جس دن سے تری آنکھ کو نم دیکھ رہے ہیں

سرفراز حسین

(مرادآباد یو۔پی۔ الہند)

جس دن سے تری آنکھ کو نم دیکھ رہے ہیں

اس  دل  میں بہت رنج و الم دیکھ رہے ہیں

اک  کیف  کا عالم  ہے  تری  بزم  میں ساقی

بہکے  ہوئے  ہم  سب  کے قدم دیکھ رہے ہیں

ہم   پر  ہی  نہیں  ہوتی  کبھی  نظرِ  عنايت

غیروں  پہ  مگر  تیرے  کرم  دیکھ  رہے ہیں

ہو   جائے   نہ   رسوا  کہیں  الفت  یہ  ہماری

چھپ چھپ کےیونہی آپ کوہم دیکھ رہے ہیں

تعلیم   سے   دوری   کا  سبب  ہے  یہ  یقیناً

سنجیدگی بچوں میں جو کم دیکھ رہے ہیں

اعزاز  صداقت  کے  جنھیں  ملنے  تھے  یارو

ہوتے  ہوئے  سر  ان  کے  قلم  دیکھ  رہے ہیں

مسند نشیں جب سےہوئے یہ عقل کے اندھے

ہر  آنکھ  کو  روتے  ہوئے  ہم  دیکھ رہے ہیں

کب   آ کے   گلے   سے   تو  لگائے  گا  بتا دے

ہم  راہ  تری  کب  سے  صنم  دیکھ رہے ہیں

وعدے  پہ  کبھی  آتے  نہیں  یہ ہے شکايت

کھاتے  ہو  سدا جھوٹی قسم دیکھ رہے ہیں

مسکان سے چہرے جوسجے رہتے ہیں ہر دم

ہوتا  ہے  یہاں ان کو بھی غم دیکھ رہے ہیں

جب  سے  یہ  سنا  ہے  کہ عیادت کو وہ آئے

بے  دم  میں  بھی  آتا ہوا دم دیکھ رہے ہیں

یوں  ہی  تو  عدالت  سے  یقیں اٹھ گیا اپنا

بکتے  ہو ئے  منصف  کے  قلم دیکھ رہے ہیں

جس جابھی نظرجاتی ہےاس جاہی فراز ہم

پھٹتے  ہوئے  منہگائی کے بم دیکھ رہے ہیں

تبصرے بند ہیں۔