جمیل جالبی کی رحلت پرشعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعزیتی جلسے کا انعقاد

ہم نے جمیل جالبی کی صورت میں ایک بڑا عالم ہی نہیں بلکہ ایک بڑا انسان بھی کھودیا، ان کی شخصیت میں ایک عجیب جاذبیت تھی، وہ حد درجہ منکسر المزاج تھے اور علمی وادبی حلقہ میں انھیں نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر غلام مصطفے خاں جیسے متبحرعالم  کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جمیل جالبی کی رحلت پر منعقدہ تعزیتی جلسے میں پروفیسر خالد محمود نے کیا۔

پروفیسر وہاج الدین علوی (ڈین فیکلٹی برائے انسانی علوم والسنہ) نے کہا کہ جمیل جالبی ہرفن مولا تھے، ادب کی کوئی ایسی شاخ نہیں تھی جہاں انھوں نے اپنے نقوش نہ چھوڑے ہوں۔  تاریخ ادب اردو ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ وہ کسی ادبی گروہ سے وابستہ نہیں تھے۔ تہذیب وثقافت پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کی گفتگو حشو زوائد سے پاک ہوا کرتی تھی۔ ان کی تحریر نہ حددرجہ خشک ہوتی تھی اور نہ مزاح کے نام پر مبتذل۔

پروفیسر شہپر رسول نے تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمیل جالبی واقعی اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ انھوں نے نہایت غیر معمولی علمی کارنامے انجام دیئے۔ وہ اپنے کام اور کردار دونوں کے سبب بہت محترم تھے۔ مشرق ومغرب کے ادب پر ان کی بہت گہری نگاہ تھی۔

صدرشعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جمیل جالبی کی رحلت سے صحیح معنوں میں ادب کا بہت بڑا خسارہ ہواہے۔ وہ نہایت عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا دائرہ کار ہمہ جہت تھا، علم ادب کے ساتھ ان کی شدید ترین وابستگی کے پیش نظر یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ فنا فی الادب تھے۔ انھوں نے بیک وقت تاریخ، تحقیق، تنقید، تہذیب، ترجمہ اور لسانیات پر ناقابل فراموش علم ونظر کا مظاہر ہ کیا ہے اور انھوں نے اردو تحقیق و تنقید اور تاریخ نویسی کا ایک خاص معیار قائم کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ رہتی دنیا تک یاد کیے جائیں گے۔

پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ ان کا ایک اعتبار و احترام تھا، ان کے کسی بھی کام کو ضمنی نہیں سمجھا جائے گا، ان کا مطالعہ و مشاہدہ بہت وسیع تھا۔ پروفیسر کوثر مظہری نے تعزیتی بیان میں کہا کہ تحقیق وتنقید کے میدان میں ان کا کارنامہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر خالد جاوید نے کہا کہ جمیل جالبی نے ادب کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ پاکستانی کلچر کے حوالے سے ان کی کتاب حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر عمران عندلیب نے جمیل جالبی کو ایک نابغۂ روزگار شخصیت قرارد یا۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے جمیل جالبی کے ادبی و تاریخی شعور کے حوالے سے کہا کہ وہ اردو کے  پہلے باضابطہ ادبی مورخ ہیں۔ ڈاکٹر سید تنویر حسین نے ان کی دو کتابوں ایلیٹ کے مضامین اور ارسطو سے ایلیٹ تک کو اردو کی اہم تصانیف میں شمار کیا۔

تعزیتی جلسے میں ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر عادل حیات، داکٹر ابوالکلام عارف، ڈاکٹر سلطانہ واحدی، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر عمران ثاقب، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹرنعمان قیصر، ڈاکٹر محضر رضا، عبد الرحمن، بلال تانترے، عرفان احمد، صدف پرویزاور طلبہ وطالبات موجود تھے۔

تبصرے بند ہیں۔