جس دن سے تری آنکھ کو نم دیکھ رہے ہیں
سرفراز حسین
(مرادآباد یو۔پی۔ الہند)
جس دن سے تری آنکھ کو نم دیکھ رہے ہیں
اس دل میں بہت رنج و الم دیکھ رہے ہیں
…
اک کیف کا عالم ہے تری بزم میں ساقی
بہکے ہوئے ہم سب کے قدم دیکھ رہے ہیں
…
ہم پر ہی نہیں ہوتی کبھی نظرِ عنايت
غیروں پہ مگر تیرے کرم دیکھ رہے ہیں
…
ہو جائے نہ رسوا کہیں الفت یہ ہماری
چھپ چھپ کےیونہی آپ کوہم دیکھ رہے ہیں
…
تعلیم سے دوری کا سبب ہے یہ یقیناً
سنجیدگی بچوں میں جو کم دیکھ رہے ہیں
…
اعزاز صداقت کے جنھیں ملنے تھے یارو
ہوتے ہوئے سر ان کے قلم دیکھ رہے ہیں
…
مسند نشیں جب سےہوئے یہ عقل کے اندھے
ہر آنکھ کو روتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں
…
کب آ کے گلے سے تو لگائے گا بتا دے
ہم راہ تری کب سے صنم دیکھ رہے ہیں
…
وعدے پہ کبھی آتے نہیں یہ ہے شکايت
کھاتے ہو سدا جھوٹی قسم دیکھ رہے ہیں
…
مسکان سے چہرے جوسجے رہتے ہیں ہر دم
ہوتا ہے یہاں ان کو بھی غم دیکھ رہے ہیں
…
جب سے یہ سنا ہے کہ عیادت کو وہ آئے
بے دم میں بھی آتا ہوا دم دیکھ رہے ہیں
…
یوں ہی تو عدالت سے یقیں اٹھ گیا اپنا
بکتے ہو ئے منصف کے قلم دیکھ رہے ہیں
…
جس جابھی نظرجاتی ہےاس جاہی فراز ہم
پھٹتے ہوئے منہگائی کے بم دیکھ رہے ہیں
تبصرے بند ہیں۔