جناب نسیم احمد: مخلص رفیق، فکری رہنماء

رضوان احمد اصلاحی

(امیر مقامی جماعت اسلامی ہندپٹنہ)

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی       

ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

ہمارے پڑوسی جناب شوکت علی نے ۹؍ستمبر۲۰۱۸ء کی رات ساڑھے ۱۰؍بجے دروازہ کھٹکھٹایا ، دروازہ کھولتے ہی سلام کے ساتھ ایک ہی جھٹکے میں بولے’’نسیم احمد صاحب‘‘ کا انتقال ہوگیا، کون نسیم صاحب؟ ارے وہی راشدبھائی کے والدصاحب ، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ فوراًراشدبھائی کو فون کیا، کوئی جواب نہیں ملا، یقین ہوگیا کہ خبر صحیح ہے ، بلاتاخیر تعزیت کے لیے نکل پڑا۔ لیکن پہنچتے ہی امید کی ایک کرن نظر آئی ، دیکھامرحوم کے لائق فرزندراشداحمد صاحب اپنے والد ماجدکوایسے ہاتھ ، پاؤں اور سردبارہے ہیں جیسے کسی بیمار کی تیمارداری کی جاتی ہے۔ پوچھا کیا حال ہے؟ہچکیوں کی آڑ میں بھرائی ہوئی آواز میں بولے! ابا گذرگئے۔ پھرتو ساری امید ین منقطع ہوگئیں۔ دل ہی دل میں کہا راشد بھائی، تعزیت کے لیے آنے والوں کو دھوکہ کیوں دے رہے ہیں ؟۔ زبردستی میت کے پاس سے ان کو اٹھایا اور صبر جمیل کی تلقین اپنے آپ کو بھی اور ان کو بھی کی۔

 نسیم احمدصاحب سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ یادنہیں ہے، البتہ اتناضروریاد ہے کہ وہ ۲۰۰۶ء کا سال تھا ، اور پہلی ملاقات میں ہی ہم ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوئے جیسے ہمارا ان کا صدیوں پر محیط تعلق استوار ہواور اب ان کے اچانک انتقال سے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے دنیا سونی ہوگئی ہے، جیسے کچھ کھوگیاہے۔

نسیم احمد صاحب کی سنجیدگی، وقار، متانت ، مسکراہٹ، اپنائیت سے شایدکوئی ملاقاتی انکارکرے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پہلی ملاقات میں نہ کوئی تقریر، نہ درس، نہ تحریر، نہ ہی کوئی فکری اور نظریاتی گفتگو، بس زبان حال سے ان کے مذکورہ اوصاف کے اظہار نے ایسا جادو چلایا کہ میں ان کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس محبت اور تعلق میں دن گزرنے کے ساتھ کسی کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوتا چلاگیا، آخری ملاقات ٹھیک بقرعید کے دن  ۲۲؍اگست، ۲۰۱۸ کوعید الاضحی کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہوئی۔ تقریباً سارے نمازی گھروں کو واپس جاچکے تھے ، وہ اپنے خویش جناب سید ندیم احمد  کے ہمراہ منتظرتھے ، جیسے ہی میں پہنچا خفیف اور دل آویز تبسم کے ساتھ گلے ملے اورخلاف معمول دیرتک سینے سے لگائے رہے۔ اس دن  بہت سے لوگوں سے گلے ملنے کا موقع ملا لیکن 86سالہ اس نحیف ونزار بزرگ سے گلے ملنے میں جوسروراور طمانیت نصیب ہوئی وہ شاید کسی اور سے ملنے میں نہیں ہوئی۔ بقرعید سے صرف تین چاردن قبل اپنے صاحبزادے راشداحمد صاحب کے ہمراہ دفتر تشریف لائے ، کوئی آدھا گھنٹہ رہے ہوں گے، دفترکے ذمہ داران اور کارکنان سے ملنے کے بعد جانے لگے ، گیٹ تک چھوڑنے کا شرف مجھے بھی حاصل ہوا، نقاہت اور کمزوری کی وجہ سے ایک طرف راشدبھائی سہارادیتے ہوئے جارہے تھے تو دوسری طرف یہ سعادت مجھے نصیب ہورہی تھی۔ اس دوران چانک ایک نوجوان دوست فیصل جمال سامنے موبائل لیے آدھمکا۔ میں نے کہا ایک فوٹولے لو۔ بالآخرمرحوم کی یہ تصویر آخری تصویر ثابت ہوئی۔ اللہ کرے جنت میں بھی اسی طرح بغل گیر ہونے کا شرف حاصل ہو۔

نسیم احمد صاحب تحریکی وادبی حلقے میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ وہ تحریک اسلامی کے صف اول کے کارکنوں میں سے تھے، تحریک میں ان کا شمار’’سابقون الاولون‘‘  میں ہوتا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شاعروادیب مرحوم کلیم عاجز صاحب آپ کے اپنے بڑے بھائی تھے۔ آپ کے دوصاحبزادگان میں ایک ہندی کے تو دوسرے اردوکے معروف صحافی ہیں۔ خود مرحوم کا ادبی ذوق اورتحریر وتقریرکی صلاحیت غیر معمولی تھی۔ آزادی کا سورج طلوع ہورہا تھا، انگریزی حکومت کا سورج غروف ہورہاتھا کہ آپ ۱۹۳۲ء میں بہار کے مردم خیز علاقہ نالندہ کے معروف گاؤں تلہاڑہ میں پیدا ہوئے ، جواصلاً آپکی نانیہال ہے۔ ۱۹۴۶کے فساد میں یہ پورا گاؤں مکمل تباہ وبربادہوگیا، جس میں آپ کی والدہ ماجدہ اور ایک بہن سمیت خاندان کے کل ۲۳؍افرادشہید ہوگئے۔ گاؤں میں موجودسب لوگ شہید کردئے گئے، کوئی نہ بچا،  اس طرح تلہاڑہ آج سے ستر سال قبل ہی فسادیوں کی خون آشام تلواروں کی زد میں آکر سے اجڑ چکا تھا تاہم دوبھائیوں (مرحوم کلیم احمدعاجز اور مرحوم نسیم احمد) کے نوک قلم سے آج بھی تاریخ میں یہ بستی آباد ہے۔ تلہاڑہ سے محض ایک کوس کے فاصلے پرایک چھوٹا ساگاؤں ’’نرائچ‘‘ ہے جو آپ کی دادیہال ہے۔ مرحوم کے والدشیخ کفایت حسین صاحب اسی گاؤں کے باشندہ تھے، آپ کے دادا شیح بدرالدینؒ علاقے کے جانے مانے پہلوان تھے۔ آپ کے والد اور دادا ایک متوسط درجے کے کسان تھے۔ آپ کے والد مرحوم شیخ کفایت حسین نے معاشی تگ ودو کے لیے کلکتہ ہجرت کی اور ایک کامیاب تاجر کی حیثیت سے کاروبار کو خوب ترقی دی، اللہ نے بھی خوب خوب برکت عطاء کی۔

اس دنیائے فانی میں نسیم صاحب نے تلہاڑہ، پٹنہ ، بہارشریف کو اپنا جائے مسکن بنایا البتہ اہلیہ کے انتقال کے بعد زیادہ تر پٹنہ رہنے لگے تھے تاہم بہار شریف آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ، آخری دو تین سالوں میں مستقل پٹنہ رہنے لگے، بہارشریف ناگزیر ضرورت کے تحت ہی جاتے تھے اورجلد واپس آجاتے تھے، اس دوران جب تک ان کی صحت ساتھ دیتی رہی ہم مقامی جماعت کے ہفتہ وار اجتماعات میں حسب موقع درس قرآن کی ذمہ داری دے کر ان سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔ جب بھی نسیم صاحب سے درس قرآن سنا تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ کوئی فراہیؒ مکتبہ فکرکے عالم قرآن ہیں ، جس میں تدبر وتفکر کے ساتھ ساتھ نظم قرآن کا اہتمام، سیاق وسباق کاخیال، الفاظ اور معنی کی تحقیق سب موجودہے۔ فکرمودودیؒ  ان کی رگ رگ میں اس طر ح پیوست تھا کہ اللہ کی زمین پر ’’اللہ کی حاکمیت‘‘ کے علاوہ کسی اور کی حاکمیت تسلیم نہیں کی صدا ان کی ہر گفتگو وتقریر سے ہویدا تھی کہ ہمیں دعوت دین اور اقامت دین کو سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آتی ، وہ دعوت دین اور اقامت دین کافرق دواوردوچار کی طرح واضح کردیتے۔ ایک مرتبہ ’’سورہ الکافرون‘‘ کا درس دیتے ہوئے بولے ، دیکھئے یہ ہجر ت کے وقت کی سورہ ہے ، بس مکہ سے جاتے جاتے کافروں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ اب تمہارا دین تمہارے لیے ، میرا دین میرے لیے، دعوت کا کام مکمل ہو چکا ہے اور مدینہ پہنچتے ہی ’’اقامت دین‘‘ کا کام شروع ہوگیا، میثاق مدینہ ہوا نہیں کہ دین کی اقامت کا مرحلہ شروع گیا، جوکام مکہ میں ۱۳؍سال میں نہیں ہوسکا تھا، مدینہ میں ۱۰؍سال کے قلیل عرصہ میں پائے تکمیل کو پہنچ گیا۔ مرحوم اکثر کہتے تھے کہ اذان مکمل دعوت ہے ، اذان کے بعد جو دعاء پڑھی جاتی ہے ’’ اللھم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ‘‘اس پر غور نہیں کیا۔ ۱۱؍۱۲؍۱۳؍اپریل ۲۰۰۸ء کو آل بہار اجتماع ارکان جماعت اسلامی ہند ’’اونڈا ہاوس‘‘ پٹنہ میں منعقد ہوا۔ پروگرام کا آغاز نسیم صاحب کے درس قرآن سے ہوا، نسیم احمدصاحب نے سورہ حجرات کا درس دیا ، پورے تین دن کے پروگرام میں سب سے اچھا یہی درس قرآن کا پروگرام تھا، یہ کوئی مبالغہ نہیں اور نہ صرف میرا تاثرہے بلکہ اس اجتماع میں زبانی اور تحریری تاثرات میں دوسرے رفقاء نے بھی برملاا سی تاثر کا اظہار فرمایا تھا۔

 ایک سال ربیع الاول کے مہینے میں میں نے ’’سیرت البنی ﷺ‘‘‘ پر خطبہ جمعہ کا سلسلہ شروع کیا، مکی زندگی پر دو تین خطبے کے بعد بولے میں انتظار میں ہوں کہ آپ کب ’’قل رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مُخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیراً(سورہ بنی اسرائیل آیت 80)۔ کو اپنا موضوع بنائیں گے۔ بالاخر ہجرت کے ضمن میں اس آیت کریمہ کے حوالے سے ایک خطبہ دیا گیا اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ’’ہردین ایک اقتدار چاہتا ہے‘‘۔ بغیر اقتدار کے اس دین اور شریعت کے جزئیات اورکلیات کا نفاذ ناممکن ہے۔ اسے لیے آپ ﷺ نے ’’سلطان نصیر ‘‘ کی دعاء فرمائی اور مدینہ پہنچتے ہی اللہ تعالی ٰ نے ایک ریاست قائم کرکے آپ کی مدد فرمائی، اس طرح آپ  ﷺ کو من جانب اللہ سکھائی گئی یہ دعاء کہ پررودگار ، مجھ کو جہاں بھی تولے جا سچائی کہ ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال ، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے ‘‘ پوری ہوئی۔ نسیم صاحب خطبہ کے بعد بولے آج آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی، میری خواہش پوری ہوگئی۔ مرحوم ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ’’خدا کی اس دنیا میں کوئی بھی اصلاح بغیر سیاست کی اصلاح کے ممکن نہیں ہے ، اس لیے ہمیں کوئی نہ کوئی سیاسی لائحہ عمل تلاش کرناہی پڑے گاورنہ سوائے تضیع اوقات اور کچھ حاصل نہیں ہوگا‘‘۔

  ایسا نہیں ہے کہ نسیم احمد صاحب عام دانشوروں کی طرح سیاست میں اصلاح کی صرف خواہش رکھتے تھے بلکہ اس کے لیے عملاً کچھ کرنے کوبھی تیار رہتے تھے چنانچہ ویلفیر پارٹی آف انڈیا(WPI) کا قیام عمل میں آیاتو بہار میں بھی اس کی شاخ قائم کرنے کے لیے ذمہ داران کی کوششیں شروع ہوئیں ، اس کے لیے ممبر سازی اور فنڈفراہمی کے لیے رسیدات شائع ہوئے۔ ایک نشست میں پورے بہار سے منتخب لوگ شریک تھے ، نسیم صاحب کی بھی شرکت ہوئی ، نسیم صاحب نے آگے بڑھ کر اپنا نام درج کرایا کہ بہار شریف میں ہم کام کریں گے ، رسید بھی ساتھ لیکر گئے ، کچھ دنوں کے بعد پٹنہ لوٹے تو ایک رپورٹ اور رسید کی جلدجس میں کوئی 2500 یا 3500روپے تھے مجھے دے کرچلے گئے کہ یہ امیرحلقہ کے حوالے کردیجئے گا۔ میں باہر( غالباً ناگپور) جارہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اور کسی نے اتنی بھی کوشش کی ہو۔

 ابھی ایک سال قبل ملک کی صورتحال پردفترمیں کوئی پروگرام ہوا ، نسیم صاحب کو کیسے خبر ہوئی مجھے نہیں معلوم ، کچھ دنوں کے بعد ایک کاپی لے کر آئے اور مجھے ہدایت کی کہ اس میں میں نے اپنی باتیں لکھ دی ہیں ، جب دفتر میں امیرحلقہ اور دیگر اسٹاف رہیں تو اس کو پڑھ کر سنائیے گا، میں نے کاپی رکھ لی اور بھول گئے ابھی انتقال سے ایک ہفتہ پہلے کسی ضرورت کے تحت وہ کاپی مل گئی ، سوچا کہ اس ہدایت پر عمل کروں گاکہ اتنے میں انتقال کا وقت آگیا ، اب  میرے لیے یہ ہدایت وصیت کے درجے میں ہے ، انشاء اللہ اسے قابل اشاعت بنا کر دفتر ہی تک نہیں بلکہ عوام وخواص تک عام کروں گا۔

 نسیم احمد صاحب ایک صاحب طرز ادیب تھے ، ان کی زبان وبیان کی تعریف خود مرحوم کلیم عاجز صاحب کرچکے ہیں ، گرچہ ان کی صرف ایک تصنیف جوکہ انکی آپ بیتی ہے’’نسیم از بہار ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی لیکن باقاعدہ انہوں نے ایک کتاب’’سپتھ گرہن‘‘ کے نام سے تصنیف کی تھی جس میں انسان کی تخلیق کا مقصد بہت ہی اچھوتے انداز میں میں بیان کیا گیا ہے، یہ کیوں شائع نہیں ہوئی مجھے نہیں معلوم۔ اس کتاب کا مسودہ مرحوم نے مجھے دیکھنے کو دیا تھا جس کی ایک کاپی میرے پاس محفوظ ہے۔ جب ’نسیمے ازبہار ‘کی رسم اجرا ہورہی تھی، ایک دن قبل انہوں نے مجھے اطلاع دی ، بلکہ اس تقریب رسم اجراء میں شریک ہونے کوکہا، میں نے دعوت قبول کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے اطلاع مل چکی ہے ، بلکہ رات خواب میں دیکھا کہ آپ کی کتاب کی رسم اجراء ہوئی، اس طرح اب خواب سے متعلق باتیں چل پڑیں ، کئی خوابوں کا تذکرہ انہوں نے بھی کیا اور ہم نے بھی بتایا تو انہوں نے اس نشست میں بتایا کہ میرا آئندہ ارادہ ہے کہ’’خواب ‘‘ کے موضوع پر ایک کتاب لکھوں۔ خیر اب تو نسیم صاحب خود ہی خواب ہوگئے ، انشاء اللہ خواب میں ہی پوچھوں گا کہ کیا ہوا ’’خواب ‘‘ پر آپ کی کتاب کب منظر عام پرآئے گی؟۔

مرحوم باقاعدہ جماعت اسلامی ہند بہار شریف یونٹ کے رکن تھے لیکن زیادہ ترپٹنہ میں رہنے لگے تھے، میں نے کہا کہ اپنا نام پٹنہ کی جماعت میں منتقل کروا لیجئے، بولے نہیں میرانام وہیں رہنے دیجئے ، وہاں ارکان کی تعداد کم ہے، ہم گاہے بگاہے جاتے رہتے ہیں ، ماہانہ اعانت اوردیگر عطیات وہیں جمع کرتے ہیں کیوں کہ وہاں بیت المال کمزور ہے۔ اطاعت امر کا حال یہ تھا کہ جب پٹنہ سے کہیں جاتے خواہ بہار شریف ہی کیوں نہ ہو، ضروراطلاع کرتے، اسی طرح ناگپوربڑے صاحبزادے کے یہاں جاتے یا پھر دھنباد بیٹی کے یہاں تووہاں سے فون کرتے ، ایک مرتبہ دھنباد یاناگپور سے خط لکھ کر ارسال کیا اورفون کرکے بتایا آپ کے نام خط بھیجا ہے۔ افسوس کہ وہ خط محفوظ نہیں ہے۔

 نسیم احمد صاحب کے ساتھ جماعت اسلامی کاتذکرہ کئے بغیر ان کی کتاب زندگی ناقص اورادھوری مانی جائے گی ، کیوں کہ 86سالہ زندگی میں صرف ۱۵؍سال ہی غیر جماعتی زندگی گذری ہے، اس میں بھی ابتداً ۸سال تک جماعت ہی وجود میں نہیں آئی تھی، بقیہ سات سال کا عرصہ جماعت کو نسیم صاحب تک اور نسیم صاحب کوجماعت تک پہنچنے میں گذرا۔ ۱۶؍سال کی عمر میں جماعت سے جو وابستگی ہوئی وہ تا حیات قائم رہی، اس دوران بے شمار نشیب وفراز سے خود نسیم صاحب گذرے اور جماعت بھی گذری ، حتی کہ ایمرجنسی کے زمانے میں پابند سلاسل بھی رہے، جماعت سے تعلق اور جوش وجنون کا عالم یہ تھا کہ ۱۶؍سال کی عمر میں تن تنہا، بے سروسانی کے عالم میں بانیٔ جماعت سید مودودیؒ سے ملاقات کے شوق میں پٹنہ سے لاہور تک کا سفرنہایت ہی پرفتن ماحول میں جان ہتھیلی پرلے کر کیا، گرچہ مولانا مودودیؒ سے ملے بغیر واپس آئے، لیکن جماعت سے تعلق میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، مرحوم کا شمار بہار کی جماعت میں بانیان میں نہ سہی لیکن قرون اولیٰ کے اکابرین اور سابقون الاولون میں ضرور ہوتا ہے ، گرچہ ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ رحمۃ اللہ کے مقام تک نہیں پہنچے لیکن ڈاکٹر صاحب کے ثانی اثنین ضرورتھے ، ڈاکٹر صاحب کو اپنا استاذ اور مربی تسلیم کرتے تھے، لیکن فکری ونظریاتی طور پر اپنے آپ میں صاحب الرائے تھے، ڈاکٹر صاحب موجودہ جمہوری نظام میں ووٹ ڈالنے ، الیکشن میں حصہ لینے اور الیکشنی سیاست کے سخت خلاف تھے ، نسیم صاحب سیاست میں اصلاح سیاسی نظام میں شامل ہوکر کرنے کے پرزور حامی تھے۔

  نسیم صاحب نے اپنے مربی ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ صاحب کی ایماء پر رکنیت کی درخواست ۱۹۵۰ء میں دی تھی، پانچ یا چھ سال بعد۵۶۔ ۱۹۵۵ء میں منظور ہوئی ، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ صاحب مرحوم کسی نوجوان کی درخواست رکنیت کی سفارش شادی سے پہلے نہیں کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ اکثر نوجوانوں میں شادی کے بعد تبدیلی آجاتی ہے، اگر کسی نے شادی کا دھکا برداشت کرلیا تو گویا وہ ایک بڑی آزمائش سے صحیح سلامت گذر گیا اوراس پر اب اعتبار کیاجاسکتا ہے، اس دوران مطلق رکن جماعت ہی نہیں بلکہ بہار کی جماعت میں ڈاکٹر ضیاء الہدیٰؒ کے دور امارت میں معاون امیر حلقہ رہے ، حلقہ کی مجلس شوریٰ کے ممبر کے علاوہ مرکزی مجلس نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے اوراپنے مقام پر امارت مقامی کی ذمہ داری  بھی اداکرتے رہے۔ اس دوران نہ جانے کتنے بگڑے ہوئے لوگوں کوسیدھا راستہ دکھایا، بہتوں کو تزکیہ وتربیت سے گذارکراقامت دین کا سرگرم کارکن بنایا، آج بھی مرحوم سے استفادہ کنندگان کی ایک متعدد بہ تعداد جماعت میں موجود ہے۔

جماعت نے نسیم صاحب کوایمان اور اسلام کے اوج ثریاتک پہنچایاجس کا اعتراف خود مرحوم نے یوں کیا ہے کہ ’’اپنی جہالت کی وجہ سے میں 1946سے پہلے دہریت کے کنارے تک پہنچ گیا تھا، ۔ ۔ ۔ نعوذباللہ سائنس کی مذہب پربرتری ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ دل کی اندھیرکوٹھری میں روشنی کا پہلا دیا حکیم امت (علامہ اقبال) کے کلام نے روشن کیا۔ 1946میں ’’قرآن کے علم‘‘ سے آشنا ہوا، اب تک میں اس علم سے قطعی نابلدتھا۔ اس علم سے روشنا س کرانے کا احسان ہم پر مولانا مودودیؒ کا ہے ، اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس معاملے میں وہ میرے ویسے ہی معنوی پیر ہیں جیسے مولانا رومؒ علامہ اقبالؒ کے پیر تھے ‘‘۔ (نسیمے ازبہار ، ص88کے اقتباسات)

 دوسال قبل رمضان میں مرحوم پٹنہ میں تھے، غالباًپورا ایک ختم قرآن انہوں نے تراویح میں سنا، ختم قرآن کی شب اچانک میری نظر ان پر پڑی میں نے تذکیر اور دعاء کے لیے ان کو آواز دی، ایک ہی دعوت پر آبھی گئے ، کرسی پر بیٹھے اور تقریر شروع کی حمد وثناء کے بعدبولے کہ ہم جس زمانے کے آدمی ہیں اس زمانے میں امیرکی بات نہیں کاٹی جاتی تھی اس لیے اطاعت امر میں یہاں حاضرہوگیا ہوں۔ ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴؍دسمبر۲۰۱۵ء کوحیدرآباد میں آل انڈیا اجتماع ارکان منعقد ہوا، اس وقت بھی وہ بہت کمزور اورضعیف تھے ، بغیر سہارے کے نہیں چل سکتے تھے ، وہ بھی گھر سے اتنی دور ، بھیڑبھاڑوالی جگہ، جہاں پورے ملک سے کم ازکم دس ہزار ارکان جماعت جمع تھے ، پٹنہ سے ہم لوگوں کے ہمراہ حیدرآباد گئے، چاہتے تو معذرت کرلیتے ، عذر بالکل معقول تھا، ہم لوگوں کی بھی خواہش تھی کہ نہ جائیں ، ٹکٹ بننے کے بعد بھی ہم نے کئی مرتبہ گفتگو کرکے ارادہ کو متزلزل کرنا چاہا ، لیکن کہیں سے ارادہ اور عزم میں کوئی کمی نہیں آئی، میری نظرمیں دس ہزار کے اس اجتماع میں سب سے زیادہ ضعیف اور کمزور نسیم صاحب ہی تھے ، لیکن نوجوانوں سے بھی زیادہ میں نے انہیں پُر عزم اور بلند حوصلہ پایا۔

ایک مرتبہ تین ہمدرد ان جماعت پر مشتمل ایک وفد ان کے پاس آیا اور جماعت سے متعلق کچھ شکایت کی ، نسیم صاحب نے ان کی شکایت سنی یا نہیں ، یہ تو نہیں معلوم ، البتہ مجھے بلایا اور کہا کہ فلاں فلاں لوگ آئے تھے ، یہ لوگ آپ کے پاس جائیں گے، ان کی باتیں سنیے گا، ہم نے بہت اصرارکیا کہ کیا شکایت تھی، بولے وہ لوگ آپ کے پاس جائیں گے، ہم نے ان لوگوں کو کہاہے کہ ہمیں کوئی بات کہنی ہوتی ہے کہ تو امیرمقامی سے ہی کہتے ہیں ، آپ لوگ امیر مقامی کے پاس جائیے۔ آج تک نہ یہ لوگ آئے اور نہ ہی یہ شکایتیں ہم تک پہنچیں۔

 مرحوم کے لڑکپن ، جوانی اور مابعد جوانی کی زندگی کیا تھی ، کیسی گذری یہ تو ان کی آپ بیتی میں ہم دیکھ سکتے ہیں ، لیکن اس دس بارہ سالہ عرصہ میں ہم نے انہیں حددرجہ سادہ ومنکسر المزاج اورتکلف وتصنع سے پاک ایسا پایا جیساکہ حدیث میں کہاگیا ہے کہ مومن بھولا بھالا ہوتا ہے۔ ایک دن وہ اپنے ہم عصر ایک ریٹائرڈ پروفیسر سے ہم کلام تھے ، میں ان دونوں کے درمیان موجود تھا ، خوش گپی بھی ہورہی تھی اور کچھ سنجیدہ باتیں بھی، اسی دوران پروفیسرصاحب نے کہا نسیم صاحب کہیں زمین وغیرہ لیاہے ؟نہیں لیا ہے تو لے لیجئے ، نسیم صاحب نے جواب دیا اب مجھے کیا ضرورت۔ پروفیسر صاحب بولے بچوں کے لیے کچھ کرجائیے، نسیم صاحب نے پورے اطمینان سے جواب دیا مجھے جو کچھ کرنا تھا وہ میں کرچکا۔ شاید پروفیسرصاحب کومعلوم نہیں کہ مرحوم نے تعلیم کیوں ترک کی، پروفیسر یالکچرر کیوں نہیں بنے جس کا پوراپورا امکان تھا، پٹنہ میں اسٹبلیشڈ کاروبار کیوں سمیٹ دیا، جمشیدپورکے ادارے کی نوکری کیوں ترک کردی۔ اگر ان سوالوں کا جواب معلوم ہوجاتا تویہ سوال کرنے کی نوبت نہیں آتی۔

 مرحوم زندگی کے آخری چندسالوں میں دفترجماعت سے قریب اپنے منجھلے صاحبزادے راشداحمد صاحب کے ساتھ رہتے تھے ، اس دوران جب طبیعت ٹھیک رہتی یا راشد بھائی کو چھٹی ہوتی تو پابندی سے دفترآتے ، اس دوران کچھ دنوں تک تو ان کا معمول یہ بن گیا تھا کہ بیٹا کے ساتھ صبح ۱۱؍بجے دفتر آتے اور عصر کی نماز ادا کرکے واپس جاتے، ظہر کے بعد یہیں آرام کرتے، نمازظہر کے بعد میں ان کے ساتھ اکثر بیٹھ جاتا ، گفتگو ہوتی ، ظہرانے کی دعوت دیتے تو کہتے ابھی ۱۱؍بجے ناشتہ کیا ہے، خواہش نہیں ہوتی، دو چار دن میرے اصرار کرنے پر میری رہائش گاہ چوتھی منزل تک بہ دقت ہزار پہنچے ، جودا ل روٹی میسرتھی اسے شوق سے کھایا، کبھی تکلف یا تصنع سے کام نہیں لیا  اوریہ نہیں کہا  چوتھی منزل تک چڑھنا اور اترنا میرے لیے مشکل ہے۔

 مرحوم کے انتقال سے میرا ذاتی اورجماعتی دونوں نقصان ہوا ہے ، جس کی تلافی نا ممکن ہے ، جب وہ پٹنہ میں رہتے تو نماز جمعہ کے لیے مسجد مرکز اسلامی میں آتے ، جب مجھے مسجد میں نہیں پاتے تو پوچھتے کہاں گئے تھے ؟، جب میں موجود ہوتا اور کسی اور سے خطبہ دلواتا تو تنبیہ فرماتے ، جس سے گارجین شپ کا احساس ہوتا ، بعد میں بسا اوقات بغیر ملے ہی میں مسجد سے چلا جاتا کہ ابھی باز پرس ہوگئی کہ تم نے خطبہ کیوں نہیں دیا، کیا جواب دوں گا، اس سے بہتر ہے کہ نظر بچا کر نکل جاؤں ، اب کون پوچھے گا؟کون ٹوکے گا؟جاتے جاتے اپنے صاحبزادے راشدصاحب کو مسجدکا پابندیعنی فجر کی نماز تک کا عادی بنا کرگئے اور دفتر جماعت جو مرحوم کی زندگی کا لازمی حصہ تھا کسی حد تک اس کے بھی پابند بناکر گئے، جب بڑے صاحبزادے شاہد صاحب پٹنہ آتے تو پابندی سے پانچوں وقت کی نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرتے، ادھر رمضان کے بعدراشد بھائی فجر کی نماز میں پابندی سے مسجد آتے ہیں ، نماز سے فراغت کے بعد چلتے چلتے میری زبان  سے یہ جملہ بے ساختہ نکل جاتا تھا کہ والد صاحب کیسے ہیں ؟، جواب ملتا تھا کہ ہاں ابّا ٹھیک ہیں۔ اب جب نماز کے بعد راشدبھائی کو دیکھتا ہوں تو مرحوم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ الغرض میں نے اپنے ایک مخلص رفیق، فکری رہنماء، حددرجہ محبت کرنے والے اپنے محسن ومربی کو کھودیا ہے۔ مرحوم کے پسماندگان میں دوصاحبزادیاں اور تین صاحب زادے ہیں ، سب سے چھوٹے صاحبزادے حامد احمدصاحب ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہیں ، نسیم صاحب جہاں  بھی جاتے ان کو اپنے ساتھ لے جاتے ، اب معذوربھائی کی دیکھ ریکھ اور کفالت کی پوری ذمہ داری دیگر چاربھائی بہنوں پر ہے۔

 مرحوم کے رفیق کاراور جماعت اسلامی ہند بہار کے سابق امیرحلقہ جناب قمرالہدیٰ نے دوسرے دن ۱۰؍ستمبر۲۰۱۸ء کو جنازے کی نماز پڑھائی، جنازے میں مسلمانوں کا ایک بڑا مجمع شریک تھا، شاہ گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ اللہ مرحوم کی مغرفت فرمائے اور جنت میں ہم سب کو ان کی رفاقت نصیب کرے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔