پلیٹ فارمِ توحید

شیما نظیر

یوں تو آج ہر کوئی جانتا ہے ملک کے کیا حالات ہیں ایسے میں ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے
ہم تمام کا فرضِ منصبی آج ہمیں آواز دے رہا ہے کہ اٹھو اور ان حالات میں اپنے فرضِ عین سے غفلت مت برتو’ ہم نے دوسرے مذاہب کے افراد کو احتجاج کرتے دھرنے منظم کرتے مارچ کرتے دیکھا ہے لیکن کبھی بھی اپنے مذہب کی بقاء کیلئے نہ ہی بلکہ دنیاوی زندگی میں اپنی بقاء کیلئے اپنے حقوق کیلئے لڑتے دیکھا
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہبِ اسلام کے ماننے والے واحد وہ قوم ہیں جو اپنے ایمان کی بقاء اور اسلام.کے تحفظ کی لڑائی لڑتے ہیں ـ
کیونکہ دنیا ہماری نظروں میں ہیچ ہے آخرت جو کہ دائمی ہے اسی کیلئے ہماری تمام تر کوششیں ہوتی ہیں کیونکہ ہم اپنی اولاد کو ورثہ میں سونا’ چاندی’ زیور’زمین’ جائیداد بھلے ہی نہ دیں مگر اسلام ضرور دےجاتے ہیں
جسکے لیئے قوم کا ہر فرد اپنی جان کی بازی لگا سکتا ہے
اسمیں ہم ہارے نہی ہیں ہاں کوتاہ ضرور ہوئے ہیں اور اسی کوتاہی نے آج اس مقام پر لا کھڑا کردیا
کیونکہ اسلام اور اسکی اہمیت تو بتادی ‘  اپنی آنے والی نسلوں کو لیکن اسکی صحیح تفہیم.نہ کرسکے نہ علم سے نہ عمل سے اسی وجہ سے اس مقام پر آگئے آج شعور بیدار ہورہا ہےاس شعور کو بلندیوں کے اس مقام تک لیجائیں جہاں سے دنیا متاعِ دنیا مختصر نظر آئے
ہمارے جذبوں کو اسقدر بڑھائیں کہ جسطرح جنگِ احد میں اپنی جان کی بازی لگا کر کچھ صحابہ نے اللہ کے نبی صلٰی اللہ علیہ وصلعم کی حفاظت فرمائی تھی ـ ٹھیک اسی طرح آج ہمیں ایمان کی حفاظت کیلئے جان کی بازی لگانے کی ضرورت ہے ورنہ
کچھ ترمیم کے ساتھ اس شعر کے مصداق
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے مسلمانوں
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

کہیں ایسا حال نہ ہوجائے
آج ایک ہلکی سی یکساں سول کوڈ کی جنبش نے تمام.مسلم جماعتوں کو یکجا کردیا
دیکھنے والے دنگ ہیں کہ ہم آپسی اختلاف کے باوجود کسطرح متحد ہوگئے یہی تقاضا ہے توحید کا
ہمیں اسی بیداری کے ڈر سے فرقوں اور مسالک میں بانٹ کر ہم پر وار کرتے رہے لیکن باوجود اسکے آج ہم پھر ایک ہیں اس پلیٹ فارمِ توحید پر
کیونکہ باطل کتنا بھی زور لگالے حق کو کچل نہی سکتا
تاریخ نے دیکھا کہ جہاں خالد بن ولید
مصعب بن عمیر اور بہت سارے شجیع صحابہ کو وہیں جیالے نوجوانانِ اسلام میں قابلِ ذکر محمدبن قاسم کو اور پھر یہ تو ہمارہ شیوہ رہاھیکہ ہم سر جھکانے کے بجائے کٹانا پسند کرتے ہیں جہاں مردوں نے اسلام کی باگ ڈور سنبھالی وہیں خواتین نے اماں عائشہ سے لیکرزینب غزالی نے اور موجودہ دور کی کئی خواتین ہیں جو حق کیلئے آواز بلند کرتی رہی ہیں کرتی رہیں گی
اور کئی ماؤں نے اپنے بیٹے ‘ بہنوں نے اپنے بھائی ‘ دلہنوں نے اپنے سہاگ کو اسلام پر قربان کیا ہے کرتی رہیں گی یہی جذبہء حمیت ہماری جاگیر ہے
لاکھ انکاؤنٹر کرلو ایک مسلمان مرے گا ( معافی شہید) ہوگا تو چار اسکی جگہ پر آکر کھڑے ہوجائیں گے ہمارے ایمان کو متزلزل کرلے یہ زمانے میں دم نہی
کیونکہ ہم.جانتے ہیں کہ ہر مصیبت منجانب اللہ ہے اور اسمیں بھی کوئی بھلائی مضمر ہوتی ہے
انّ مع العسرِ یُسرا
اسکا مطلب بھی ہم خوب جانتے ہیں دنیا سے جانا حق ہے لیکن شہید ہوکر یہ خوشبختی ہے جو کہ مقدرات میں سے ہے
مومن اللہ سے ملاقات کا مشتاق ہوتا ہے لہٰذا وہ موت سے گھبراتا نہی ہے
ارے گھبراتے وہ ہیں جو اسے قریب سے دیکھ لیں اسکے دن رات اسکی کاوشیں جو اللہ کیلئے ہوتی ہیں
غرض ان حالات میں استقامت دین کا فہم شعورِ بیداری کی سخت ضرورت ہے ان سب سے زیادہ اتحادِ امت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
اللہ ہم سب کو دین کا صحیح حق ادا کرنے والا بنائے
تم بدل جاؤگے دن رات  بدل جائیں گے
پھر یہ افکار و خیالات بدل جائیں گے
کفر اسلام سے ہوجائے گا مغلوب اک دن
خود کو بدلوگے تو حالات بدل جائیں گے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔