جموں میں دربار موؤد فاتر اور نانوائی

الطاف حسین جنجوعہ

روٹی لے لو… روٹی لے لو… گرما گرم روٹی لے لو…لواسہ، کلچہ، گرما گرم‘…یہ آوازیں آپ کو صبح سویرے سنجواں، بٹھنڈی، سدھڑا، جانی پور اور سرمائی راجدھانی جموں کے دیگر علاقوں، جہاں خاص کر وادی کشمیر سے آئے دربار موؤ ملازمین یا سرماکے دوران وادی سے آئے دیگر لوگ رہائش پذیر ہیں، میں سننے کو ملیں گیں۔

یہ آوازیں صرف سرمائی ایام کے چھ ماہ یعنی نومبر سے لیکر اپریل ماہ کے آخیر تک ہی سنائی دیتی ہیں کیونکہ گرمائی راجدھانی سری نگر کی طرف دربار موؤ دفاتر کی منتقلی کے ساتھ ہی یہ لو گ بھی واپس وادی میں اپنے اپنے گھروں کا رُخ کرتے ہیں۔ شہر جموں جوکہ جموں وکشمیر ریاست کا سرمائی دار الخلافہ ہے، میں موسم سرما کے دوران چھ ماہ کے لئے سول سیکریٹریٹ کی سری نگر سے منتقلی کے ساتھ ہی جہاں ہزاروں دربار موؤ سے منسلک ہزاروں ملازمین اپنے اہل خانہ کے ساتھ جموں آتے ہیں وہیں ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں مزدور ومحنت کش طبقہ کے لوگ بھی معہ اہل وعیال اس شہر کا رخ کرتے ہیں اوررھیڑیاں لگا کر کپڑے، جوتے ودیگر گھریلوسازوسامان فروخت کرتے ہیں، کچھ سبزیاں ومیوہ جات فروخت کرتے ہیں تاکہ کم سے کم کھانے پینے کا خرچہ نکالاجاسکے۔ کپڑوں، گھریلوسامان اور سبزیوں کی خریدوفروخت کا کام تو یہاں بھی سال بھر لوگ کرتے رہتے ہیں۔

 لیکن دربار موؤ میں خاص طور سے شہر اور نواح میں جوخاص چیز دیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے ’نانواائی‘۔ کلچہ، گردا، لواسہ، کچوری وغیرہ بنانے والے یہ لوگ ہیں۔ ککرناگ کے عبدلعزیز وانی کہتے ہیں کہ صرف چھ ماہ ہی وہ جموں نانوائی کا کام کرنے اس لئے آتے ہیں، کہ ایک تو اس دوران روٹیوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے، ساتھ ہی سول سیکریٹریٹ دفاتر یہاں ہونے سے انہیں احساس تحفظ ملتاہے۔ ان کے مطابق جموں جیسے شہر میں وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والا ہر شخص کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھاجاتاہے، اگر یہاں سول سیکریٹریٹ یہاں نہ ہوتو اس وقت کشمیر کے لوگوں کو یہاں بات بات پر پولیس کی بار بار پوچھ تاچھ کے عمل سے گذرنا پڑتاہے۔ ’نانوائی‘ کا کام تو جموں میں اس کے علاوہ بھی ہوتا ہے لیکن یہ صر ف تالاب کھٹیکاں اور چند مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہے مگر موسم سرما کے دوران جگہ جگہ یہ نانوائی کسی چھوٹے سے کونے میں ’تندرو‘ جلا کر وہاں کلچہ، لواسے تیار کرتے نظر آئیں گے۔

سول سیکریٹریٹ جموں کے باہر شالیمار روڑ، پنج تیرتھی مسجد کے سامنے، جموں بس اڈہ پر یہ ٹوکریاں لئے لواسے، گردے وغیرہ فروخت کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ’روٹی لے لو‘، روٹی لے لو‘کی آوزایں کہیں مقامات پر سننے کو ملتی ہیں۔ بٹھنڈی، قاسم نگر، سنجواں، ودھاتہ نگر، جانی پور جموں، بن تالاب، پرکھو، نصیب نگر، رمضان پورہ، سدھڑا وغیرہ میں جگہ جگہ یہ نانوائی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں اپنا کام کرتے ہیں۔ بٹھنڈی اور سنجواں علاقوں میں تو ہر سو میٹر کی دوری پر’نانوائی ‘کی دکان نظر آئے گی۔ یوں تو کشمیر کے اطراف واکناف سے نانوائی جموں آتے ہیں لیکن زیادہ تعداد اننت ناگ، ڈورو، ککر ناک، کولگام اور قاضی گنڈ کے لوگوں کی ہے۔ یہ لوگ یاتو اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں یا پھر چار پانچ لوگ ملک کر ایک دکان کے اندر کام کرتے ہیں، وہیں ان کا سونا، کھانا، پینا ہوتاہے۔

الالصبح 3بجے بیدار ہوکر یہ لوگ معدہ گوند کر اس کے لواسے، گردے، کلچے تیار کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک یادو افراد انہیں ٹوکریوں میں بھر کرگلی کوچوں میں گھوم کر آوازیں لگاتے ہیں ’روٹی لے لو‘، روٹی لے لو‘۔ چونکہ ہرسو میٹر کی دوری پر یہ لوگ رہتے ہیں، اس لئے سبھی کی کوشش رہتی ہے کہ وہ سب سے پہلے تازہ کلچے، لواسہ، گردے وغیرہ تیار کر کے انہیں لوگوں تک پہنچائے۔ صبح ایک طرف مسجد سے آزان، مندر سے بھجن اور گردوارے سے گربانی کی آواز سنائی دیتی ہے تو ساتھ وہیں ٹرکریاں لیکر گلی گلی میں ’روٹی لے لو، گرما گرم روٹی لے لو‘کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ گلاب کالونی بٹھنڈی میں نانوائی کا کام کر رہے اننت ناگ کے شنہاز ملک نے بتایاکہ وہ پچھلے 18برس سے چھ ماہ کے لئے جموں آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، جب گردہ، لواسہ، کلچہ کی قیمت ایک روپے فی ہوتی تھی، پھر دو روپے ہوئی، اڑھائی روپے، چار روپے اور اس وقت فی کلچہ/گردہ/لواسہ کی قیمت پانچ روپے ہے۔ نانوائی عبدالرحمن لون ڈورو اننت ناگ نے بتایاکہ جی ایس ٹی کا اثر ان کے کاروبار پر بھی پڑا ہے۔ معدہ کی 50کلوبوری کی قیمت پہلے  995روپے ہوا کرتی تھی، اب یہی بوری1150میں ملتی ہے۔

 وہ کہتے ہیں ’’انہیں مجبوراًپانچ روپے کلچہ/لواسہ کرنا پڑا کیونکہ اس سے کم انہیں فائیدہ نہیں، لیکن پانچ روپے قیمت کرنے سے ان کے کاروبار پر اثر پڑا ہے، اب اتنی زیادہ روٹیاں نہیں بکتیں، لوگ زیادہ تر گھروں میں ہی آٹا جو کہ سستا ہے، سے روٹیاں تیار کرنے کو ترجیحی دیتے ہیں، ان کے مطابق کشمیری لوگوں کے ساتھ جموں کے لوگ بھی ان سے روٹیاں خریدتے تھے، الیکن امسال اس میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جلا ل آباد میں نانوائی کا کام کر رہے بلال احمد، ظہور احمد، سہیل امد اور نواز احمد کے مطابق امسال بالن لکڑی بھی مہنگی ہے، پہلے یہ سنجواں ڈپو سے انہیں 400روپے کوئنٹل ملتی تھی، اب اس کی قیمت600روپے فی کوئنٹل ہے۔ اس لئے وہ مقامی لوگوں سے بالن لیتے ہیں، جوکہ انہیں 100یا120روپے میں گھٹا (اوسطاً25تا30کلو)مل جاتاہے۔ قا

ضی گنڈ کے امتیاز احمدجوکہ پانچ افراد مل کر نانوائی کا کام کرتے ہیں نے بتایاکہ ان کی باقاعدہ تنظیم ہے وہی معدہ، بالن ودیگرچیزوں کی قیمتوں کو مدنظر رکھ کر لواسہ، کلچہ ودیگربیکری کے نرخ مقرر کرتی ہے۔ ان نرخوں پر یکساں عمل ہوتا ہے۔ جموں یا کشمیر میں جہاں جہاں بھی نانوائی ہیں، ان کی قیمتیں یکساں ہوتی ہیں۔ نانوائی کی زیادہ تعداد ہونے سے بٹھنڈی، سنجواں، سدھڑا، جانی پور وغیرہ علاقوں کے غریب مرد وخواتین کو بھی فائیدہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ان نانوائی کو ’بالن لکڑی‘سپلائی کرتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔