جسم آزاد عقل محصور!

محمد خان مصباح الدین

انسان آپسی بات جیت میں ایک دوسرے کو تسلی دینے غم اور پریشانی کو بانٹنے کے لیے ایک جملہ ہمیشہ استعمال کرتا ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم اور ہر درد کا درماں ہے مرور ایام  کیساتھ  گہرے سے گہرا زخم بھی بھر جاتا، صبح نوکی گھنیری  زلفوں تلے ماضی کی تمام دلخراش یادیں حافظے کی لوح سے غائب ہو جاتی ہیں  لیکن میں اسے مسلمات کے پہلو میں جگہ  نہیں دیتا، کیونکہ  میرا  ماننا یہ ہے کہ یہ جملہ بظاہر صحیح تو لگتا ہے مگر معاملہ ایسا نہیں ہے۔

اس لیے کہ انسانی زندگی میں کبھی کبھی ایسے واقعات,حادثات اور سانحات سامنے آجاتے ہیں ہیں جسے انسان چاہ کر بھی اپنے دل ودماغ سے اس کے نقوش نہیں مٹا پاتا، اسکی کسک کہیں نہ کہیں باقی رہ جاتی ہے، اور ایک مخصوص وقت پر وہ یادیں ناسور بن کرسامنے آتی ہیں اور انسانی وجود کی ساری کیفیت کو پل بھر میں بدل کر رکھ دیتی ہیں۔

جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا  ہے اس کا مجھے احساس ہے کہ دنیا کا ہر انسان ماضی کے کسی نہ کسی حادثے کا زخم اپنے اندر لیے ہوتا ہے پھر لوگ کیوں یہ جملہ بارہا دہراتے ہیں کہ وقت ہر گہرے  زخم کو بھر دیتا ہے۔

 مجھے یقین ہے میری اس بات کو ہر وہ شخص تسلیم کریگا جس کی زندگی نے کسی برے حادثے کا سامنا کیا ہو۔

قارئین کرام!

 میں نے کچھ دن پہلے شوشل میڈیا پرایک یہودی نوجوان کی تصویر دیکھی جو ہاتھ میں ایک اشتہار لیے کھڑا تھا اور اس پر ایک جملہ لکھا ہوا”khyber was your last chance”

یہ جملہ پڑھ کر میں نہیں جانتا کہ کس کس پر کتنا گہرا اثر پڑا لیکن میرے اندر آگ سی لگ گئی، پل بھر میں میرے دل ودماغ میں بہت ساری باتیں ابھرنے لگیں، اس اشتہار نے نہ جانے کتنے حادثوں کو اچانک میرے دل و دماغ کی وادیوں میں جگا دیا  ایسا لگا جیسے دنیا کے  کونے میں مسلمانوں کی جلتی ہوئی بستیوں کے دھوے میری آنکھوں میں آنے لگے۔ مسلمانوں کی تڑپتی ہوئی لاشیں میری آنکھوں کے سامنے دکھائی دینے لگیں، میں حیرت میں پڑ گیا کہ یہود آج اپنے مذہب اور اپنے اصول و ضوابط کے تئیں کتنے  حساس ہیں، انھیں  اپنی تاریخ کا پورا علم ہے اسکے مقابلے ایک ہم ہیں جس نے اپنی تاریخ کو  دنیا کی محبت میں قربان کرکے اتنی گہرائی میں دفن کر دیا ہے جہاں تک رسائی شاید ہی ممکن ہو۔

 اس اشتہار کو دیکھ کر مجھے اپنی تاریخ کا وہ دور یاد آیا جب یہودیوں نے کہا تھا کہ ایک دور ہم ایسا بھی لائینگے جب مسلمان صرف نام کا مسلمان رہ جائیگا نہ اسکو اپنے دین سے کوئی واسطہ ہوگا اور نہ ہی اسے اپنی تاریخ کا کوئی علم، مسلمان زن اور زر کا غلام بنا ہوا ہوگا اس پر خوف دہشت کا سایہ اس قدر ہوگا کہ وہ سچ کو سچ کہنے کی ہمت تک اپنے اندر پیدا نہ کر سکے گا_ آج اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا ہر دوسرا شخص صرف اپنے اسلامی نام کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے باقی عملی طور پر پورا وجود خالی ہے مسلمانوں کے پاس اس وقت سوائے اس بات کے  کہ قرآن اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے اور اللہ نے دنیا و آخرت کے سارے مسائل اس میں چودہ سو سال پہلے ہی ذکر کر دیے ہیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی وضاحت کر دی ہے  سوائے اس فخریہ جملے کے اور کوئی عمل ہے ہی نہیں۔

ایک یہودی شخص اسے اپنے مذہب سے کتنا لگاو ہوگا جس نے اپنی تاریخ کو فراموش نہیں کیا بلکہ اسے یاد رکھ کر وہ دنیا کے مسلمانوں کو آنکھ دکھا کر یہ پیغام دے رہا ہے کہ خیبر کی فتح مسلمانوں کی آخری فتح تھی یہ جزبہ اسے کہاں سے ملا تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسے اپنی تاریخ نے یہ یاد دلایا ہے کیونکہ جسے اپنی تاریخ سے دلچسپی ہوگی وہ اپنا مقصد اور اپنا ہدف کبھی نہیں بھولےگا کیونکہ تاریخ ہی ہمیں بتاتی  ہے کہ ‘گرتے ہیں شہسوارہی  میدان جنگ میں۔’

گرتے وہی ہیں جو چلتے ہیں، ٹھوکریں انہیں کو لگتی ہیں جو دوڑتے ہیں جو پاوں توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں انہیں تھوکر کبھی نہیں لگتی لیکن ضروری نہیں جو ایک بار گرگیا وہ دوبارہ بھی گرے یہودیوں نے اپنی خیبر کی شکشت کو یاد رکھا اور اب نہ گرنے کی قسم کھا لی اور ہم فتح کا سہرا  باندھ کر سب کچھ بھول گئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے دنیا اسے بھلا دیتی ہے ہم لوگوں نےاپنے اصولوں کیساتھ غداری کی ہے ہم نے اسلامی ضابطوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اچھالا ہے اور دنیاوی مسائل میں اتنے مگن ہوئے کہ ہم نے دنیاوی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ لیا ہم اپنے مقصد کو بالکل ہی بھول گئے۔

آج کون بتائیگا کہ خیبر کی فتح کیا تھی, خیبر   کہاں ہے خیبر کا معاملہ کیا تھا اسے کس نے فتح کیا ہمارے نبی نے خیبر اور اہل خیبر کے تعلق سے کیا کہا تھا,حضرت عمر نے یہودیوں کو کس مصلحت کی خاطر خیبر سے نکالا تھا میں پورے دعوے کیساتھ کہہ سکتا ہوں اس بات کو جاننے والے بہت ہی معمولی لوگ ہونگے۔

میں یہ سنتا ہوں کہ کچھ لوگ ابھی زندہ ہیں

ہاں مگر یہ نہیں معلوم کہاں رہتے ہیں

سب نے دیکھی ہے تباہی بڑی خاموشی سے

تم تو کہتے تھے وہاں اہل زباں رہتے ہیں

اس کی سب سے بڑی وجہ ہے تعلیم سے غفلت, تعلیم سے ہمارا رشتہ صرف اس نظریہ کیساتھ باقی رہ گیا ہے کہ اگر تعلیم ہے تو اس کے ذریعہ کمائی زیادہ اچھی ہوگی اور اچھی نوکری ملے گی سماج میں اچھا رتبہ حاصل ہوگا آج تعلیم کایہی مطلب ہر خاص وعام میں رائج ہے اب وہ ذہنیت کہیں نظر نہیں آتی جو تعلیم کو ایک بہتر ماحول,ایک منظم خاندان,ایک خوبصورت زندگی,اچھے اخلاق,ایک باادب سماج کی بنیاد ڈالنے کے لیئے حاصل کرنے والے ہوں سبکا مقصد اور سبکی فکر ایک جیسی ہے جو بظاہر سننے میں اچھی تو لگتی ہے مگر اسکی اہمیت دنیا تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے اس تعلیم سے آخرت کا کوئی فائدہ دور دور تک نظر نہیں آتا

پوری دنیا میں اس وقت اگر اپنے مذہب کے تئیں کوئی قوم لا پرواہ ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ مسلم قوم کے علاوہ کوئی دوسری قوم ہوگی جو اپنے اصول و ضوابط اور تہذیب و ثقافت سے اتنی دور ہو کہ اسے اپنی منزل کا پتہ تک معلوم نہ ہو ہم نے یہود ونصاری کی تقلید میں اپنا تشخص، اپنا رتبہ، اپنا وقار، اپنی تہذیب وتمدن، اپنی شخصیت، اپنی عزت، اپنی شان وشوکت۔ اپنا سب کچھ نیلام کر دیا اور دوسری قوموں نے ہمارے اصول اور ضابطے اپنا کر ہمیں اپنے پیروں تلے روندڈالا اور ہمیں احساس تک نہ ہوا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے مگر پھر بھی ہم ان کی جالسازیوں کو سمجھ نہیں پائے اور مسلسل انکےشکار ہوتے چلے جا رہے ہیں پھر بھی ہم نے اپنے آپ کو نہیں سنبھالا ایسا لگتا ہے اب ذلت ورسوائی میں جینے کی عادت سی ہوگئی ہے ہمیں دوسروں کے اشاروں پہ ناچنے کی لت سی لگ گئی ہے، ہم نے اسی کو جان بوجھ کر اپنا مقدر بنا لیا ہے جبکہ ہماری تاریخ یہ بھی رہی ہے کہ ہماری بستیوں نے دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے ,ہماری قوم سے گزرنے والے راستوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ یہ راستے اس وجہ سے اتنے پرسکوں ہیں کہ اسکے ارد گرد مسلمان بستے ہیں,لوگوں نے ہمارے درمیاں پناہ لیکر اپنی عزت اور اپنے وجود کو ہمیشہ محفوظ پایا ہے  اسلامی قوانین، ہماری مستحکم تہذیب وثقافت کی گواہی دنیا کی ہر قوم نے دیا ہے ہمیں دنیا نے اپنا آئیڈیل اور نمونہ بھی مانا ہے۔

مگر اس وقت تصویر الٹی ہے اب تو معاملہ یہ ہیکہ دنیا کے کسی کونے سے کوئی بری خبر آئے۔ کہیں بھی کوئی حادثہ رونما ہوجائے سب سے پہلا نام مسلمانوں کا آتا ہے اس تصویر کو بنانے میں ہمارا ہی عمل دخل ہے ہم نے ہی دنیا کو اپنی صورت بگاڑ کر دکھائی ہے ورنہ آج بھی ہم اپنی وہی تصویر پوری دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جو کل تک لوگوں کے ذہنوں میں تھی۔ مگر اس کے لیے شرط ہے کہ ہم اللہ کی چوکھٹ سے سرکشی کے بجائے اسکے درپر سر رکھ کر اس سے معافی کے طلبگار ہوجائیں مجھے مولانا ابوالکلام آزاد کی وہ باتیں یاد آ رہی ہیں جو انہوں نے اپنے کسی خطاب میں کہا تھا کہ”تم نے غفلت کو آزما لیا,تم نے نافرمانیوں کی صدیوں تک کڑواھٹ چکھ لی,تم نے گناہ اورمعصیت کے پھل سے اچھی طرح اپنے دامن بھر لیے,  تم نے دیکھ لیا ایک خدا کی چوکھٹ سے تم نے سرکشی کی اور ساری دنیا تم سے سرکش ہو گئی اور ایک اسی کے روٹھنے سے کس طرح تمام دنیا تم سے روٹھ گئی پس مان جاؤ اور اب بھی باز آجاؤ گناہوں کو آزما چکے آوتقوی اور راست بازی کو بھی آزما لیں سرکشیوں کو چکھ چکے آو اطاعت کا مزہ بھی دیکھ لیں غیروں سے رشتہ جوڑ کے  تجربہ کر چکے  آؤ اسی ایک سے پھر کیوں نہ جڑجائیں جس سے کٹ کر ذلت و خواری اور ٹھوکروں کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آیا تھا تمہارے سفر عمل کا پہلا قدم یہ ہے کہ توبہ کرو  اور اس طرح روو کہ اس کو تم پر پیار آ جائے۔”

قارئین کرام!

ہمیں اپنی تقدیردوبارہ سنوارنے کےلئے خود سے محنت کرنی ہوگی دوسروں کی تقلید کرکے ہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ دوسروں کی تقلید میں ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشن اور واضح تعلیمات موجود ہیں ہم کل بھی انہیں اصولوں کیساتھ سرخرو ہوئے تھے اور آج بھی اسی کے ذریعہ ہونگے ان شاءاللہ اس کی مثال ہم اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں اندلس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ہماری کامیابی اس میں ہے کہ ہم دوبارہ قرآن وحدیث کے سائے تلے چلے آئیں ورنہ اپنی بربادی کا تماشہ جس طرح آج دیکھ رہے ہیں اسی طرف قیامت کی صبح تک دیکھتے رہیں گے جس دہشت اور جس خوف کے سائے کو آج ہم دور دیکھ رہے ہیں کل یہی خوف ودہشت ہمارے دروازے کو چھو کر گزرے گی۔

ہمیں اپنی بیماری کا مکمل علم ہے لیکن ہم علاج غلط طریقے سے کر رہے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ ہماری بیماری ہے ملیریا مگر پھر بھی ہم علاج جلاب کا کر ہے  یہی وجہ ہیکہ ہم صحت یاب نہیں ہو رہے ہیں کیونکہ بیماری ہے کچھ اور علاج کسی اور چیز کا چل رہا ہے اگر ہماری رگوں میں ڈوڑنے والا خون ہے اور اگر ہم اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں تو ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں جنہیں ہمیں پورا کرنا ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں صبر,خلوص,اور ایمانداری کیساتھ ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. خالد بن شیر علی کہتے ہیں

    ماشاء اللہ بہت خوب جناب
    اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں اور اضافہ کرے

    آمین

    دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دلی تمناؤں کو پورا کرے

تبصرے بند ہیں۔