الگ ہے ’’بات کا اسلوب‘‘

’’آیا ، دیکھااور فتح کیا‘‘

حقانی القاسمی

عظیم فاتح نپولین بونا پارٹ کے تعلق سے یہ جملہ بہت مشہور ہے۔ اقلیم ادب میں ایسا ہی ایک واقعہ ، ہمارے عہد کے عبدالمنان طرزی سے بھی جڑ گیا ہے۔۔۔۔۔!منظوم طرز گفتار (Vincta)کے واحد مکمل کردار عبدالمنان طرزی کے ریشے ریشے میں شاعری اس طرح سمائی ہوئی ہے، ’شاخ گل‘ میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم‘۔شعر گوئی ان کے لیے جوئے شیر لانے جیسا نہیں،بلکہ شہد میں شکر ملانے جیسا ہے۔ ان کے احساس کے آکاش پر لفظوں کے اتنے ستارے چمکتے رہتے ہیں کہ بس اشارہ پاتے ہی شبد ستارے، تخلیقی احساس و اظہار میں نگینہ کی طرح جڑ جاتے ہیں۔

طرزی کے باطن کا آہنگ جب خارجی اظہار میں ڈھلتا ہے تو اس اظہار میں رعنائی کے ساتھ داخلی توانائی بھی شامل ہوجاتی ہے اور اسی داخلی توانائی نے ان کے تخلیقی وجود کو اتنی فعالیت اور حرکیت عطا کی ہے کہ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کو مضمحل اور افسردہ نہیں ہونے دیا بلکہ تیز گامی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ 24×7ادیب بھی اتنے سریع الحرکت نہیں ہیں جتنا کہ عبدالمنان طرزی اپنے عالم پیری میں ہیں۔ ان کے پاس جو ’’قوت تخلیق‘‘ ہے۔ ایسی قوت بہتوں کو تخلیقی تمرین ، مشق و ممارست کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتی اسی لیے ان کے شجر ثمردار کی شاخیں مختصر مدت میں ہر طرف پھیل گئی ہیں۔
یہ ان کی تخلیقی قوت کا ہی کرشمہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا، منظوم لکھا، سنگلاخ زمینوں میں بھی شاعری کا ہی سہارا لیا۔ تنقید لکھی تو منظوم ، تبصرہ لکھا تو منظوم جب کہ یہ نوک خارسے داستان گل لکھنے جیسا عمل ہے۔ نثری اظہار میں آزادی ہے مگر یہاں تو بحور و اوزان کی قید ہے پھر بھی اس قید میں جو تلاطم اور طغیانی ہے، اس سے بہتوں کی نثر محروم ہے۔
منظوم تنقید اور تبصرہ کے لیے ذہنی ارتکاز اور استحضار کی شدید ضرورت پڑتی ہے اور یہ ارتکاز صرف انہی افراد کو میسر ہے جن کے پاس صحت مند دل، دماغ اور بیدار آنکھیں ہوتی ہیں۔
طرزی کی تخلیق میں دو لہریں نمایاں ہیں۔ ایک لہر جذبات کی ،دوسری لہر خیالات کی۔ایک میں ذہن (Mind)کی کارفرمائی نظر آتی ہے تو دوسری میں مراقبہ (Meditation) کی۔
ذہنی تحرک کے نتیجے میں جن تصانیف کا ظہور ہوا ہے ، ان میں نارنگ زار، دستار طرح دار، مناظر نامہ، منظوم جائزے (پروفیسر وہاب اشرفی کی تصنیفات و تالیفات) شامل ہیں جب کہ میڈی ٹیشن کا کا نتیجہ خیزثمر ’’طلع البدر علینا‘‘ اور ’’سیرۃ الرسول‘‘ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ جس میں تجلیات اور مکاشفات کی کیفیت ہے جو ان کی مکمل تخلیقی محویت کا مظہر ہیں۔ جس میں ان کا تخلیقی انہماک ، انتہائی عروج پر نظر آتا ہے۔ اس میں غیر مادی جذبے کی نمود ہے اور ان کے باطنی آہنگ کا تجریدی کردار بھی ہے اور یہی De-materialisation of wordsہے۔ اس میں ان کی وجدانی بصیرت کا اظہار ہے۔ ’’طلع البدر علینا‘‘ کی صورت میں طرزی نے ایک ایسی خوشبو ہوا کے حوالے کر دی ہے جو انفس و ازل تک پھیل رہی ہے۔
طرزی کے ان سارے کارناموں کو بھلا دیجئے، بلکہ بہتر یہی ہے کہ بھول جائیے جو ضرورتاً معروضِ وجود میں آئے ہیں۔ صرف اس کارنامہ کو یاد رکھئے جو حب حقیقی اور عشق صادق کے نتیجے میں سامنے آیا ہے تو طرزی اپنی تخلیقی تطہیر و تزکیہ کے عروج پہ نظر آئیں گے۔ یہی تخلیق وہ ظلال ہے، جس کوزوال نہیں اور یہی دنیا میں سرخرو اور عقبی میں سرفراز کرنے والی تخلیق ہے۔ باقی تخلیقات کی Longevity بتانے کی ضرورت کیا؟
عبدالمنان طرزی نے اپنے تخلیقی Uniquenessکو برقرار رکھا ہے۔ ان کی یہ مختلف معنویت نہ منہدم ہوسکتی ہے اور نہ مدفون، یہ مختلف طور و طریق ہی طرزی کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں ، ان کی شخصیت میں جو ترتیب و تنظیم اور حسن ہے، وہی حسن ان کی تخلیق اور ان کے ناموں میں بھی ہے جس سے ان نابغہ روزگار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جن کی کتابوں کے خوب صورت ، مسجع ، مقفی عنوان سے کتاب کی پوری ماہیت منکشف ہوجاتی تھی۔ مثلاً شذور العقیان فی تراجم الاعیان، طرب الاماثل فی تراجم الافاضل، یتیمۃ الدھر فی محاسن اھل العصر، خریدۃ القصررو جریدۃ العصر، الغصون الیانعۃ فی محاسن شعراء المائۃ الثامنہ، الکتیبۃ الکامنہ فی من لقیناہ باالا ندلس من شعراء المائۃ الثامنہ، الارشاد البلید فی اثبات التقلید، الدرالفرید فی المنع عن التقلید التشدید فی اثبات التقلید، مآثر الکرام فی تاریخ بلگرام۔
آج کتابوں کے نام پر نظر ڈالئے تو نفور و بیزاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جب کہ عنوان کی خوب صورتی خیال کے حسن کی غماز ہوتی ہے۔
’’رفتگاں و قائماں ‘‘ سے تخلیقی فطانت کاجو تسلسل قائم ہوا، اس میں تموج پیدا ہوتا جارہا ہے اور طرزی کی شخصیت تخلیقی اُفق پر اس ستارے کی طرح نظر آرہی ہے جو بہت بلندی کے باوجود پانی کی سطح پر نظر آتا ہے۔ یہ قابل تحسین پہلو ہے کہ طرزی، کسی طرح کی نرگسیت کے شکار نہیں ہیں ورنہ ان کی شخصیت بھی اس دھوئیں کی طرح ہوتی جو فضا کی بلندیوں میں ہوتے ہوئے بھی بے کار سی چیز ہے۔
طرزی کی شخصیت کے تواضع نے ان کی تخلیقی تقدیر میں جو تابندگی اور بلندی لکھ دی ہے وہ بہت سے سربلندوں کو نصیب نہیں ہوسکتی۔ ان کے اندر جو خاکساری اور کسر نفسی ہے ، اس نے ان کی تخلیقی شخصیت کو توانائی عطا کی ہے جب کہ طرزی کا جس سرزمین سے تعلق ہے وہاں ’’دو ٹھو مضمون‘‘ لکھنے والا بھی ’’زمرئہ‘‘ کبار میں خود کو ’’شمار ‘‘ کرتا ہے۔
(مرتی ہوئی روشنی میں لکھا گیا مضمون)
(میں نے یہ مضمون آسان اردو زبان میں لکھا ہے کہ اردو پر آگے بہت برا وقت آنے والا ہے۔ ماخوذ اورموصوف کے مفہوم سے ناآشنا نسل کا جنم تو خود ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔ پتہ نہیں، مستقبل میں کیسی نسل کی تولید عمل میں آئے گی۔ اس کا زیادہ پتہ پیدائشی پروفیسروں کو ہوگا ، ویسے ہمارے عہد کے بیشتر پروفیسروں کا حال یہ ہے کہ مومن خاں مومنؔ کے مطموس ، جاموس، بلبوس، وبوس و قربوس کی تفہیم سے عاجز ہیں جب کہ یہ وہی مومن مبتلا ہیں جو نصاب میں بھی شامل ہیں۔
مجھے ڈر ہے کہ وہ وقت بہت قریب آنے والا ہے جب لوگ رفتگاں و قائماں کا مفہوم اردو کی ناقصد ، منجمد لغات میں تلاش کریں گے اور مفہوم تک عدم رسائی کی صورت میں اسے عبرانی زبان کا حصہ بنادیں گے۔ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے ہمیں عربی میں نماز جنازہ کی دعایاد کرلینی چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ رومن رسم الخط یا ناگری میں ہمیں دعا یاد کرنے پر مجبور ہونا پڑے)
٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔