اسلام اور حقوقِ خواتین

تحریر: ڈاکٹرحمیداللہ…ترتیب: عبدالعزیز

 زمانہ قبل از اسلام کے عرب معاشرے میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں بہت کم تر حیثیت حاصل تھی، یہاں تک کہ اگر قصور وار مرد ہوتا اور عورت اس کے ظلم کا نشانہ بنتی تو قصاص واجب نہیں تھا مگر اسلام نے یہ امتیاز ختم کردیا اور جان، مال اور عزت کے حوالے سے جرائم پر کارروائی مرد اور عورت کیلئے یکساں کردی؛ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض معاملات میں عورتوں کے حقوق مردوں سے بھی بڑھ کر ہیں ، مثلاً قرآن مجید کے ارشاد (4-5:24) کے مطابق اگر کوئی مرد کسی عورت پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے اور اس کا ثبوت بہم نہیں پہنچاتا تو اسے نہ صرف بہتان کیلئے مقرر سزا بھگتنا پڑے گی بلکہ وہ عدالت میں گواہی دینے کے حق سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو جائے گا۔ (آخرت میں اللہ کی طرف سے ملنے والی سزا اس کے علاوہ ہوگی؛ تاہم توبہ سے یہ سزا معاف ہوسکتی ہے)۔ اور اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ توبہ کے باوجود گواہی کے حق سے ابدی محرومی کی سزا برقرار رہتی ہے کیونکہ توبہ سے صرف اس کی آخرت کی سزا معاف ہوگی۔ قرآن مجید کا منشا یہ ہے کہ معاشرے کو غیر محتاط زبان درازی کی لعنت سے پاک رکھا جائے؛ خصوصاً ان معاملات میں جہاں زخم لگانا آسان مگر اس کا مداوا مشکل ہو۔

 مال اور جائیداد کے معاملات میں عورت کی مکمل خود مختار حیثیت اور انفرادی تشخص بالکل واضح ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے عورت کو اپنے مال و جائیداد پر مکمل تصرف حاصل ہے اور اگر وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے تو اسے اپنی جائیداد کو اپنی مرضی سے خرید و فروخت کا مکمل اختیار دیا گیا ہے، جس میں کسی مرد کی مداخلت ضروری نہیں چاہے وہ اس کا باپ ہو، بھائی، شوہر، بیٹا یا کوئی اور ہو۔ اس معاملے میں اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ۔ کسی عورت کے شوہر یا باپ کے قرضے کے عوض اور اس کی جائیداد کو چھوا بھی نہیں جاسکتا۔ اسی طرح مقروض عورت کے قرضوں کی ادائیگی اس کے مذکورہ رشتہ داروں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ مرد کی طرح عورت کو بھی جائیداد حاصل کرنے یا رکھنے کی مکمل آزادی ہے چاہے اسے ورثہ میں ملے یا کہیں سے تحفہ یا عطیہ ملے اور چاہے اس نے اپنی محنت سے مال کمایا ہو، وہ مکمل طور پر اس کی اپنی ملکیت ہے۔ وہ اس مال یا جائیداد کو بیچنے، کسی کو تحفہ میں دے دینے یا اس کا کوئی بھی قانونی مصرف اختیار کرنے میں مکمل طور پر خود مختار اور آزاد ہے۔ یہ تمام حقوق عورت کو ہمیشہ کیلئے دے دیئے گئے ہیں ۔ اس کیلئے شوہر یا کسی دوسرے معاہدہ یا سمجھوتہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

حق وراثت کی کچھ وضاحت کی ضرورت ہے۔ قبل از اسلام کی عرب عورت کو وراثت کا حق حاصل نہیں تھا، نہ ہی باپ کے ورثہ سے اسے کچھ ملتا تھا اور نہ ہی شوہر سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نبوت کے پہلے پندرہ سال میں اس معاملے کی طرف توجہ کی فرصت ہی نہ ملی۔ روایات کے مطابق ہجرت کے تین سال بعد مدینہ کے ایک رئیس اوسؓ بن ثابت انتقال کر گئے اور پسماندگان میں ایک بیوہ اور چار نوعمر صاحبزادیوں کو چھوڑا۔ مدنی رواج کے مطابق ورثاء میں سے صرف بالغ مرد جو جنگ میں حصہ لینے کے قابل تھے وراثت کے حقدار تھے؛ حتیٰ کہ کمسن بیٹے کو بھی متوفی باپ کی وراثت سے کچھ نہیں ملتا تھا، چنانچہ اوس کے چچا زاد بھائیوں نے پوری جائیداد قبضے میں لے لی جبکہ اوس کی بیوی اور بیٹیاں راتوں رات امیر سے فقیر ہوگئیں ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنی آیات نازل ہوئیں اور وراثت کے اسلامی احکام آگئے اور یہی اسلامی قانون وراثت ہے جس پر آج تک عمل کیا جاتا ہے جبکہ خطہ لاوند (Levant) یعنی بحیرہ روم کے مشرقی نصف ممالک (شام، اسرائیل، لبنان، مراکش وغیرہ) کے مسیحیوں کے ہاں بھی یہی قانون وراثت رائج ہے۔

اسلامی قانون کے مطابق (بحوالہ قرآن:176:4, 12-7:4) مردوں کی وراثت سے بیوی، بیٹی، ماں ، بہن اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو حق دے دیا گیا۔ اسلام نے وراثت میں منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد میں بھی کوئی امتیاز نہیں رکھا بلکہ حکم دیا ہے کہ وراثتی جائیداد کی ہر چیز قانونی وارثوں میں تقسیم کر دی جائے۔ ایسی وصیت کو بھی اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے جس میں مالک نے اپنی جائیداد کسی ترنگ میں آکر اجنبیوں کو دے کر جائز وارثوں کو محروم کر دیا ہو؛ بلکہ قانونی ورثاء کیلئے وصیت کی ضرورت ہی نہیں، انھیں خود بخود وراثت سے حصہ نہ مل سکتا ہو اور اس کی بھی اسلام نے حد مقرر کر دی ہے کہ اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی اور یہ حد ساری جائیداد کا ایک تہائی ہے۔ باقی دو تہائی جائیداد بہر صورت وراثت ہے جو اس کے جائز حقداروں میں تقسیم ہوگی۔ ایک تہائی سے زیادہ جائیداد کی وصیت صرف اس صورت میں قابل عمل ہے جب ورثاء متفقہ طور پر اس پر رضامندی ظاہر کردیں ۔

 وراثت کا قانون کافی پیچیدہ ہے کیونکہ مختلف ورثاء کے حصوں میں حالات کے مطابق کمی بیشی بھی ہوجاتی ہے۔ اکلوتی بیٹی یا ایک بیٹے کی موجودگی میں صرف والدہ یا والد کی موجودگی میں بچوں کے ساتھ یا بچوں کے بغیر، اکلوتی بہن یا بھائی کی موجودگی میں ، متوفی کا والد یا بچے، ان تمام صورتوں میں ورثاء کے حصے کی نوعیت مختلف ہوجاتی ہے؛ تاہم اس کو تفصیلات کے ساتھ بیان کرنے کی گنجائش یہاں نہیں ہے لیکن خواتین کے حصے کا تذکرہ موضوع کی مناسبت سے ضروری ہے۔ متوفی کا اگر بچہ بھی ہو تو بیوی کو شوہر کی جائیداد سے آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ بچہ نہ ہونے کی صورت میں وہ چوتھے حصے کی حقدار ہوتی ہے۔ اکلوتی بیٹی کو متوفی باپ کی نصف جائیداد ملتی ہے اور اگر بیٹیاں زیادہ ہوں تو دو تہائی جائیداد ان میں برابر کے حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے؛ یعنی اگر ان کا بھائی نہ ہو تو، لیکن اگر متوفی کا بیٹا بھی موجود ہو تو پھر بیٹی کو بیٹے کی نسبت نصف وراثت ملتی ہے۔ اگر متوفی کی صرف والدہ زندہ ہو تو اسے بیٹے کے ورثہ کا ایک تہائی ملتا ہے جبکہ باپ، بچے یا بھائی اور بیٹوں کی موجودگی کی صورت میں ماں چھٹے حصے کی حقدار ہوتی ہے۔ متوفی کا وارث بیٹا موجود ہو تو بہن کو حصہ نہیں ملتا، البتہ بیٹا نہ ہو تو بہن نصف ترکہ کی وارث ہوتی ہے اور دو یا زیادہ بہنوں کی صورت میں دو تہائی ترکہ ان میں برابر تقسیم ہوتا ہے۔ اکلوتی بیٹی کے ساتھ بہن کو چھٹا حصہ اور اگر ایک بھائی بھی ہو تو اسے بھائی سے نصف ترکہ ملے گا۔ اسی طرح حقیقی بہنوں ، ایک باپ اور والدہ مختلف ہونے کی صورت میں بہنوں جبکہ ایک ماں اور باپ مختلف ہونے کی صورت میں بہنوں کے حصے مختلف ہوں گے۔

یہ ضروری ہے کہ بہن اور بھائی، ماں اور باپ ، بیٹی اوربیٹے کے مابین ترکہ کے حصوں میں جو عدم مساوات ہے اس حوالے سے اسلامی قانون وراثت کی وضاحت کردی جائے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قانون ساز حقیقی نے خواتین کے حقوق کا تعین مجموعی حوالے سے کیا ہے اس حقیقت کے ساتھ کہ قوانین عام طور پر معمول کے حالات کے مطابق بنائے جاتے ہیں اور مستثنیات کو اس مرحلے پر پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ (تاہم بعد میں خلافِ معمول معاملات سامنے آنے پر ان کا حل بھی پیش کر دیا جاتا ہے)۔

 پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ عورت اپنی جائیداد اور املاک کی بلاشرکت غیرے مالک ہوتی ہے اور اس میں باپ، شوہر یا کسی اور رشتہ دار کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اس ملکیت کے علاوہ عورت نان و نفقہ کی الگ سے حقدار ہوتی ہے؛ یعنی شادی سے قبل اس کی ضروریات کی تکمیل باپ اور شادی کے بعد شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور عدالت باپ، شوہر یا بیٹے کو پابند کرتی ہے کہ وہ عورت کی جملہ ضروریات کی کفالت کریں ۔ اس کے بعد عورت شادی کے موقع پر شوہر سے مہر کی صورت میں بھی رقم وصول کرتی ہے جو قبل از اسلام عورت کے باپ کو ملتا تھا مگر اسلام نے اسے ہر لحاظ سے عورت کا حق قرار دیا ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ مہر اور جہیز میں فرق ہے۔ مہر لازمی ہے جس کے بغیر شادی مکمل نہیں ہوتی جبکہ جہیز لازمی نہیں ۔ اس طرح یہ دیکھنا ہوگا کہ (اتنا کچھ حاصل کرنے کے بعد) عورت کی مالی ذمہ داریاں مرد کی نسبت بہت کم ہیں کہ اس کے اپنے اخراجات تو مرد کی ذمہ داری ہیں اور اس کے ذاتی اخراجات بھی کم ہوتے ہیں ۔ اس طرح یہ بات قابل فہم نظر آتی ہے کہ چونکہ مرد کی مالی ذمہ داریاں عورت کی نسبت بہت زیادہ ہیں ، اس لئے اسے ترکہ میں سے زیادہ حصہ ملنا قرین انصاف ہے۔ اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر چہ عورت کے تمام تر اخراجات دوسروں کی ذمہ داری ہیں مگر اس کے باوجود اسلام نے اسے مزید نوازنے کیلئے وراثت میں بھی حصہ دار بنایا ہے۔

جہاں تک ایک گھر کے چلانے کا تعلق ہے تو اس کیلئے باہمی تعاون کی ضرورت ہے اور عورت بھی گھر کی آمد نی میں اضافہ کیلئے کام کرتی ہے یا اگر کام نہیں کرتی اور سلیقے سے اخراجات کم کرکے گھر چلاکر تعاون کرتی ہے مگر یہاں موضوع عمارت کے حقوق کا ہے، سماجی روایات اور معمولات نہیں جو ہر گھر اور فرد کے الگ ہوتے ہیں ۔ عورت کی ضروریات کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام کے قانون کے مطابق عورت پر یہ پابندی بھی نہیں ہے کہ وہ لازمی طور پر اپنے بچے کو اپنا دودھ پلائے بلکہ اگر ماں بچے کو دودھ پلانے پر آمادہ نہیں تو یہ ذمہ داری بھی مرد کی ہے کہ بچے کیلئے اپنے اخراجات پر رضاعی ماں کی خدمات حاصل کرے۔

شادی:

اب کچھ ذکر شادی (نکاح) کا ہوجائے جس کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ اسلام میں شادی ایک دو طرفہ معاہدہ ہے جس میں دونوں فریقوں کی مکمل قلبی رضامندی ضروری ہے۔ والدین یقینا اپنی اولاد کیلئے اپنے تجربے کی روشنی میں بہتر شریک حیات کی تلاش میں مشورہ دے کر مدد کرتے ہیں ؛ تاہم حتمی ’’ہاں ‘‘ کا حق رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے والے جوڑے کو حاصل ہے اور اسلام کے قانون میں یہ حق مرد اور عورت کا برابر ہے۔ مختلف خطوں اور طبقوں میں خلاف اسلام رسم و رواج کسی نہ کسی درجہ میں پائے جاتے ہیں مگر جہاں تک اسلامی قانون کا تعلق ہے وہ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کے خلاف شادی کے کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کرتا۔

 یہ درست ہے کہ اسلام ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے مگر اس بارے میں اسلامی قانون ان نظام ہائے قوانین کی نسبت زیادہ لچکدار اور معاشرتی ضروریات سے زیادہ ہم آہنگ ہے جہاں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں ۔ فرض کیجئے ؛ ایک عورت جس کے بچے ابھی کمسن ہیں ، کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوکر گھر کے کام کاج سے معذور ہوجاتی ہے اور شوہر کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایک ملازمہ رکھنے کے اخراجات برداشت کرسکے۔ باقی ازدواجی فطری تقاضے تو الگ رہے، یہ بھی فرض کریں کہ بیمار بیوی شوہر کے دوسری بیوی لانے پر رضامند ہوجاتی ہے اور ایسی عورت بھی مل جاتی ہے جو ان حالات میں ایسے مرد سے شادی پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ مغربی قانون یہ اجازت تو دے دے گا کہ مرد اپنی بیوی سے چوری سے گرل فرینڈ رکھ کر بدکاری کا ارتکاب کرتا رہے مگر یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ قانونی طور پر ایک اور بیوی کو گھر لاکر نہ صرف ویران گھر کو پھر سے آباد کرے بلکہ جائز طور پر ازدواجی زندگی کے مفادات بھی حاصل کرے۔ (جاری)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دئیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
    ” تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے لئے لباس ہو اور وہ تمہارے لئے لباس ہیں۔“
    اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نہایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انہیں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر بتاتے ہوئے عورت کو بھی تمدنی طور پر وہی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
    ” عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمہارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔“
    یہاں بھی عورت کو مرد کے برابر اہمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نہیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔
    یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ہوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناء پر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی لئے قران نے مرد کو عورت پر نگران اور ”قوامیت “ کی فوقیت دی ہے۔ مگر دوسری جانب اسلام نے ہی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جنہوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ہر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔