جس کو تجھ سے پیار نہیں ہے

جمالؔ کاکوی

جس کو تجھ سے پیار نہیں ہے
جینے کا حقدار نہیں ہے
ہرصورت دیدار نہیں ہے
ہر چہر ہ اخبار نہیں ہے
صحرا میں دیوار نہیں ہے
غربت میں تہوار نہیں ہے
اس کا کوئی یار نہیں ہے
جو اس کا بیمار نہیں ہے
دل کو دے کر روتے پھرنا
وحشت ہے ایثار نہیں ہے
کیاپھیلائے اپنا دامن
دیوانہ ہشیار نہیں ہے
اپنا مکھڑا تودرپن اپنا
ہر شیشہ میعار نہیں ہے
اس کی ہر تخلیق جدا ہے
اک صورت دوبار نہیں ہے
دل میں اپنا قبلہ کعبہ
مسجد کا مینار نہیں ہے
واعظ جنت کا بھی طالب
پینے سے انکار نہیں ہے
بخل کا دامن بھرتا کب ہے
دولت سے دل دار نہیں ہے
مالک میرے تو ہی مالک
اپنا گھر سنسار نہیں ہے
گوری میرے پاؤں کی بیڑی
پایئل کی جھنکار نہیں ہے
بالم واپردیس سدھارے
سجنی کاسنگھار نہیں ہے
جمالؔ خود ہی سے الجھا ہوں
دنیا سے تکرار نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔