مسلم قائدین کی اناپرستی مسلمانوں کے زوال کی ذمہ دار

احساس نایاب

آج انانیت کی ایسی دھوم مچی ہے کہ

ہر اینٹ سوچتی ہے دیوار اُسی سے ہے

دنیا میں مسلمانوں کی مثال تسبیح کے دانوں کی سی ہے، جب ان دانوں کو ایک ڈور میں پرویا جاتا ہے تو یہ موتیوں کی مالا بن جاتی ہے اگر اس مالا کو اللہ کے ذکر کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ تسبیح کہلاتی ہے جس سے یہ نایاب ہوجاتی ہے کیونکہ دانوں سے بندھی یہ ڈور اب عقیدت کا مقام حاصل کرلیتی ہے، کوئی اسکو ادب و احترام سے اپنی آنکھوں سے لگاتا ہے تو کوئی چوم کر  محبت ظاہر کرتا ہے اور یہ عبادت کا حصہ بن جاتی ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آتاہے۔ اگر وہی تسبیح کے دانے ٹوٹ کر بکھر جائیں تو یہ بےمول ہوجاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم مسلمان بھی ہیں، تسبیح میں پروئے ہوئے دانوں کی مانند، بھلے ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں لیکن ایک دوسرے سے ایمان کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں اور یہی ڈور ہے جو ہمارے وجود کی پہچان ہے، ہماری طاقت اور کامیابی کا راز ہے۔ جب تک ہم مسلمان ایک ہیں، ہماری سوچ ہمارے اعمال نیک ہیں اور ہم ایک دوسرے کی طاقت بن کر کام کریں گےاُس وقت تک ہمیں دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی، نہ ہی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہم ناکام کہلائینگے اور نہ ہی ہمارا شمار مظلوموں میں کیا جائیگا۔

لیکن افسوس آج ہمارے ایمان کی ڈور اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ہم تنکوں کی طرح فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، مسلکوں میں الجھ کر اپنی حقیقی پہچان کھو چکے ہیں،آج ہم تسبیح کو تو بڑے ہی ادب و احترام سے اپنی آنکھوں سے لگاکر رکھتے ہیں لیکن خود اس قدر بکھر چکے ہیں کہ دشمن ہمیں اپنے پیروں تلے روندرہا ہے اور ہماری اوقات زمین پہ رینگنے والے حقیر کیڑے سے بدتر ہوگئی ہے اور ہم ذلت و رسوائی بھری زندگی گذارنے پہ مجبور ہوچکے ہیں۔ اپنے ماتھے پہ دہشت گردی جیسے جھوٹے الزامات لگائے گھوم رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہم جگہ جگہ ستائے، ڈرائے اورمارے جارہے ہیں،ماب لنچنگ جیسے وحشیانہ مظالم کے شکارہورہے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان سب کی وجہ دوسروں سے زیادہ ہم خود ہیں کیونکہ آج ہم میں اتحاد نہیں رہا، ایمانداری، تقویٰ و پرہیزگاری، قوم کی خاطر جان و مال قربان کرنے والا جذبہ نہیں رہا، نہ ہی ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے عزت و احترام باقی رہا۔ خود کو تو ہم دیندار، مومن اور مسلمان کہتے نہیں تھکتے، لیکن آج ہماری نیتوں میں کھوٹ آچکا ہے،انانیت کے چلتے ہم اتنے بزدل، مفاد پرست اور لالچی بن چکے ہیں کہ دین سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں، باوجود اسکے ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے ابلیس کی طرح اپنی ضد پہ اڑے ہوئے ہیں اور خود کو سر بلند رکھنے کے چکرمیں اپنے  ہرالٹے سیدھے فیصلوں کو صحیح ثابت کرکے اپنی فضول باتوں کوقوم وملت پرزبردستی تھوپنے اوراپنوں کو ہی بار بار نیچا دکھانے کے چکر میں خود گھن چکر بنتے جارہے ہیں۔ آج ہم میں نہ رشتوں کی پرواہ رہی، نہ ہی سچے مسلمان ہونے کی خوبیاں بچی ہیں، کیونکہ مومن مسلمان تو وہ ہے جو ایک بارایک بل سے ڈسے جانے کے بعد دوبارہ کسی کو ڈسنے کا موقعہ نہیں دیتا۔ بھلے ہم اپنے اندر جس قدر بھی ہمدردی کا جذبہ رکھیں، دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کی صفت کے مالک ہوں پھر بھی ہماری سمجھ بوجھ جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے وہ اور ہمارا اسلام ہمیں اسکی اجازت نہیں دیتا کہ ہم بیوقوف بنکر بار بار ڈسے جائیں۔ ادنیٰ سے دشمن کے شکار بنتے جائیں، لیکن لعنت ہے ہماری عقل پہ کہ ہم بار بار ڈسے جارہے ہیں،سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی دشمن کی سازشوں کا شکار بنتے جا رہے ہیں اور یہ کسی بھی باشعور انسان اورمومن ومسلمان بندے کی علامت نہیں ہے۔شاید آج ہم میں وہ شعور ہی نہیں رہا اسلئے آج ہماری گردن پہ دشمن تلوار تانے کھڑا ہے اور ہم اُس کے بازو کاٹنے یا خود کو اس خطرے سے بچانے کی بجائے اپنے ہی مسلم بھائیوں کے گریبان پکڑے ہوئے ہیں۔ ناجانے ہماری عقل، ہماری سوچ وفکر پہ یہ کونسی غفلت سوار ہے جو آنکھ اورکان جیسی عظیم نعمت رہتے ہوئے بھی موجودہ حالات سے خود کو اس قدر غافل دکھارہے ہیں کہ مانو ہمیں سانپ سونگھ چکا ہو، جبکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر اپنے دیندار اورحق پرست بھائیوں کے لئے ہماری زبانیں تیز دھاری تلوار اور لہجے نوکیلے تیر بن جاتے ہیں، تو آخر کیوں ہم اسکےبرعکس فرقہ پرست طاقتوں کے درمیان پالتو جانور بنکر رال ٹپکانے لگتے ہیں ؟

یہ تو ہندوستان کے ہر گوشے کا حال ہے،کہیں اناپرستی کی لڑائی ہے تو کہیں اپنوں کی منافقت قوم کونقصان پہونچارہی ہے اور کہیںمٹھی بھرافراد کی مفادپرستی، پیسے،عہدے اورترقی کی لالچ تو کہیں ذات پات، فرقہ بندی اور مسلک کو لیکر اختلافات ہماری قوم کواورہماری قومی شناخت کوکمزورکرنے کاکام کررہی ہے۔ اور ہماری قوم کی یہی وہ تمام بنیادی خامیاں ہیں جو ہمارے مستقبل کو تاریک بنارہی ہیں۔ ہم میںروزبروز جنم لینے والی اناپرستی نے ہمارے حقیقی وجود کو مٹاکر رکھ دیا ہے جسکی وجہ سے ہماری قوم اور ہماری سیاسی طاقت دونوں خطرے میں ہے۔ آج ہم میں نہ تو کوئی قابل، باصلاحیت قائد موجود ہے، نہ ہماری صحیح رہنمائی کے لئے مخلص رہنماء نظرآتے ہیں، بس ہر ایک کو اپنی اپنی انا پرستی، فرقہ بندی اور مسلک کی پڑی ہے اور قوم میںقابل اورباصلاحیت افراد کی موجودگی کے باوجود ہماری قوم لاوارث نظر آرہی ہے، کیونکہ ہم نے اپنی ناسمجھی،نادانی اور اناپرستی کی وجہ سے اپنے ہی ہاتھوں اپنے محبوب وطن کو تھالی میں سجاکر فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے اور ہم خود بنا ریڑھ کی ہڈی والے جاندار کی طرح رینگتے ہوئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کرمظلوموں کی طرح زندگی گذارنے پرمجبورہیں اور اپنے ملک کی قسمت لکھنے کے لئے ایک تاناشاہ کومقرردیا ہے اور خود بارود کے ڈھیر پہ بیٹھے ہوئے ہیں۔

یاد رہے جب تک ہم اتحاد کا مظاہرہ نہیں کریں گے،متحدہوکر اپنی طاقت نہیں دکھائیں گے، تسبیح کے دانوں کی طرح خودکوایک لڑی میں نہیں پروئیں گے اُس وقت تک ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا اور انہیں حالات کے پیش نظر آج ہمیں علامہ اقبال کا وہ شعر یاد آرہا ہے  ؎

منفعت ایک ہے اس قوم کانقصان بھی ایک 

 ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللہ بھی،قرآن بھی ایک 

  کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔