جناب جاوید احمد غامدی اور انکارِحدیث!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہےکہ آج اسلامی دنیا کا ایک بڑا طبقہ تجددپسندوں کے ان جدید فلسفوں سےبےحد متاثر ہےجو دین اسلام کو مغربی نظریات سے ہم آہنگ کرنے کے لیےنہ صرف اس میں قطع و برید اور کانٹ چھانٹ کے قائل ہیں ؛بل کہ بدلتی ہوئی زندگی اور دورِ حاضر کی ارتقاء پذیری کا نام لے کر خدا کے آخری اور ابدی دین پر عمل کرنے کو روایت پرستی، رجعت پسندی اور دقیانوسیت کا مترادف قرار دیتےہیں، دین اسلام میں جزوی یا کلی تبدیلی، ترمیم اور اصلاح کےان ہی علمبرداروں کو تجدّد پسند اور متجدّدین کہا جاتاہے۔

ان متجدّدین میں سےبعض نےمعجزات و کرامات کے اسلامی تصور کو عہد جدید کے مخالف سمجھا تو برملااس کا انکار کیا، کسی نے متعارض احادیث کوتطبیق کی راہ میں رکاوٹ جانا تو اس پر ہاتھ صاف کیا، کچھ نے اسلامی اصطلاحات پر اپنی خودساختہ اصلاحات کوترجیح دی اور ان کو سند جواز عطاکیا، کسی نے اسلام کے سیاسی نظام میں عہد حاضر کے لبرل سیاسی نظاموں  کے مطابق تبدیلی کی ضرورت محسوس کی اور خلافت علی منہاج النبوۃ پر رکیک اعتراضات کئے، کسی نے اسلام کے فقہ المعاملات میں تغیر کا بیڑا اٹھایا اور سود جیسے قطعی و اجماعی حرمت رکھنے والے حکم کی حلت کا نظریہ پیش کیا، ان کے علاوہ کوئی اسلام کے نظام عفت و عصمت، برقعہ و حجاب کا دشمن ہوا، کسی نے اسلام کے عائلی نظام کو نشانہ بنایا، کسی نے فقہ الجہاد میں تغیر کی ضرورت محسوس کی، تو کسی نے اسلام کے نظام تزکیہ و احسان کو اپنا ہدف بنایا۔

چونکہ ان ترمیمات و تغیرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسلاف سے مضبوط رشتہ تھا، اس لیے اسلاف کے تذکرے اور علماء پر روایت پسندی کی پھبتی کسی گئی اور ہر ممکن طریقے سے راسخ العلم قدیم علماء کی اہانت، مخالفت اور تمسخر و مذاق اڑانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا، ان متجددین نے موجودہ دور میں دنیاوی سطح پر مسلمانوں کے زوال میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسلام کی اس تشریح وتعبیر کو سمجھا جو نسل در نسل، سینہ بہ سینہ اور طبقہ بہ طبقہ صحابہ کرامؓ کے دور سے اب تک چلی آرہی ہے، ان متجددین کی مجالس، اقوال اور تصانیف میں مشترک طور پر مغرب کی مدح سرائی، مغربی نظام کی اصلحیت، نافعیت، مسلم دنیا کے مستقبل کے بارے مایوسی، دین اسلام کے متفقہ و اجماعی احکام پر اشکالات، اعتراضات اور اسلامی تاریخ اور اسلاف امت کی تحقیر نظر آئے گی۔ متجددین کی تحریروں و تقریروں میں تجدید، جدت، احیاء، اصلاحات، زمانے کے ساتھ ہم آہنگی، اجتہاد اور اس جیسے الفاظ کی کثرت ہے۔ ان کی نظر میں زوال کا سبب دین کی اصلی شکل و صورت پر اصرار ہے اور جس دن دین میں زمانے کے ساتھ تبدیلی و ترمیم کا راستہ کھل گیا، اس دن سے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوکر ترقی کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔ یاللعجب

متجدّدین دنیائے اسلام کے ہر خطے اور ہر ملک میں پیدا ہوئے، لیکن برصغیر، ترکی اور مصر کو متجدّدین کے مراکز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا؛مگرگزشتہ کچھ عرصے میں ’دین‘ کی نئی تعبیر پیش کرنے کے سلسلے میں پاکستان کے روشن خیال دانش ور جناب جاوید احمد غامدی صاحب کوغیرمعمولی شہرت حاصل ہوئی،  نئی نسل میں وہ کافی مقبول ہوئے، ان کی متعدد کتابیں مطبوعہ شکل میں اور انٹرنیٹ پر بھی دست یاب ہیں۔ ان کا ایک مضبوط حلقہ ’المورد‘ کے نام سے موجود ہے اورماہ نامہ ’اشراق ‘ لاہور کے ذریعے بھی ان کے افکار کی ترسیل ــــان کے اور ان کے کارندوں کے ذریعہــــ برابر جاری ہے، یوٹیوب پر بھی ان کے بہت سے لکچرس اپ لوڈ ہیں، اسلوب کی متانت،  لہجہ کی سنجیدگی اور عقلی اندازِ پیش کش نوجوانوں کوسرتسلیم خم کردینےپرمجبور کرتا ہے ؛اسی وجہ سے ایک بڑا طبقہ ان کا گرویدہ ہوچکاہے ۔

دوسری طرف یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ انہوں نے دین کا جو تصور پیش کیا ہے وہ جمہور امت کےتصورِ دین سے بڑی حدتک مختلف ہے اور اس کے ڈانڈے اعتزالی فکراور انکارِ حدیث سے جاملتے ہیں ۔ پاکستان میں اس موضو ع پرمتعدد علمی رسائل میں مباحثے ہوتے رہے ہیں ۔

آج کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہماراروشن خیال طبقہ دینی و اسلامی علوم کو بھی یورپی فکر کی عینک لگا کر پڑھنےکی کوشش کرتاہے، انہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اسلامی علوم کا مطالعہ براہِ راست کتاب و سنت کے مآخذ سے کریں،  علماء کرام اور اسلافِ اُمت کی تعبیر کو نمونۂ عمل سمجھیں بلکہ مستشرقین ومتجددین نے اپنی ناقص تحقیقات کی بناء پر تاریخ اسلام اور کتاب و سنت کے متعلق جو کچھ لکھ دیا ہے، اس کو حرفِ آخر سمجھ لیا جاتا ہے؛حالانکہ ان فلسفوں میں کچھ چیزیں وہ تھیں جو تجربات و مشاہدات پر مبنی تھیں اور بہت سی چیزیں وہ تھیں جو محض ظنّ و تخمین اور فرض و تخییل پر مبنی تھیں ۔ گویا ان میں حق بھی تھا اور باطل بھی، علم بھی تھا اور جہل بھی، یہ فلسفے مغربی فاتحین کے جلو میں آئے اور مشرقی عقل و طبیعت نے فاتحین کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی قبول کر لی، ان فلسفوں پر ایمان لانا ہی عقل و خرد کا معیار بن گیا اور اس کو روشن خیالی کا شعار سمجھا جانے لگا۔ مستشرقین کے زیر اثر یہ الحاد و ارتداد اسلامی ماحول میں بغیر کسی شورش اور کش مکش کے پھیل گیا۔ نہ باپ اس انقلاب پر چونکے، نہ اساتذہ اور مربیوں کو خبر ہوئی اور نہ غیرت ایمانی رکھنے والوں کو جنبش ہوئی۔ اس لئے کہ یہ ایک خاموش انقلاب تھا۔

مختصر تعارف:

جناب جاوید احمد غامدی کون ہیں ؟ ان کا علمی پس منظر کیا ہے؟ انہوں نے کہاں پڑھا؟ کیا پڑھا؟ ان کے پاس دینی و عصری علوم کی کوئی سند یا ڈگری ہے یا نہیں ؟ وہ کس کے تربیت یافتہ ہیں ؟ وہ کن کے علوم و افکار سے متاثر ہیں ؟ ان کے اساتذہ مسلمان تھے یا کافر؟ وہ ایک دم کہاں سے نمودار ہوئے؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کیسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے؟ ان کو ٹی وی پر کون لایا؟ وہ اسلامی نظریاتی کونسل میں کیسے داخل ہوئے؟ وہ حکومت کی ناک کا بال کیسے بنے؟ انہیں اپنی فکر و فلسفہ کے پروان چڑھانے میں کن لوگوں نے مالی تعاون کیا؟ ان کے لئے فنڈنگ کون کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات، قرآن و سنت، اجماع امت اور دین و مذہب کو بگاڑنے، اکابر و اسلافِ امت کے خلاف بغاوت کرنے اور ان کے خلاف زبان درازی کرنے کی ہمت رکھتے ہوں،  وہ دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں اور مذہب بیزار لابیوں کے منظور نظر بن جاتے ہیں،  اور ان کے تمام عیوب ونقائص نہ صرف چھپ جاتے ہیں بلکہ اعدائے اسلام ان کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو اپنا فرض اور اعزاز سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت و سرپرستی کے لئے اپنے اسباب، وسائل، مال و دولت اور خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں،  صرف یہی نہیں بلکہ نظری، بصری میڈیا کے ذریعے ان کا ایسا تعارف کرایا جاتا ہے کہ دنیا ان کے ”قدوقامت“ اور نام نہاد علمی شوکت و صولت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔

اور یہ تو باطل فرقوں کی سرشت میں داخل ہے کہ ان سے وابستہ افراد میں جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا، جن لوگوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز عمل اور اسوہ کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آڑ سمجھا، انہوں نے اجماع صحابہ اور اجماع امت سے منہ پھیرلیا۔ جنہوں نے فقہائے کرام کی تحقیقات اور استنباطات کو اپنی نفس پرستی اور خواہش پرستی کے سامنے دیوار سمجھا، انہوں نے فقہائے کرام کی تقلید کاسرے سے انکار کردیا۔

غامد ی صاحب کا اصل نام محمد شفیق ہے؛ لیکن وہ بعد میں جاوید احمد ہوگئے، موصوف پیر کِریاں (پاکپتن ضلع ساہیوال) میں 18/اپریل 1951 کو پیدا ہوئے۔ مذکورہ گاؤں اب قصبہ پاکپتن میں ضم ہو چکا ہے، پھر خاندان سمیت لاہور میں سلطان پورہ محلے میں مقیم ہوگئے ۔آج کل ڈیفنس لاہور میں رہائش پذیر ہیں،  لیکن چندہ ماہ سے بعض وجوہات کی بنا پر بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں ۔  ان کا تعلق زئی خاندان سے ہے؛مگر انہوں نے اپنا نسب تبدیل کرلیا ہے اور آج کل وہ یمن کے ایک قبیلے غامد کی نسبت سے غامدی کہلاتے ہیں ۔

غامدی نے بی اے تک تعلیم پائی ہے وہ کسی دینی ادارے کے سند یافتہ فارغ التحصیل نہیں ہیں، ستر (70)کی دہائی میں چند برس جماعت اسلامی (لاہور) کے رکن رہے ۔ پہلےمولانا مودودی سے بہت متاثر  تھے، پھر مولانا امین احسن اصلاحی سے راہ و رسم پیدا کرلی، وہ مولانا اصلاحی کے باقاعدہ شاگرد نہیں ہیں، البتہ ان کے کچھ دروسِ قرآن میں ضرور شرکت کر چکے ہیں، وہ مولانا اصلاحی کا نام استعمال کرتے ہیں ورنہ ان سے گہرے اختلافات رکھتے ہیں ۔

آج پڑوسی ملک پاکستان کے تقریبا تمام ٹی وی چینلزپرمختلف ناموں سے موصوف کے پروگرام جاری ہیں،  جیو ٹی وی کے پروگرام ’’غامدی‘‘آج ٹی وی کے پروگرام ’’اسلام‘‘ اور پی ٹی وی کے پروگرام ’’فہم دین‘‘کے علاوہ بھی دینی موضوعات پر تقریبا تمام ٹوک شوز میں بحیثیت مذہبی اسکالر مدعو ہوکر دین کا غلط تصور عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ موصوف جو پرویزی دور حکومت کی نوازشوں کے سبب ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘کے رکن بھی ہیں پی ٹی وی کے پروگرام میں نامحرم نوجوان عورتوں کے بیچ و بیچ بیٹھ کرخودساختہ، تجدد زدہ اور معتدل اسلام کی بھٹرکیاں چھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تجدد پسندی کی آڑ میں انکارِحدیث:

غامدی صاحب کابنیادی دعویٰ ہے کہ حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں، یہ دین کا حصہ نہیں ؛بل کہ دین سے الگ کوئی غیر اہم شئی ہے، دین کا کوئی عقیدہ اور عمل اس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر احادیث کی کچھ اہمیت ہوتی اور یہ بھی دین کا حصہ ہوتیں تو ان کی حفاظت اور تلیغ و اشاعت کے لئے خود رسو ل اللہ ﷺ نے ایسا کوئی اہتمام کیوں نہیں فرمایا؟

چنانچہ جاوید غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’مبادئ تدبر حدیث ‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :

”نبی ﷺکے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں ’’حدیث‘‘ کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا: ایک یہ کہ رسول ﷺ نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔

حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ایک خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اسے دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی، لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں ’’ ۔

ٹی وی پروگراموں سے شہرت پانے والے جاوید احمد غامدی جو دین و شریعت کے ہر مسئلہ کو اپنی عقل کی میزان پر تولتے ہیں اور ان کی عقل رسا میں جو مسئلہ فٹ نہیں بیٹھتا تو اس کا انکار کرنا اپنا فرض منصبی اور ضروری حق گردانتے ہیں،  موصوف کی کج راہیوں کی ایک طویل فہرست ہے، مختصر یہ کہ مسلَّماتِ امت کے باغی، ہم جنس پرستی کے مجوِز، حدِّ رجم اور سزائے ارتداد کے منکر، اجماعِ امت اور حدیث ِرسول سے نالاں اور خفا ہیں۔

اخیر میں ہم غامدی صاحب کے چندگمراہ عقائد اور باطل نظریات کاسرسری ذکر کرکےبات ختم کرتے ہیں ؛ جن سے اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہے کہ غامدیت کا فتنہ کس قدر سنگین اورخطرناک ہے ۔

گمراہ کن باطل نظریات:

1…. عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ [میزان، علامات قیامت، ص:178، طبع 2014]

2…. قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔ [میزان، علامات قیامت، ص:177، طبع مئی2014]

3….(مرزا غلام احمد قادیانی) غلام احمد پرویز سمیت کوئی بھی کافر نہیں،  کسی بھی امتی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں ہے۔

[اشراق، اکتوبر2008، ص:67]

4…. حدیث سے دین میں کسی عمل یا عقیدے کا اضافہ بالکل نہیں ہوسکتا۔[میزان، ص:15]

5….سنتوں کی کل تعداد صرف 27 ہے۔ [میزان، ص:14]

6….ڈاڑھی سنت اور دین کا حصہ نہیں ۔ [مقامات، ص:138، طبع نومبر2008]

7….اجماع،  دین میں بدعت کا اضافہ ہے۔ [اشراق، اکتوبر2011، ص:2]

8….مرتد کی شرعی سزا نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔ [اشراق، اگست2008، ص:95]

9…. رجم اور شراب نوشی کی شرعی سزا حد نہیں ۔[برہان، ص:35 تا 146، طبع فروری 2009]

10…. اسلام میں ”فساد فی الارض“ اور ”قتل نفس“ کے علاوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔ [برہان، ص:146، طبع فروری 2009]

11….قرآن پاک کی صرف ایک قرآت ہے، باقی قراءتیں عجم کا فتنہ ہیں ۔[میزان، ص:32، طبع اپریل2002..بحوالہ تحفہ غامدی]

12…. فقہاءکی آراءکو اپنے علم وعقل کی روشنی میں پرکھاجائےگا۔ [سوال وجواب، ہٹس 7277، 19جون 2009]

13….ہرآدمی کو اجتہادکاحق ہے۔ اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں،  جو سمجھے کہ اسے تفقہ فی الدین حاصل ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔ [سوال وجواب، ہٹس 612، تاریخ اشاعت:10 مارچ 2009]

14….نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد غلبہ دین کی خاطر (اقدامی)جہاد ہمیشہ کے لیے ختم ہے۔

[اشراق، اپریل2011، ص:2]

15….تصوف عالم گیر ضلالت اور اسلام سے متوازن ایک الگ دین ہے۔ [برہان، ص:1811، طبع 2009]

16…. حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی اور یزید بہت متحمل مزاج اور عادل بادشاہ تھا۔ واقعہءکربلا سوفیصد افسانہ ہے۔

 [بحوالہ غامدیت کیا ہے؟ از مولاناعبدالرحیم چاریاری]

17….مسلم وغیر مسلم اور مردوعورت کی گواہی میں فرق نہیں ہے۔ [برہان، ص:25 تا 344، طبع فروی 2009]

18…. زکوٰة کے نصاب میں ریاست کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ [اشراق، جون 2008، ص:70]

19…. یہود ونصاریٰ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں،  اِس کے بغیربھی اُن کی بخشش ہوجائے گی۔[ایضًا]

20….موسیقی فی نفسہ جائزہے۔ [اشراق، فروری2008، ص:69]

21….بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر کے علاوہ ہر قسم کی تصویریں جائز ہیں ۔[اشراق، مارچ، 2009، ص:69]

22…. بیمہ جائز ہے۔ [اشراق، جون 2010، ص:2]

23….یتیم پوتا دادے کی وراثت کا حقدار ہے۔ مرنے والی کی وصیت ایک ثلث تک محدودنہیں ۔ وارثوں کے حق میں بھی وصیت درست ہے۔ [اشراق، مارچ2008، ص:63….مقامات:140، طبع نومبر2008]

24…. سور کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔ اس کے بال، ہڈیوں،  کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائز ہے۔

[اشراق، اکتوبر1998، ص:89]

25….سنت صرف دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ اور یہ قرآن سے مقدم ہے۔ اگر کہیں قرآن کا ٹکراو  یہود ونصاریٰ کے فکر وعمل سے ہوگا تو قرآن کے بجائے یہودونصاریٰ کے متواتر عمل کو ترجیح ہوگی ۔ [میزان، ص:14، طبع2014]

26….عورت مردوں کی امامت کر اسکتی ہے۔[ماہنامہ اشراق، ص 35 تا 46، مئی2005]

27….دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے اس کے بارہ میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے ا س کا کوئی جواز نہیں ۔[ماہنامہ اشراق، ص 47، شمارہ مئی2002]

28….مسجد اقصی پر مسلمانوں کا نہیں اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔ [ اشراق جولائی، 20033اور مئی، جون2004]

29….بغیر نیت، الفاظِ طلاق کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ [اشراق، جون2008، ص:65]1

30…. ہم جنس پرستی ایک فطری چیز ہے، اس لئے جائز ہے۔]’المورد’ کا انگریزی مجلہ ‘رینی ساں ‘ کا شمارہ اگست ۲۰۰۵ء[

معزز قارئین ! مندرجہ بالاباطل  خیالات اور خود ساختہ افکارکے مطالعہ سے آپ نے بخوبی اندازہ لگالیاہوگا کہ غامدیت، مذہب اسلام کےمتوازی ایک مستقل فکر ہے جو مسلمات دین، متفقہ اور اجماعی عقائد و اَعمال سے مکمل  مختلف اور جادہ حق و صراط مستقیم  سے بالکل الگ اور جداگانہ ہے۔

ایک طرف غامدی صاحب کے پیش کردہ دین کے بنیادی تصور میں ترمیم وتحریف کا یہ عالم ہے کہ ہر نئے دور کے ساتھ اس میں تبدیلی دَر آتی  رہتی ہے جس سے ان کا بنیادی تصورِ دین (جس کوموصوف تصورِ سنت  انبیاء سے بھی تعبیر کرتےہیں ) بھی محفوظ نہیں،  لیکن دوسری طرف ہر ترمیم پر ان کا دعواے قطعیت بھی قابل داد ہے کہ وہ کس استقامت کے ساتھ ہر بار باہم متضاد دعویٰ کرتے ہیں اور اپنی الگ راگ الاپتےہیں ۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

3 تبصرے
  1. سید فاروق احمد کہتے ہیں

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    ماشاء اللہ مولانا عبدالرشید صاحب نے بہت ہی عمدہ اور زبردست مضمون لکھا ہے۔
    اللہ مولانا کی عمر دراز فرمائیں اور ہر پریشانی مصیبت سے آپ کی حفاظت فرمائیں۔
    سید فاروق احمد

  2. آصف علی کہتے ہیں

    مغل بادشاہ اکبر اپنے وقت کے مسلمان علماء کی حرکتیں دیکھ کرہی مزھب بے زار ہوا تھا ،آپ کی دلچسپی کے لئے مولانا محمد حسین آزاد کی "دربار اکبری”سے ایک پیراگراف،
    "علماء کی جماعت ایک عجیب الخلقت فرقہ ھے، مباحثوں کے جھگڑے تو پیچھے ھونگے، پہلے نشست پر ھی معرکے ھونے لگے کہ وہ مجھ سے اوپر کیوں بیٹھے، اور میں اس سے نیچے کیوں بیٹھوں”۔
    افسوس یہ کہ مسجدوں کے بھوکوں کو جب تر نوالے ملے اور حوصلے سے زیادہ عزتیں ہوہیں، توگردنوں کی رگیں تن گئیں، آپس میں جھگڑنے لگے اور غل ھو کر شور سے شر اٹھے، ھر شخص یہ چاہتا تھا کی میں اپنی فضیلت کے ساتھ دوسرے کی جہالت دکھاؤں، دغابازیاں، انکی دھوکے بازیاں، اور جھگڑے بادشاہ کو ناگوار ہوئے کہ ناچار حکم دیا کہ جو نامعقول بے محل بات کرے اسے آٹھا دو۔
    "اور ہر عالم کا یہ عالم تھا کہ جو میں کہوں وہی آیت وحدیث مانو، جو زرا چون وچرا کرے، اس کے لئے کفر سے ادھر کوئی ٹھکانا ہی نہیں، دلیلیں سب کے پاس آیتوں اور روایتوں سے موجود بلکہ علماء سلف کے جو فتوے اپنے مفید مطلب ہوں، وہ بھی آیت وحدیث سے کم درجے میں نہ تھے …

  3. آصف علی کہتے ہیں

    غامدی فکر کا اگر ایک جملے میں خلاصہ کیا جائے تووہ ہے "اسلام کو مغربی فکر و تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش”۔ اس کوشش کا محرک خلوص بھی ہے، مغالطہ انگیزی بھی ہے، مرعوبیت بھی ہے اور سوئے فہم بھی ہے۔ دو اسباب نے اس کاوش کو غیرمعمولی کامیابی اور مقبولیت عطا کی ہے .
    (1) طاقت کے مراکز و بہاؤ سے ہم آہنگی (2) اپنے نقطہ نظر کو دلیل اور اخلاق سے پیش کرنا۔
    اگرہم اس فکر کی غلطی اور گمراہی کو واضح اور مبرہن کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ازبس ضروری ہے کہ ہم اس سے کہیں زیادہ دلیل اور اخلاق کو بروئے کار لائیں جس کی وجہ سے اس فکر کو شہرت حاصل ہوئی ہے۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے اس فکر کی خرابی کو واضح کرنے کا۔ اس کے علاوہ ہم جو بھی طریقہ اختیار کریں گے سوائے خرابی کو بڑھاوادینے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔