جمال خشوگی: پردے کے پیچھے کیا ہے؟

ممتاز میر

  سعودی شاہوں نے بالآخر اپنے تابوت میں اپنے ہی ہاتھوں سے آخری کیل ٹھونک ہی لی۔ ہم برسوں سے سعودی شاہوں سے بیزار ہیں محمد بن سلمان کے ورود کے بعد تو یہ بیزاری اپنی انتہا کو پہونچ چکی تھی۔ مگر سوچا بھی نہ تھا کہ ان کا انجام اتنی جلدی ہو جائیگا۔ ابھی تو تخت شاہی پر قدم رکھے انھیں جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہ ہوئے تھے۔ مگر ان چند دنوں میں ہی انھوں نے جو کیا تھا سارا عالم اسلام ان کے لئے ’’بد دعاگو‘‘ ہو گیا تھا۔ داخلی محاذ پر اپنے تمام حریفوں پر غالب آجانے یا تمام حریفوں کا ان کے سامنے سرنڈر کردینے کا نتیجہ یہ ہوا وہ کہ وہ بیرونی محاذ پر  بھی اپنے آپ کو سپر مین سمجھنے لگے۔ اس خوش فہمی نے ان سے وہ کروایا جو ہٹلر یا امریکی بھی آج تک نہ کر سکے تھے۔ جمال خشوگی  کے قتل کے نتائج کیا ہونگے اب دنیا کے ساتھ ساتھ MBS کو بھی بھگتنا ہونگے۔

  واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سعودی نژاد صحافی جمال خشوگی غالباً اسلحہ کے بین الاقوامی ڈیلر؍دلال عدنان خشوگی کے قریبی رشتے دار تھے  کبھی ان کی شاہی خاندان سے بہت گھٹتی تھی۔ ترکی کے سعودی سفارت خانے میں ان کا قتل فی الحال ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ معلوم نہین کیا ہوا کہ سعودی عرب سے نکل کر وہ شاہی خاندان کے بڑے ناقد بن گئے۔ سعودی شاہی خاندان کے ملکی ناقد اب تک سینکڑوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں یا قید میں پڑے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سعودی حکمراں اتنے احمق ثابت ہونگے کہ غیر ملکی سرزمین پراس طرح اپنے مخالف کو قتل کروائیں گے کہ ساری دنیا دیکھے اور عبرت حاصل کرے کہ۔ ۔ مسلمان حکمراں کیسے ہوتے ہیں۔ ۔ اتنے احمق کہ دو ہفتوں تک اس چیز کو چھپایا گیا جس کا چھپانا ممکن ہی نہ تھا۔ یہ تو بچے بھی کہہ رہے تھے کہ انھیں اس قتل کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔ جو انھوں نے کیا بھی۔ مگر دینا بھر سے صلواتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد۔ یورپی یونین اور امریکہ انھیں بار بار دھمکیاں دے رہا تھا۔ جرمنی نے اسلحے کی ڈیل کینسل کردی تھی۔ اب جانشین کہہ لیں یا اصلی حکمراں، محمد بن سلمان کہہ لیں یا MBS۔ ۔ کہہ رہے ہیں کہ  ترکی میں سعودی سفارت خانہ سعودی Territory ہے اسلئے اس پر سعودی قوانین کا اطلاق ہوگا۔ اور ترکی کہہ رہا ہے ویانا کنونشن کے  ۱۹۶۱ کے ڈپلومیٹک ریلیشنز کے قوانین کے تحت بلا شبہ کسی بھی ملک کی ایمبسی میں میزبان ملک کے حکام اس وقت داخل نہیں ہو سکتے جب تک متعلقہ قونصل جنرل اجازت نہ دے دے مگر اس زمین کا تعلق میز بان ملک سے ہی ہوگا۔ اور جرم کی صورت میں میزبان ملک کے قوانین کی طرف ہی دیکھا جائیگا۔ اس بحث سے قطع نظر یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ سعودی جانشین اس ضد سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کیا یہ کہ سعودی عرب میں قتل کی کوئی سزا نہیں ہے؟یا یہ کہ اسلام شاہوں کو کوئی سزا نہیں دیتا؟ہمارا دین اور ہماری تاریخ زمانہء صحابہ سے  نہیں ماضیء قریب سے ایسی مثالیں پیش کرتاکہ جب مطلق العنان حکمرانوں نے بھی اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کیا تھا۔ مگر اب سعودی حکمرانوں میں اسلامی حکمرانوں کی سی بات کہاں ؟

   جمال خشوگی مرڈر کیس میں کچھ باتیں بڑی عجیب و غریب ہیں۔ جمال خشوگی امریکی کے ایک بڑے اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھا اور وہیں رہتا تھا۔ پھر اپنی سعودی بیوی کے طلاق کے کاغذات کیVerification کے لئے ترکی کیوں آیا؟یہ کام امریکہ میں موجود سعودی سفارتخانے میں بھی ہو سکتا تھا اور وہ وہاں زیادہ محفوظ ہوتا۔ کیا اسے جان بوجھ کر ترکی بھیجا گیا تھا؟اس سے کچھ ہی دن پہلے امریکی صدر نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر ہم سعودی حکومت کی ’’حفاظت‘‘ سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ حکومت دو ہفتے بھی نہیں ٹک پائے گی۔ جواب میں امریکیوں کے بنائے ہوئے جانشین نے انھیں آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تھاکہ ہم امریکی اسلحہ پیسہ دے کر خریدتے ہیں مزید’’ہفتہ‘‘ کیوں دیں۔ یہ ہماری بلی ہمیں سے میاؤں والی صورتحال تھی۔ اسی دوران ایک واقعہ اور ہوا تھا۔ امریکی پاسٹر اینڈریو برونسن جو برسوں سے ترکی میں قید تھااور امریکہ و ترکی کے درمیان وجہ کشیدگی بنا ہوا تھا اسے رہا کردیا گیا۔ رہائی کی وجوہات تادم تحریر نا معلوم ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی امریکی دھمکیوں سے ڈر گیا تھا۔ مگر اس رہائی کے بعد امریکی اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان کے رہائی کسی ڈیل کی بنا پر عمل میں نہیں آئی، سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اگر بغیر کسی ڈیل کے رہائی ہوئی ہے تو ہمارے نزدیک اردگان سے بڑا احمق نہیں۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ ساری دنیا کہتی ہے کہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ دوستی نقصان دہ ہوا کرتی ہے۔ ۔ ۔ آخری بات خشوگی کا مرنے کے لئے ترکی آنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس طرح امریکہ نے ہوا بھر بھر کے صدام حسین کو کویت پر حملے کے لئے اکسایا تھا اسی طرح جمال خشوگی کو بھی چابی بھر کر ترکی بھیجا گیا تھا۔ ایک باخبر بین الاقوامی صحافی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی اور ترکی دونوں ممالک کی انتیلیجنس کوپوری طرح یہ خبر تھی کہ خشوگی کب سعودی قونصلیٹ جا رہا ہے۔ انھیں یہ بھی اندازہ تھا کہ وہاں اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے اسی لئے اندر جانے سے پہلے اسے وہ Gadgets دئے گئے جو اندر جانے سے پہلے اس نے اپنی ترکی منگیتر کو دئے تاکہ باہر والوں کو  اس کی موت کے بعد پتہ چل سکے کے اس کے ساتھ کیا ہوا؟۔ ۔ اللہ و اکبر۔ ۔ سوچئے یہ کتنی ننگی حقیقت ہے کہ سب جانتے تھے اس کے ساتھ کچھ غلط ہو سکتا ہے مگر کسی نے اسے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ آج سب کے سب قربانی کے بکرے کی قربانی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کا بار بار یہ کہنا کہ اگر جمال خشوگی کو قتل کیا گیا ہے تو سعودیوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر قتل کا سعودی اقرار۔ پامپیو کا ریاض اور وہاں سے ترکی جانا۔ پھرٹرمپ کا یہ کہنا کہ ایک قتل کی وجہ سے ہم اپنے پیارے سعودی بھائیوں کا مقاطعہ نہیں کر سکتے لگتا ہے سعودی شاہ ’’ہفتہ‘‘ دینے پر راضی ہوگئے ہیں۔ یہ سب کیا ہے ؟ہم انسانوں کے درمیان رہ رہے ہیں یا وحشی درندوں کے؟

یہی وہ کلچر ہے جس کی امریکی صدور دہائی دیتے ہیں ؟تھو ہے ایسے کلچر پر۔ مگر اس تعلق سے بڑی سنجیدگی سے امریکی عوام اور دانشوروں کو سوچنا چاہئے۔ قریب ۳۵؍۳۶ سال پہلے پال فنڈلے نے لکھا تھاThey Dare to Speak Out کیا اب امریکی مائیں بانجھ ہو گئی ہیں۔  اس دنیا پر حکمراں شیطانی قوتیں لگتا ہے کسی گریٹ گیم میں مصروف ہیں۔ اور نظروں کے سامنے کھلاڑی ہیں سعودی عرب ترکی اور امریکہ۔ بظاہر تویہی لگتا ہے کہ عراق کی طرح سعودی عرب کا گھیراؤ کیا جارہا ہے۔ اس گھیراؤ میں شامل ہاتھ اگر ترکی کے بھی ہیں تو ہمیں شدید دکھ ہوگا۔ اس کے باوجود کہ ہم سعودی حکمرانوں کے خلاف ہیں۔ ہم بس اللہ سے دعا کر سکتے ہیں کہ عالم اسلام کو اپنے حفظ و امان میںرکھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔