ان بیوقوفوں کے دماغ میں آیا تھا کہ آزاد جنسی تعلق (Free Sex Relation) سے معاملہ سلجھا لیا جائے گا مگر یہ حکمت عملی اپنا کر ٹھوکر پر ٹھوکر کھاکے دیکھ لیا کہ اس سے بھی ان کا بھلا نہیں ہواکیونکہ
’’جو قومیں تباہ ہوچکی ہیں ان کے آثار اور ان کی تاریخ کو دیکھئے، شہوانیت ان میں حد سے متجاوز ہوچکی تھی۔ ان کے لٹریچر اسی قسم کے ہیجان انگیز مضامین سے لبریز پائے جاتے ہیں۔ ان کے تخیلات، ان کے افسانے، ان کے اشعار، ان کی تصویریں، ان کے مجسّمے، ان کے عبادت خانے، ان کے محلات، سب کے سب اس پر شاہد ہیں۔ جو قومیں اب تباہی کی طرف جارہی ہیں ان کے حالات بھی دیکھ لیجئے۔ وہ اپنی شہوانیت کو آرٹ اور ادبِ لطیف اور ذوقِ جمال اور ایسے کتنے ہی خوشنما اور معصوم ناموں سے موسوم کرلیں مگر تعبیر کے بدل جانے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ کیا چیز ہے کہ سوسائٹی میں عورت کو عورتوں سے زیادہ مرد کی صحبت اور مرد کو مردوں سے زیادہ عورتوں کی معیت مرغوب ہے؟ یہ کیوں ہے کہ عورتوں اور مردوں میں تزئین و آرائش کا ذوق بڑھتا چلا جارہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ مخلوط سوسائٹی میں عورت کا جسم لباس سے باہر نکلا پڑتا ہے؟ وہ کون سی شے ہے جس کے سبب سے عورت اپنے جسم کے ایک ایک حصے کو کھول کھول پیش کر رہی ہے اور مردوں کی طرف سے ہَلْ مِنْ مَّزِیْد کا تقاضا ہے؟ اس کی کیا علت ہے کہ برہنہ تصویریں، ننگے مجسّمے اور عریاں ناچ سب سے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں؟ اس کا کیا سبب ہے کہ سینما میں اس وقت تک لطف ہی نہیں آتا جب تک عشق و محبت کی چاشنی نہ ہو اور اس پر صنفی تعلقات کے بہت سے قولی اور فعلی مبادی کا اضافہ نہ کیا جائے؟ ‘‘
اسلام نے جس نقشے پر نظام معاشرت کی تاسیس کی ہے اس کے چند ایسے تحفظات ہیں جن سے اس کا نظم اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ اسلام میں یہ تحفظات تین قسم کے ہیں:
۱) اصلاح باطن ۲) تعزیری قوانین اور ۳) انسدادی تدابیر۔
بدقسمی سے اسلام نے جو نسخہ کیمیا بتایا تھا اہل فرنگ وہ شد و مد سے اس کے خلاف ہیں جس کی وجہ سے وہ بے حیائی کی ساری سرحدیں توڑ چکے ہیں۔ اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’بے حیا باش ہر چہ خواہی کن‘‘ (بے حیابن جاؤ جو چاہو کرو)۔
اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یورپ، فرانس اور امریکہ میں مسلم خاندان جو پاکیزگی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کو رجعت پسندی کا الزام دے کر بے حیائی کے ماحول میں زور زبردستی لانا چاہتے ہیں تاکہ ان کو کوئی بے حیا کہنے والا نہ رہے اور یہ بھی چاہتے ہیں ؂
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔