جماعت اسلامی ہند کی تقسیم : کتنا افسانہ؟ کتنی حقیقت؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

آج دوپہر تک میرے بہت سے احباب نے ، جن کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں سے ہے ، بڑے اضطراب کے ساتھ اس خبر کی تصدیق چاہی جو سوشل میڈیا پر بہت تیزی سے پھیل رہی تھی کہ جماعت اسلامی ہند کے ارکان اور کارکنان کی بہت بڑی تعداد نے ، جن میں سے بعض اراکینِ مجلسِ شوری بھی ہیں ، جماعت سے استعفا دے دیا ہے اور اپنی الگ جماعت بنا لی ہے _ ان احباب کے اضطراب میں شدّت یوں آئی کہ ایک نیوز پورٹل نے مرکزِ جماعت سے تحقیق کیے بغیر بڑی اشتعال انگیز ہیڈنگ کے ساتھ یہ خبر عام کی ، اگرچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنے اس غیر ذمے دارانہ رویّے پر معذرت کرلی _ بعض صحافی نما نوجوانوں نے تحقیق کا یہ طریقہ اپنایا کہ اس معاملے میں مرکزِ جماعت سے رابطہ کرنے کے بجائے اپنے رابطے کے بعض ارکانِ جماعت کو فون کیا ، لیکن جب کسی وجہ سے ان سے رابطہ نہیں ہوسکا تو اپنا غصہ اتارنا ضروری سمجھا _ انصاف کی بات یہ تھی کہ مرکزِ جماعت سے حقیقتِ حال معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ، یا اس ریاست کے امیرِ جماعت سے رابطہ کیا جاتا جہاں کے کچھ ارکان نے استعفا دیا ہے _ یہ کیسا صحافتی اخلاق ہے کہ معاملہ اترپردیش کا ہو اور اس کی تحقیق حیدر آباد کے کسی رکنِ جماعت سے کی جاءے اور اس کی ریکارڈنگ کرکے سوشل میڈیا پر پھیلانے کی کوشش کی جائے ؟! اپنے مخلص احباب کے اضطراب کو دور کرنے کے لیے اس معاملے کی حقیقت کو واشگاف کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے _

جماعتی نظم میں اترپردیش کی ریاست کو 2 حصوں (مشرق اور مغرب ) میں تقسیم کیا گیا ہے _ کچھ عرصے سے اترپردیش (مغرب) کے نظم کو لے کر وہاں کے اراکینِ مجلس شوری کی اکثریت اور بعض ارکان کو بے اطمینانی تھی _ نظم (امیر حلقہ اور سکریٹری حلقہ) کو تبدیل کیا گیا ، پھر بھی ان کی بے اطمینانی دور نہیں ہوئی _ غیر مطمئن ارکان نے خود کو نظم کی پابندی سے بالاتر سمجھا _ حلقے کے ذمے دار کی طرف کی طرف سے انھیں توجہ دلائی گئی ، مگر اسے وہ خاطر میں نہیں لائے _ یہ غیر مطمئن ارکان 19 اکتوبر کو گلاوٹی (بلند شہر) میں جمع ہوئے _ انھوں نے ایک مختصر تحریر تیار کی، اس کا فوٹو اسٹیٹ کرایا گیا اور ہر ایک نے الگ الگ صفحہ پر دستخط کیا _اس تحریر میں جماعت سے علیحدگی کی تین وجوہ بیان کی گئی ہیں :

1 ۔ جماعتِ اسلامی ہند فکری اعتبار سے اپنے مقصد اور نصب العین سے ہٹ چکی ہے ۔

2 ۔ اخلاقی اعتبار سے مسلسل زوال اور پستی کا شکار ہے ۔

3 ۔ ہماری طرف سے اصلاح کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔

استعفا دینے والوں میں 25 ارکان اترپردیش (مغرب) کے ہیں ، جن میں سے ایک حلقے کی مجلس شوری کے رکن ہیں _ 2 ارکان کا تعلق دہلی سے ہے _ یہ استعفا نامے مرکز بھیجے گئے ہیں _

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اپنے نصب العین سے ہٹ چکی ہے ، یا وہ اخلاقی پستی کا شکار ہے ، انھیں ضرور جماعت سے نکل جانا چاہیے اور ایسی اجتماعیت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو صحیح نصب العین رکھتی اور اعلی اخلاقیات کی حامل ہو _ جماعت سمجھتی ہے کہ وہ اپنے نصب العین پر قائم ہے ، البتہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت اس نے اپنی بعض پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے _ جماعت کا دعوی نہیں کہ وہ پارساؤں کی جماعت ہے _

مقامی ، ریاستی اور مرکزی ، ہر سطح پر ارکان خود بھی اپنی تربیت کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور نظم کی طرف سے بھی کوشش کی جاتی ہے _ البتہ جو لوگ نظم کے پابند نہیں ہوتے اور مسلسل اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کے اخراج کی کارروائی کی جاتی ہے_

جماعت اسلامی خود کے بارے میں ‘الجماعۃ’ ہونے کا دعوٰی نہیں کرتی _جو لوگ اس سے وابستہ نہیں ہیں وہ بھی صالح، متقی، دین دار ہوسکتے ہیں _ البتہ جماعت اپنے وابستگان سے نظم کی پابندی کا مطالبہ ضرور کرتی ہے _ جو لوگ خود کو اس سے بالاتر سمجھتے ہیں ان کے حق میں بہتر ہے اور جماعت کے حق میں بھی کہ وہ جماعت سے الگ ہوجائیں _

مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ جو دو تین افراد اس اجتماعی استعفا کے معاملے میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں ان کے خلاف نظم کی عدم پابندی کی وجہ سے حلقہ اور مرکز کی طرف سے کارروائی ہورہی تھی اور جلد ان کا اخراج متوقع تھا _اگر یہ بات صحیح نہ ہو تو بھی حلقہ اترپردیش (مغرب) کے 700 ارکان میں سے 25 کے علیحدہ ہوجانے کو ‘جماعت کی تقسیم’ نہیں قرار دیا جا سکتا _

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔