بہت حسّاس ہونا بھی علامت بے حسی کی ہے

م ۔ سرور پنڈولوی

بہت حسّاس ہونا بھی علامت بے حسی کی ہے
ترے برباد ہونے میں ہر اک سازش اسی کی ہے

.

تمہاری حق نوائی پر ہر اک انگلی اٹھاتا تھا
قیامت اب ہے کیوں برپا جو حالت خامشی کی ہے

.

کبھی ہنستے ہوئے چہرے بہت مغموم ہوتے ہیں
کبھی آنسو نکل آنا نشانی بھی خوشی کی ہے

.

عدو کو بھول جاؤگے جو میرا حشر دیکھو گے
مری طرح بتاؤ تو جہاں میں دوستی کی ہے

.

ترے فکر سخن کی بس یہی معراج ہو”سرور”
غزل ایسی کوئی کہہ دے لگے جو’میر’ جی کی ہے

تبصرے بند ہیں۔