جزئیات مزعومۂ عقائد کا غرور باطل

تحریر: مولانا ابو الکلام آزادؒ… ترتیب: عبدالعزیز

افسوس جزئیاتِ مزعومہ عقائد کے غرورِ باطل نے مسلمانوں کو جس قدر نقصان پہنچایا، کسی چیز نے نہیں پہنچایا۔ عمل صالح کی اہمیت بالکل جاتی رہی اور سارا دار و مدار چند مزعومہ عقائد پر آکر رہ گیا۔ ایک شخص صرف اس غرور میں کہ الفؔ سے لے کر یؔ تک ٹھیک ٹھیک عقاید نسفیٰ کا مجسمہ ہوں، تمام مسلمانوں کو حقیر و گمراہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ عمل صالح اور ایثار و محبت فی اللہ کوئی شے نہیں۔ ایک شخص تقویٰ و طہارت میں کتنا ہی اصلح ہو، لیکن اگر کسی ایک جزئی و ضمنی عقیدہ میں بھی مخالف ہوا تو اس کی ساری عمر کی کمائی رائیگاں گئی اور باوجود عمر بھر کے ایمان و عمل صالح کے کافر کا کافری ہی رہا۔ جس کلمہ کے ایک بار اقرار کرلینے سے ابو سفیان اعدی عدوسے اسلام اور وحشی قاتلِ حمزہ کا خون حرام ہوگیا تھا؛ اور اگر ابو جہل بھی اقرار کرلیتا تو اس کی ساری عمر کا کفر و طغیان محو ہوجاتا؛ آج ساری عمر اس کے ایمان و عمل میں بسر کر دیجئے لیکن پھر بھی مومنوں کے گروہ میں شمار ہونے کا حق حاصل نہیں کرسکتے! افسوس تیرہ سو برس گزر گئے مگر کفر و ایمان کی گتھی آج تک نہ سلجھی ؎
جز سخن کفرے و ایمانے کجاست … خود سخن در کفر و ایماں میرود
اصل یہ ہے کہ اسلام نے بابِ عقائد میں صرف بنیاد کی چند صاف صاف اور موٹی موٹی باتیں بتلا دی تھیں اور اس کے بعد سارا دار و مدار عمل صالح پر رکھا تھا۔ بنی الاسلام علی خمس الخ۔ اور مَنْ ء َامَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحاً فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ ہر طرح کی فضیلت و مزیت کا معیار صرف تقویٰ اور اس کے مراتب بَعْضُھَا عَلٰی بَعْضٍ تھے اور بس کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔ جو شخص شہادتین کا اقرار کرتا تھا۔ بجمتر د اقرار مسلمانوں میں داخل ہوجاتا تھا؛ اور پھر مسلمانوں میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں سب سے زیادہ ایثارِ جان و مال کرتا تھا، وہی سب سے افضل و اعلیٰ سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کا پورا عہد گزر گیا، مگر کسی شخص کو ایک لمحہ کیلئے اس کا وہم بھی نہیں گزرا کہ اسلام و ایمان اور فضیلت و بزرگی کا معیار عمل صالح اور تقویٰ و طہارت کے سوا اور بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔ اس قسم کی روایتیں جو تم صحاح میں پڑھتے ہو: وکان اصحاب رسول اللہ ﷺ لا یرون شیئا من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ، تو ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ بنیاد ساری باتوں کی صرف عملی زندگی تھی۔ عقائد کے بات میں نہ تو کوئی اختلاف تھا اور نہ فتنۂ تفریق و تمذہب کی بنیاد پڑی تھی ؎
لیلیٰ و مجنوں بہم می بودہ اند … پیش ازیں خوش روزگارے بودہ ست
لیکن اس کے بعد فتن و فساد اور بدعات و محدثات کا آغاز ہوا اور اوائل بنو امیہ ہی میں عجمی اقوام کے اختلاط اور عجمی علوم ذہنیہ مہلکہ کے شیوع سے عقائد میں فتنۂ کاوش و تعمق کی بنیاد پڑی جس کو اسلام نے نہایت سختی سے روک دیا تھا کہ ہلک المعمقون اور نئے نئے سوال پیدا ہونے لگے۔ یہ حال دیکھ کر مجبوراً ہل حق و سنت کو اس طرف متوجہ ہونا پڑا اور باب عقائد میں سب سے پہلے رد و کد اور بحث و نظر کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں تک جو کچھ ہوا بالکل ٹھیک تھا اور ناگزیر، لیکن آگے چل کر یہ چیز حد اعتدال سے متجاوز ہوگئی۔ عقائد کے ردو کد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روز بروز لوگوں کی توجہ اسی کی طرف بڑھنے لگی اور رفتہ رفتہ عمل کی طرف سے طبیعتیں بے پروا ہوگئیں، حتیٰ کہ آج یہ حال ہے کہ اسلام و ایمان کا سارا دار و مدار محض چند جزئیات اختلافیہ عقائد کی محافظ پر آکر ٹھہر گیا ہے اور صرف انہی کے غرور و پندار میں ہر شخص مست رہتا ہے۔ عمل کی درستگی اور تقویٰ و طہارت کی اہمیت و تقدیم یک قلم فراموش کر دی گئی ہے اور قریب ہے کہ اسلام کے ارکان و شرائط سے عمل صالح کا رکن اس طرح معدوم ہوجائے گویا وہ کوئی ضروری چیز تھا ہی نہیں۔ ساری جستجو اور کاوش صرف اس کی ہوتی ہے کہ فلاں شخص کے عقائد کیسے ہیں؟ یعنی چند مزعومہ جزئیات غیر متعلقہ میں اس کے عقیدے کا کیا حال ہے؟ اس کو کوئی نہیں دیکھتا کہ اس کا عمل کیسا ہے! اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں انفاقِ جان و مال کا کیا حال ہے؟ تقویٰ و طہارتِ نفس کے لحاظ سے کیسی زندگی بسر کرتا ہے؟ بندوں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہے اور خدا کے خوف سے دل خالی رکھتا ہے یا بھرپور؟ معاملات کا کیا حال ہے؟ لین دین میں سچائی اور دیانت ہے یا نہیں؟ ایک شفیق باپ، رفیق بھائی، وفادار شوہر اور رحیم و غمگسار ہمسایہ ہے یا ایک بے رحم وجود، بے حس پتھر اور موذی و مہلک مخلوق؟ ان ساری باتوں میں (جن کے الگ کر دینے کے بعد اسلام میں کوئی باقی نہیں رہتی) اس کا حال خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر چند اختلافی جزئیات میں ہمارا ہم آہنگ ہے، تو پھر ہمارے نزدیک اس سے افضل ہستی روئے زمین پر کوئی نہیں ! یہی گمراہی یہود کی تھی کہ صرف اسرائیلیت کے غرور میں بدمست رہتے تھے۔ وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلاَّ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃْ۔ یہ غرورِ عقائد کا فتنہ بہت ہی بڑا فتنہ ہے اور آج مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی اس سے گھلی جارہی ہے۔ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔

تبصرے بند ہیں۔