جشن سر سید تقریبات

’’سر سید کا سیکو لرزم اور سبلا ئزیشن قا بل تقلید ہے۔ سر سید کے عہد اور ان کے قبل کی تحریکوں نے مذہب کا سہارا لیا تھا جب کہ سر سید نے اپنی تحریک کے لئے مذہب کا استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے مذہب میں اصلاح کی کوشش تو کی لیکن روا داری اور اخوت و مساوات کو اپنا مشن بنایا۔ آج کے حالات کے تنا ظر میں ایک بار پھر سر سید کے مشن کی تقلید انتہائی ناگزیر ہے۔ ‘‘ یہ الفاظ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایمر یٹس پروفیسر جناب ڈاکٹر شمیم حنفی کے تھے۔ وہ شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی اور سر سید ایجو کیشنل سو سائٹی، میرٹھ کے باہمی اشتراک سے منعقد ہو رہے چہار روزہ جشن سر سید تقریبات کے آج چوتھے اور آخری دن پریم چند سیمنار ہال واقع یونیورسٹی کیمپس میں اختتامی جلسہ سے خطاب فر مارہے تھے۔

سر سید نے اپنی تحریک کے لئے مذہب کا استعمال نہیں کیا: پروفیسر شمیم حنفی

آج چہار روزہ جشن سر سید تقریبات کے آخری دن پریم چند سیمنار ہال میں اختتامی جلسہ منعقد ہوا۔ جس کی صدارت کے فرائض پروفیسر شمیم حنفی نے انجام دیئے۔ مہما ن خصوصی کے طور پرڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر یوگیندر سنگھ اورمہانان ذی وقار کے طور پر پروفیسر رضا ء اللہ خاں، ڈاکٹر معراج الدین سابق وزیر، حکومت اترپردیش، اعظیم میر، سیکریٹری اولڈ بوائز ایسو سی ایشن، علی گڑھ، سابق فائنانس آفیسر خورشید احمد خاں نے شرکت کی۔ نظا مت کے فرا ئض ڈاکٹر آصف علی ارو نوازش مہدی نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔ استقبالہ، پروگرام کا مفصل خاکہ اور سرسید کے مشن کا مفصل تعارف پروفیسر اسلم جمشید پوری نے پیش کیا۔ جبکہ ایوارڈ یافتگان میں سے پروفیسر شمیم حنفی کا تعارف ڈا کٹر شاداب علیم، ڈاکٹر جمال احمد صدیقی کا تعارف ڈا کٹر آصف علی، ڈاکٹر بی ایس یادو کا تعارف ریسرچ اسکالر سعدیہ قمر اور ڈا کٹر کو ثر جہاں کا تعارف ڈا کٹر ارشاد سیانوی نے پیش کیا اورشکریہ سر سید ایجو کیشنل سو سائٹی کی صدر نایاب زہرا زیدی نے ادا کیا۔

واضح ہوکہ ہر سال شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی سر سید ایجو کیشنل سوسائٹی، میرٹھ کے اشتراک سے محسن قوم، عظیم تعلیمی رہنما سر سید احمد خاں کی یو م پیدا ئش کے موقع پر ہفت روزہ ’’ جشن سر سید تقریبات‘‘کا اہتمام کرتا ہے۔ جس کا مقصد اسکول، کالجزاور یونیورسٹیوں میں پڑھنے وا لے طلبا و طالبات کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سر سید احمد خاں کی زندگی، ان کی خدمات اور ان کے کاموں سے روشناس کرا نا ہے۔ اس کے تحت سر سید لیکچر سیریز اور سر سید کوئز کا اہتمام کیا جاتاہے۔ جس میں شہر کے سر کردہ دانشور اور ما ہر تعلیم حضرات مختلف اسکولوں اور کالجز میں جا کر سرسید احمد خاں کی حیات اور ان کے کار ناموں پر لیکچر دیتے ہیں ساتھ ہی کوئز مقابلے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ نیز سما ج، تعلیم، طب اور صحافت جیسے شعبہ ہایے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والے اشخاس اور تنظیموں کو بھی ایوا رڈ سے سرفراز کیا جاتاہے۔

امسال اسماعیل نیشنل گرلز انٹر کالج، میرٹھ، نیو ہورا ئزن پبلک اسکول میرٹھ، ایم وائی پبلک اسکول میرٹھ، نواب عظمت اللہ گرلز ڈگری کالج، مظفر نگر، نواز گرلز پبلک اسکول، دیوبند، ڈی ٹی ایس ڈگری کالج، چلکا نہ، سہارنپور، مفید عام انٹر کالج، گلاؤٹھی، بلند شہر، اور آدرش پرائمری اسکول، تاج پو ر بلند شہر نے سر سید لیکچر سیریز اور سر سید کوئز کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سر سید تقریبات کے آخری دن کا پرو گرام دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلا حصہ قومی سیمینار کے لیے مخصوص تھا جس کا عنوان’’عصر حاضر میں سر سید کی معنویت ‘‘ تھا۔ جس میں عا مر نظیر ڈار دہلی یو نیورسٹی، غلام نبی کمار دہلی یو نیورسٹی، مفتی راحت علی صدیقی، شو بی زہرا نقوی اور تسلیم جہاں، میرٹھ یو نیورسٹی، ابرا ہیم افسر، میرٹھ کالج، گلشن جہاں، اے ایم یو، علی گڑھ، محمد آدم، جامعہ ملیہ اسلا میہ وغیرہ نے اپنے مقالات پیش کیے اور ان کی مجلس صدارت میں پرو فیسر یو گیندر سنگھ، ایڈوکیٹ سرتاج احمد، ڈا کٹر محمد کاظم، طالب زیدی، ڈا کٹر مشتاق احمد قادری، انجینئر رفعت جمالی، سید معراج الدین احمد، عابد حسین حیدری، شریک ہوئے۔

تلا وت کلام پاک، نعت شریف، شمع افروزی اور گلہائے عقیدت کی پیش کش کے بعد پروفیسر شمیم حنفی کی خدمت میں سر سید انٹر نیشنل ایوارڈ، برا ئے ادبی خدمات، ڈا کٹر جمال احمد صدیقی، ڈا کٹر بی ایس یا دو اور ڈا کٹر کوثر جہاں کی خدمت میں سر سید نیشنل ایوارڈ برا ئے تعلیمی خدمات پیش کیے گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ارشاد علی کی کتاب ’’ چاندنی بیگم: ایک مطالعہ ‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کا اجرا پروفیسر شمیم حنفی کے ساتھ ساتھ دیگر مہمانوں نے مشتر کہ طور پر کیا۔

اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے ڈا کٹر جمال احمد صدیقی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت سے ایورڈ مو صول ہوئے ہیں لیکن میرے لیے اس ایوارڈ کی اہمیت سب سے زیا دہ ہے۔ کیو نکہ یہ سر سید جیسے مصلح قوم اور ما ہر تعلیم کے نام سے منسوب ہے۔ یہ مجھے ہر دم یہ احساس دلاتا رہے گا کہ مجھے ہر صورت میں سر سید کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔ ڈا کٹر بی ایس یادو نے سر سید ایجو کیشنل سو سائٹی اورشعبۂ اردو کے اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ انہوں اس اہم ایوارڈ کے لیے مجھے منتخب کر کے میرا قد اونچا کیا ہے۔ سر سید نے جدید تعلیم کے لیے اب سے دوسو سال پہلے جو جدو جہد شروع کی تھی اس کی معنویت ہنوز با قی ہے۔

ڈا کٹر کوثر جہاں نے کہا کہ ہم سب دیش پریمی ہیں۔ اپنے دیش پریم کے اظہار کے لیے ہر شخص کے پاس اپنا طریقہ ہو سکتا ہے۔ میں تعلیم مخصو ص طور پر دیہی علا قوں میں تعلیم کو عام کر کے اپنے دیش پریم کا اظہار کرنا چاہتی ہوں۔ اور اپنی بساط بھر کر بھی رہی ہوں۔

پرو فیسر یوگیندر سنگھ نے سر سید ایجوکیشنل سوسائٹی اور شعبۂ اردو کے ارا کین کومبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سر سید احمد خاں مصلح قوم، اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان اور اچھے استاد تھے۔ استاد کی کوئی ذات، برادری اور مذہب نہیں ہوتا۔ وہ تو محض انسان ہو تا ہے اور سماج سے برا ئیوں کا خا تمہ کر نے اور اچھا ئیوں کو عام کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ سر سید احمد خاں کو سچا خراج یہی ہو گا کہ ہم ان کے بتا ئے ہوئے راستے پر چلیں اور ان کے مشن یعنی جدید تعلیم کو عام کریں۔ اس مو قع پر پرو فیسر رضا ء اللہ خاں، ڈا کٹر معراج الدین احمد اور اعظم میر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر کے سر سید کے اصو لوں کو اپنانے اور ان کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھا نے کی ترغیب دی۔

پرو گرام میں ڈاکٹر ودیا ساگر، بھا رت بھو شن شر ما، ڈاکٹر یونس ٖغازی، ڈا کٹرہما مسعود، سرتاج ایڈوکیٹ، ڈاکٹر پرویز احمد، ڈا کٹر فر حت خا تون، محترم مولاناانیس الرحمان، جناب سلیم الدین سیفی، ایڈوکیٹ کوثر ندیم، ڈاکٹر سیدہ، انس سبز واری، نور محمد، راشد مصطفی، سلیم سیفی، حاجی مشتاق سیفی، ایاز احمد ایڈوکیٹ، محمد منتظر، ازنما، مدیحہ اسلم، شناور اسلم، سہیل احمد، طا ہرہ رضوی، قمر الحق، فر مان چو دھری وغیرہ کے علاوہ طلبہ و طالبات اور عمائدین شہر نے شرکت کی۔

تبصرے بند ہیں۔