جنید جمشید

سہیل بشیر کار

7 دسمبر 2016ء بعد نماز مغرب جوں ہی میں نے ٹیلی ویڑن پر جیو نیوز ٹیون کی تو یہ خبر نشر ہو رہی تھی کہ پاکستان میں پی آئی اے کا ایک جہاز ہوائی حادثے کا شکار ہو گیا ہے، جس میں 74 مسافر سوار تھے۔ سبھی مسافر موقع پر جاں بحق ہوئے۔ مسافروں میں عالم اسلام کے مشہور و معروف داعی اور نعت گو جنیدجمشید بھی تھے۔ خبر سن کر کچھ دیر کے لیے میں سکتے میں آگیا۔ ایسا لگا جیسے کسی عزیز کا انتقال ہوا ہو۔ یقیناً جنید میرا ہی نہیں بلکہ سب کا عزیز تھا، بلکہ عزیزِ جہاں تھا۔جنید جمشید نے ہزاروں لوگوں کو ذلالت سے نکال کر روشنی کی راہ پر لگادیا۔ اپنی نعت خوانی سے ہزاروں دلوں میں عظمت رسول? کو سرشار کیا اور لوگوں کو اللہ کے ساتھ جوڑنے کے لیے خود کو ہمہ تن وقف کردیا۔

راقم کو موسیقی، نعت گوئی یا ترانوں سے کبھی دلچسپی نہ رہی ہے۔ ایام اطفال سے ہی طبیعت کا میلان کبھی اس طرف نہ رہا۔ اپنے ایک قریبی دوست اور عزیز ظہور صاحب کے ہمراہ اکثر دعوت و تبلیغ اور سماجی خدمات کے سلسلے میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ ظہور صاحب کی گاڑی میں اکثر تلاوت قرآن کے علاوہ نعت اور ترانے چلتے تھے۔ ایک دن ایک آواز نے بہت زیادہ متاثر کیا۔ دل سے آواز نکل کر دل کو چھورہی تھی۔ عزیزی سے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ پر ترنم آواز جنید جمشیدکی ہے۔ پہلے پاپ سنگر تھے، پھر رب کریم نے دل بدل دیا، اب لوگوں کے دل بدلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد شاذ ہی میں نے اپنے دوست سے سفر کے دوران فرمائش نہ کی ہو کہ جنید جمشید کا گایا ہوا پیر ذوالفقار نقشبندی کا کلام ’’میرا دل بدل دے‘‘ سنائے اور شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو جب میری آنکھوں نے آنسو نہ بہائے ہوں۔ ہر بار یہ محسوس ہوا کہ ان کے نشید سے رب العزت کی قربت نصیب ہوتی ہے۔

جنیدجمشید ۳ دسمبر1946 کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انجینئرنگ میں گریجویشن کرنے کے بعد پاکستان ایئرفورس میں بطور انجینئر کام بھی کیا۔ چونکہ رب العزت نے خوبصورت شکل کے ساتھ ساتھ خوبصورت آواز بھی دی تھی، اس لیے 1984 میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھتے ہی بہت جلدخوب نام کمایا۔ 1987 میں جب ان کا البم ’’دل دل پاکستان‘‘ منظرعام پر آیا تو اس نے دھوم مچادی۔جنیدجمشید ہر دلعزیز بن گئے۔ شہرت، دولت اور شوبزکی رنگینیوں کو اپنے عروج پر دیکھا لیکن اس کے باوجود، ہمیشہ ایک چیز کی کمی محسوس کی، جو ہر سلیم الطبع شخص محسوس کرتا ہے، یعنی دل کا سکون۔

رب کاچاہنا تھا، فطرت سلیم تھی، اللہ نے عالم اسلام کے عظیم داعی اور مبلغ مولانا طارق جمیل کے دَر پر پہنچایا۔ مولانا کو ہیرا تراشنے کا ہنرخوب آتا ہے۔ جنید نے مولانا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے دنیاکی ہر سہولت ملنے کے باوجود مجھے سکون نہیں مل رہا؟۔ مولانا نے مرض کی تشخیص کرتے ہوئے کہا کہ انسان مادّی ضروریات سے زیادہ روحانی ضروریات حاصل کرنا چاہتا ہے جو کہ ناممکن ہے۔ چونکہ سکون کا تعلق روح سے ہے اور اس کے لیے اپنے روح کو تسکین دینی ہوگی۔ روح کو تسکین اللہ کے قرب سے حاصل ہوتی ہے۔ مولانا کو اللہ نے نبوی مزاج عطا کیا ہے۔ انہوں نے جنید کے ساتھ تعلق بڑھایا اور انہیں دعوتی اور تبلیغی کاموں میں لگادیا۔ مولانا نے کبھی نہ کہا کہ گانا گاناچھوڑ دو۔ وہ جانتے ہیں ہتھوڑا کب اورکہاں مارنا ہے؟

خیر، 2004میں جنید جمشید نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ آج سے نہیں گائیں گے۔ جنیدکے اس اعلان سے سیکولر حلقے نے تنقید کرنی شروع کردی کہ جنید بنیاد پرست بن گیا۔ اللہ کے اس بندے نے کسی کو کوئی جواب نہ دیا۔ انہیں قرآن کی اس صفت کاحامل بننا تھا کہ ’’وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہیں کرتے‘‘۔

جنید جمشید نے دعوت و تبلیغ اور لوگوں کے دل بدلنے کا کام جاری رکھا۔ انہیں اللہ نے سلیم الفطرت بنایا تھا۔جب جنید موسیقی کے گلیمر میں تھے، اس وقت بھی ان کے دل میں دین کے تئیں جذبہ موجود تھا، جس کاثبوت یہ ہے کہ جب ذاکرعلی اور طاہرخان کے کہنے پر انہوں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ اپنی آوازمیں ریکارڈ کروایا اور اس کارِ خیر کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا۔ موسیقی چھوڑنے کے بعد اللہ نے اس بندے پر سخت آزمائش بھی ڈالی۔ بقول مولاناطارق جمیل ایک دن جنید مجھے فون کرتا ہے کہ میرے پاس ماں کی دوائی کے لیے پیسے نہیں ، دوسری طرف ایک کمپنی ایک البم کے لیے مجھے کروڑوں کی پیشکش کررہی ہے لیکن میں نے ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد جنید نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ جنید جانتے تھے کہ دین انسان کو بھکاری نہیں بناتا بلکہ دین چاہتا ہے کہ انسان دینے والا بن جائے نہ کہ لینے والا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر جنید نے ایک فیشن شو روم کھولا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے کاروبار میں برکت ڈال دی اور جلد ہی پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اس کی شاخیں کھل گئیں۔ J. (جے ڈاٹ) کے نام سے جنید کو اللہ نے خوب برکت دی۔

مولانا طارق جمیل کہتے تھے کہ ہرسال وہ 300 افراد کو حج پر لے جاتے، ان کی ضروریات پوری کرتے۔ جنید جمشید بہت زیادہ نفاست پسند تھے۔ وہ جاتنے تھے کہ اللہ جمیل ہے، وہ جمال کو پسندکرتا ہے۔ جنید کی وجہ سے مذہب کے اس تصوّر پر چوٹ پڑی جس میں انسان جمیل نظر نہ آئے۔ جنیدکی وجہ سے بہت سے نوجوان اسلام کی طرف آئے۔ جنید جمشید ملنسار تھے، ہر ایک سے کھل کر ملتے تھے۔ یہاں بندہ جتنا ’’دیندار‘‘ بن جاتاہے، لوگوں سے کم ہی ملنا، کم مسکرانا اور کڑا جواب دینا اپنی شان سمجھتا ہے لیکن جنید اس کے برعکس تھے۔ ان کے اخلاق اعلیٰ پائے کے تھے۔حضور  نے جو ابوہریرہ کو نصیحت کی تھی کہ اپنے اخلاق کوخوبصورت بناو۔ ابوہریرہ نے فرمایا، کیسے حضور نے جواب دیا، جو توڑے، اس سے جوڑو، جو محروم کرے، اسے عطا کرو۔ جوزیادتی کرے، اسے معاف کرو۔ بقول مولاناطارق جمیل،جنید جمشید اس حدیث کی عملی تصویر تھے۔
لاکھوں لوگوں کے دلوں کو نعت رسول  کی بدولت حضور  کی محبت سے سرشارکرنے والے اس بندہ پر 2014 میں توہین رسالت کا الزام لگایا گیا۔ اس سے زیادہ اور بد قسمتی کیا ہوسکتی ہے؟ مسلکی تعصب، تنگ نظری کی وجہ سے یہ طبقہ ہمیشہ اس تلاش میں ہوتا ہے کہ کب ان کی جلائی ہوئی آگ میں لوگوں کو ڈال دے۔ جنید جانتے تھے کہ وہ کتنی بھی صفائی دیتے، یہ لوگ نہیں مانیں گے، اس کے بعد وہ منظر بھی لوگوں نے دیکھا جب جنید ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھا۔ اس کے باوجود بہت دیر تک جنید کو وطن سے دور رہنا پڑا اور جب وہ پاکستان واپس آئے تو اللہ کے اس بندے پر ایئرپورٹ پر حملہ کیا گیا۔ مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوگی۔؟جنیدجمشید کو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی تنگ کیا گیا لیکن اللہ کا یہ نیک بندہ ہمیشہ کہتا تھا کہ میں نے انہیں معاف کیا۔

جنید دس دنوں سے پاکستان کے دور دراز علاقے چترال میں لوگوں کے دل بدلنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان کے 2 دسمبر کے فیس بک ویڈیوسے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ جمعہ وہاں نمازجمعہ انہوں نے ہی پڑھائی اور اللہ کے اس نیک بندے نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی آیات 135۔157پڑھیں : ’’۔۔۔اوراللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں ، لیکن تم نہیں سمجھتے۔۔۔. جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے توکہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اورہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ‘‘۔ اوردوسری رکعت میں زبان پہ سورہ فصلت کی آیات 30۔33 تھیں :’’۔۔۔ تمہاری دنیاوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اورآخرت میں بھی رہیں گے جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو، سب تمہارے لیے (جنت میں موجود) ہے۔۔۔.. اور اس سے اچھی بات والا کون ہے، جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔ ۔۔‘‘

انہیں کیا خبر تھی کہ یہ ان کی نماز میں پڑھی جانے والی آخری آیات ہوں گی؟ کیاانتخاب تھا! جیسے پہلے سے ہی جانتے ہوں کہ رب سے ملاقات کاوقت اب آچلا ہے۔ ابھی دعوتی سفرمیں ہی تھے کہ موت نے دستک دی۔ خوش بختوں کی موت، موت کاایسا ذائقہ کوئی چکھے تو کیا کہنے۔۔۔. اناللّٰہ واناالیہ راجعون!

تبصرے بند ہیں۔