جب لکھامیں نے بہت سونچ سمجھ کر لکھا

جمالؔ کاکوی

جب لکھامیں نے بہت سونچ سمجھ کر لکھا

عکسِ آئینہ ہے ، آ ئینے کے اندر لکھا

دل کے تپتے ہوئے صحرا کو سمندر لکھا

پھول کو پھول لکھا پتھر کو پتھر لکھا

میں جو شاہد ہوں ، میرا فرض تھا منظر لکھا

شب کی روداد نیا صبح کا تیور لکھا

لب پہ اک حرف شکایت کا نہ لایا ہر گز

ایسی خاموش مجازی کو سخن ور لکھا

آنکھ میں قطرہ جو آیا مرا آنسو بن کر

اس کی توقیر بڑھایا اسے گوہر لکھا

سخت دشوار تھا مضمون مفصل لکھنا

صرف عنوان لکھا خنجر و نشتر لکھا

لکھتے لکھتے ہی مجھے حرف برتنا آیا

لکھا اک بار جو سو بار مقرر لکھا

قید زنداں میں رہا فکر مری آزاد رہی

در ودیوار پہ جو لکھنا تھا کھل کر لکھا

نہ ڈرا ہے نہ بکا ہے مرا بے باک قلم

جو لکھا جمال ؔ نے بے خوف وخطر لکھا

تبصرے بند ہیں۔