جنتی نزہت

کچن میں جھاڑو دے کر ابھی وہ چائے بنارہی تھی کہ امی جان کی آنکھ کھل گئی ۔ ’’نزہت آخر تو اتنے سویرے کیوں جاگ جاتی ہے کتنی بار کہا نیندپوری نہیں ہوگی تو بیمار ہوجائے گی مگر مانتی کہاں ہے‘‘ ۔ ’’ارے امی! میں دس بجے سوئی تھی اور پانچ بجے اٹھی ہوں سات گھنٹہ کی نیند تو بہت ہوتی ہے ۔ سونا تو آپ کو چاہئے۔ بارہ بجے سوئی تھیں منے نے رات میں کئی بار جگایا اور اتنے سویرے پھر اُٹھ گئیں‘‘۔ میں تو اس لئے اٹھی تھی کہ کچھ کام میں کردو ں تاکہ آپ کو کچھ آرا م ملے مگر آپ یہ کہاں پسند کرتی ہیں ‘‘۔ نزہت کی بات سن کر امی نے اس کی پیشانی چوم لی’’بیٹی اللہ تجھے ہر پریشانی سے بچائے کتنا میرا خیال رکھتی ہو‘‘۔
نزہت کی عمر تو یہی کوئی بارہ تیرہ سال ہی ہے مگر اپنی سمجھ داری ، اخلاق اور خدمت کی بدولت وہ پورے گھر کی آنکھ کی تارا ہے ۔ اخلاقیا ت کوئز مقابلے میں اس نے ماں باپ کے حقوق کے تعلق سے بہت سی حدیثیں سنیں تب سے اس کی کوشش ہے کہ وہ ان کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے جنت میں اپنی جگہ یقینی بنالے۔ اگر اس کا بس چلتا تو وہ امی کو ایک کام بھی نہ کرنے دیتی مگر اس کی امی کہتی ہیں ابھی تم چھوٹی ہو محنت سے پڑھو لکھو۔ بڑی ہوکر خوب خدمت کرنا۔ ایک دن امی نے دیکھا کہ نزہت بار باران کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ ایک بار تو ان کا ہاتھ چوم لیا۔ بلاوجہ ان کے چاروں طرف منڈلارہی ہے۔ جب امی سے رہا نہیں گیا تو انہوں نے پوچھا ۔ نزہت آخر کیا بات ہے ؟آج اتنی محبت کیوں دکھائی جارہی ہے؟ کچھ چاہئے کیا؟ نزہت ان کی بات سن کر شرماگئی کہنے لگی۔ ’’امی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ آج مولانا نے دینیات پڑھاتے ہوئے ایک حدیث سنائی میں اس پر عمل کررہی ہوں۔ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا’’ ماں باپ کی طرف محبت کی نگاہ ڈالنے سے حج مبرور کا ثواب ملتا ہے ‘‘ میں نے سوچا اب تو میں ہمیشہ حج مبرور کا ثواب حاصل کرتی رہوں گی ۔
پہلے وہ ہاف آستین کے جمپر پہنتی تھی مگر جب اس نے پڑھا کہ لڑکی جب بڑی ہو جائے تو چہرے اور ہتھیلی کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہئے ۔ تواس نے اپنے تمام کپڑوں میں فل آستین لگوائی اس کے بعد کسی نے اس کو ہاف آستین کا کپڑا پہنتے ہوئے نہیں دیکھا۔
تعلیم میں اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تقریر بھی بہت اچھی کرلیتی ہے۔ اللہ نے اُسے بڑی پیاری آواز بھی دی ہے ۔ حمد، نعت اور نظمیں وہ اتنے اچھے انداز میں پڑھتی ہے کہ بالکل سناٹا چھا جاتا ہے ۔ پچھلے سال اسکول میں گیدرنگ تھی۔ فلم تاج محل کے ایک گانے پر لڑکیوں کو ڈانس کرنا تھا۔ میڈم نے چاہا کہ نزہت اس میں حصہ لے مگر اس نے صاف انکار کردیا۔ افتخارسر اس کے ابو سے ملے اور کہا کہ آپ نزہت سے حصہ لینے کے لئے کہئے اول انعام وہ ضرور حاصل کرے گی۔ ابو نے اسے بلایا اور افتخار سر کی بات اس کے سامنے رکھی اور بولے ’’بیٹی حصہ لے لو استاد کی بات مانی جاتی ہے ‘‘۔ مگر نزہت کا جواب تھا ’’ابو گناہ کے کام میں کسی کی بات نہیں مانی جاتی ،چاہے ماں باپ ہوں یا استاد ، اطاعت تو صرف اچھے کام میں کی جاتی ہے۔ ناچ اور گانا شریف لڑکیوں کا کام نہیں ہے ‘‘۔
نزہت نے اپنی زندگی کا ایک مقصد بنالیا ہے اور وہ مقصد ہے زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرکے جنت حاصل کرنا۔ ابھی سے وہ ہر برائی سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ جھوٹ ، چغلی ، طعنہ وغیرہ سے اسے سخت نفرت ہے۔ اچھی اچھی کتابیں پڑھنا۔ ماں باپ کی خدمت ، بھائی بہنوں سے پیار و محبت ، استادوں کا ادب و احترام ہر ایک کے کام آنا اس کے پسندیدہ کام ہیں۔ اسی کی کوششوں سے ابو ،امی، بھیا اور پڑوس کے نوشاد چچا سب نماز پڑھنے لگے ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ خود بھی جنت میں جائے اور تمام لوگوں کو بھی جنت میں لے جائے۔ تم میں سے کون نزہت جیسا بننے کی کوشش کرے گا؟

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔