گھڑی کا ایک اہم پرزہ

ابراہیم جمال بٹ

سامنے گھڑی تھی میں اس کے ایک ایک پرزے کو دیکھ رہا تھا کہ آخر گھڑی کی سوئیاں کام کرنے سے کیوں بیٹھ گئیں، چنانچہ اس میں سارے پرزے اپنی اپنی جگہ پر لگے ہوئے تھے، کوئی بھی اپنی جگہ سے غیر حاضر نہ تھا تاہم ایک ایسا پرزہ جو دکھنے میں بہت ہی چھوٹا تھا لیکن آنکھوں میں عینک لگانے کے بعد اسے صاف دیکھا جا سکتا تھا، میں نے جب اسے غور سے دیکھا تو وہ بھی صحیح سلامت تھا لیکن جو اس کا کام ہے وہ نہیں کر پا رہا تھا، ٹیسٹ کے ذریعے جب دیکھا تو وہ پرزہ کسی ’’شارٹ‘‘ کی وجہ سے بیٹھ چکا تھا۔

چنانچہ اس پرزے کی یہ حالت دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ اصل مسئلہ کیا ہے، یہ گھڑی آخر کیوں چلنے سے کترارہی ہے۔ دراصل اس کی وجہ یہی ایک پرزے کی خرابی تھی۔ بازار گیا ایک الیکٹرکل پرزے بیچنے والے دکان دار سے اس پرزے کے بارے میں بتایا تو انہوں نے اسی ماڈل کا ایک نیا پرزہ دیا۔ میں گھر پہنچا… اس دوران وہاں پر موجود میرے اہل وعیال کے علاوہ دو اور مہمان آچکے تھے، جو اکثر وبیشتر میرے گھر آکر میرے ساتھ گھنٹوں باتوں میں گزار دیتے تھے… حسب معمول انہیں چائے کی ایک پیالی نصیب ہوئی، اماں کی گرما گرم چائے اگرچہ مہمانوں کے لیے خصوصاًتیار کی گئی تھی لیکن قسمت کی لکیر کو کون مٹا سکتا ہے ان کی چائے کے ساتھ مجھے بھی ایک پیالی نصیب ہوئی۔

ماں کی بنائی ہوئی گرما گرم چائے اور ساتھ میں مزے دار بسکٹ کا اپنا ہی ایک نرالا مزہ ہوتاہے اور وہ بھی تب جب دوستوں کے ساتھ نوشی ہو رہی ہو۔ بہرحال چائے کی پیالی ایک ایک گھونٹ پی کر آخر کار ختم ہو ہی گئی۔ چائے پینے کے دوران باتوں میں ہم اس قدر مست ہو گئے کہ کب کیسے پیالی میں چائے ختم ہوئی پتا ہی نہیں چلا۔ مہمان باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے کہ پڑوس میں عبداللہ چاچا کے بیٹے ’’راہیل‘‘ کی وفات ہو گئی ہے، میں نے کہا کون راہیل؟ انہوں نے کہا جو ہمارے ساتھ سکول میں پڑھا کرتا تھا، میں نے جھٹ سے بولا کیا… کیسے اور کب…؟

مہمان دوستوں نے کہا کہ کل رات اچانک اس کی دل کی دھڑکنیں بند ہو گئیں ، گھر والوں نے جلدی سے اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسے اسپتال پہنچا دیا تاہم اس کی جان جانِ آفریں کے حوالے ہو چکی تھی۔

’’ہارٹ اٹیک‘‘…؟

دوستوں نے کہا ہاں بھائی اسے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے موت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بات سن کر میں اگرچہ صد فیصد ابھی بھی ان کی یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں تھا تاہم ان دونوں مہمانوں کی دیانت داری اور باتوں کا پکا اور سچا ہونے کی وجہ سے میں کسی قدر بھروسہ کر ہی بیٹھا… جلدی جلدی جوتا پہنا اور ان کے ساتھ اس قریبی نیک پڑوسی کے گھر پہنچا تو وہاں پر کہرام مچی ہوئی تھی، رونے کی آوازیں اس قدر آرہی تھیں کہ دل دھک دھک کر رہا تھا… میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے تاہم دل پر ہاتھ رکھ کر ’’لا تحزن ‘‘ والی کیفیت طاری ہوئی جس سے ایک اطمینان سا نصیب ہوا، کیوں کہ مجھے اس بات پر پوری طرح سے یقین اور ایمان ہے کہ یہ دل کا دھڑکنا انسانی زندگی کی نشانی ہے اور اس دل کی دھڑکن میں اضافہ یا کمی آنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے تاہم ان باتوں کے علاوہ مجھے اس بات پر بھی شرح صدر اور یقین محکم ہے کہ یہ دل تب تک نہیں بیٹھ سکتا جب تک نہ اس میں سے وہ کچھ نہ نکالا جائے جو اس کی اصل ہے یعنی روح، اور روح کا اس خارج کرنا کسی کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ اختیار صرف اور صرف اس ذات واحد ویکتا کو ہے جو ہمارا خالق ومالک پروردگار ہے۔

یہ اطمینان ہونا ہی تھا کہ دل کی دھڑکنیں اپنی رفتار سے چلنے لگیں … دراصل کچھ زیادہ ہی گھبراہٹ کی وجہ سے میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں ۔ میں اپنے دوستوں کے ہمراہ گھر میں راہیل کے داخل ہوا تو راہیل کی اماں پر نظر پڑی جس کی آنکھوں سے آنسو تو رواں تھے لیکن اس سے رونے کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچا تو وہاں موجود چند خواتین نے راہیل کی پڑی لاش کی طرف اشارہ کیا۔ میں حیران وپریشان ہو کر رہ گیا، ہنستا ہوا چہرہ اور آج بھی اپنی مسکراہٹ کے موڑ میں لیٹا ہوا تھا… ایک لمحہ تک میں اسے اس طرح تکتا رہا کہ شاید وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا ہے لیکن اصل حقیقت دوسری ہی تھی، وہ وہی تھا جو کل تک میرے ساتھ باتیں کرتا تھا لیکن آج وہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ’’وہ‘‘ نہیں ہے۔ اس کے اعضا ء اپنی اپنی جگہ پر برابر تھے لیکن وہ کام نہیں کر پا رہے تھے، اس کی زبان جس سے کبھی میں نے جھوٹ اور دھوکہ والی بات نہیں سنی، آج خاموش تھی۔ اس کی آنکھیں جو دکھنے میں اس قدر خوبصورت تھیں کہ دیکھتے ہی ان پر رشک آجاتا تھا، لیکن آج وہ آنکھیں مسکراتے ہوئے چہرے میں بند پڑی جیسے سوئی ہوئی تھیں ۔

اس کا ایک ایک اعضا اپنی اپنی جگہ پر موجود تھا لیکن کوئی حرکت نہیں ، کوئی اشارہ نہیں ، سب کچھ ہونے کے باوجود بھی راہیل اب زندہ راہیل نہیں بلکہ لاش بن کر لیٹا ہوا تھا۔ غسل کی تیاری ہوئی میں نے بھی پانی کے چند مگ اس پر ڈال دئے مگر وہ سویا ہوا تھا… سفید رنگ کا آخری کپڑا ’’کفن‘‘ لایا گیا جس میں راہیل کو لپیٹا جا رہا تھا لیکن کوئی آواز وحرکت نہیں … آخری سفر کی آخری گاڑی (تابوت)جو قبرستان تک اسے سواری دینے کے لیے لائی گئی جس میں کوئی انجن نہیں ، کوئی ٹائیر اور کسی پیٹرول کی ضرورت نہیں بلکہ یہ گاڑی انسانوں کے ہاتھوں پر اٹھا کر چلتی ہے، راہیل کو اس میں ڈال دیا گیا لیکن اتنی تنگ گاڑی میں بھی اس نے کوئی حرکت نہیں کی۔ پیدل چل کر ایک مقام پر اس کی آخری گاڑی کو زمین کے ایک حصہ پر رکھا گیا اور اس کی آخری نماز (جنازہ) پڑھی گئی… راہیل کے والد صاحب نے جنازہ کی خود پیشوائی کی، روتے بلکتے ہوئے اپنے بیٹے کی آخری نماز پڑ ھارہا تھا لیکن باپ کے اتنا زیادہ رونے پر بھی راہیل کی طرف سے کوئی حرکت وآواز نہیں ۔ آخر کار نماز جنازہ پڑھانے کے بعد میت کو اپنے آبائی قبرستان پہنچا کر اپنے آخری قیام گاہ (قبر) میں ڈالا گیا، یہ قبر اتنی لمبی اور چوڑی بھی نہیں تھی کہ راہیل اس میں کھڑا ہو سکتا تھا یا ادھر ادھر کروٹ لی جا سکتی تھی، نیچے کوئی فرش نہیں ، اوپر کوئی بجلی کا انتظام نہیں ،بس چار دیواری والی اندھیری قبر تھی جس میں راہیل آرام فرما ہو چکے۔ دفن کر کے، اچھی طرح سے پھر زمین بھر دی گئی، اوپر پانی کا چھڑکائو کیا گیا اور ایک چھوٹا سا پتھر نشان کے طور پر وہاں رکھا گیا۔

سب لوگ ایک ایک کر کے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے، میں اور میرے ساتھ دو مہمان دوستوں کے قدم بھی واپسی کے لیے نکل پڑے۔ قبر سے تھوڑی دوری کے فاصلے پر میں نے اچانک پیچھے دیکھنے کی ایک ناکام کوشش کی… بہت کچھ دل میں تھا لیکن کیا دیکھتا ہوں کہ قبر کے پاس اس کے والد صاحب کے علاوہ ایک اور شخص تھا باقی سب لوگ واپسی کی راہ چل پڑے تھے۔ چنانچہ یہ منظر دیکھ کر میرا دل پھر سے تیز تیز دھڑکنا شروع ہو گیا ،کچھ دوری پرہم تینوں آٹو رمیں سوار ہو گئے لیکن میری تیز دھڑکنوں کی وجہ سے میں گھبراگیا … میں نے آٹو میں دل پر ہاتھ رکھ کر کلمات کا ورد کرنا شروع کر دیا، دونوں مہمان دوست شاید مجھے دیکھ رہے تھے اسی لیے انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ بھائی ٹھیک ہو؟ میں نے اشارے سے ہی ہاں کہا اور وہ چپ ہو گئے۔ چنانچہ دل پر ہاتھ رکھ کر جیب سے لفافہ کی آواز آگئی تو میں نے کلمات کا ورد کرنے کے بعد فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا… جیب میں موجود چھوٹے سے ایک پیکٹ میں گھڑی کا وہ پرزہ تھا جو میرے گھر میں میرے ہی کمرے کی گھڑی میں خراب ہو گیا تھا… اس پرزے میں مجھے میرا دل اور میری حرارت محسوس ہو رہی تھی، میں سوچ میں پڑ گیا کہ انسان کی جان برابر اسی گھڑی کی مانند ہے۔

گھڑی کے سارے پرزے برابر اپنی جگہ پر موجود ہونے کے باوجود بھی وہ وقت نہیں بتا پارہی ہے کیوں کہ اس کا ایک ایسا اعضا خراب ہو چکا ہے جو اس میں سب سے چھوٹااعضاء ہے لیکن اس کی اتنی اہمیت ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود بھی گھڑی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ البتہ گھڑی کا یہ پرزہ خراب ہونے کے بعد نیا تو مل سکتا ہے لیکن انسانی روح کا کوئی بدل نہیں ہے۔ وہ جسم سے نکال دیا گیا تو سب کچھ ہونے کے باوجود بھی انسان انسان نہیں بلکہ لاش یا میت کہلاتا ہے۔ سوچتے سوچتے میں گھر پہنچا اور گھر میں موجود میری والدہ مجھے دیکھ کر مجھ سے لپٹ گئی … میں اب بھی حیران ہوں کہ وہ مجھ سے کیوں لپٹ گئی، اس کی کیا وجہ تھی، میں نے کچھ نہیں بتایا البتہ ماں سے پانی کا ایک گلاس مانگنے ہی والا تھا کہ ماں نے بنا بتائے ہی وہ بھی لا دیا، اس پر بھی میں اور حیران وپریشان ہوں … شاید اسی کا نام ’’ماں ‘‘ ہے جسے اکثر باتوں اور اشاروں کی ضرورت بھی نہیں پڑتی وہ اپنی ممتا کی وجہ سے بہت کچھ سمجھ ہی لیتے ہے۔

وہ گھڑی جس کا پرزہ میرے گھر میں آج بھی موجود ہے تب سے لے کر آج تک نہ ہی میں نے اس کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی اسے خراب ہوئی گھڑی میں ڈالا ،اسے دیکھ کر مجھے میرا پڑوسی راہیل یاد آتا ہے اور اس کے یاد آنے سے میری گھبراہٹ مجھے رُلا دیتی ہے۔ میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ راہیل اس وقت کیا کر رہا ہو گا؟ اُس اندھیری قبر میں اس کا حشر کیا ہورہا ہو گا… لیکن یہ سوچنے کے ساتھ ہی مجھے اس کی نرم مزاجی اور خراترسی یاد آتی ہے جس پر مجھے اس بات کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ راہیل قبر میں خوش وخرم ہو گا کیوں کہ اس کے اعمال اور اس کا کردار منفرد تھا۔ وہ خوب صورت بھی تھا اور خوب سیرت بھی، اسے قبر میں کیونکر اندھیرا ہو گا، وہ تو عیش وزمرے میں سویا ہوا ہو گا۔

یہ اطمینان آج بھی ہے اور اس کے بارے میں ہمیشہ رہے گا…………!

تبصرے بند ہیں۔