جگن ناتھ آزاد کی نظمیہ شاعری

ڈاکٹرعمیر منظر

تقسیم وطن نے ایک بڑی انسانی آبادی کو اِدھر سے اُدھر کردیا۔ قتل و خوں اور تباہی و بربادی سے بچ جانے والے جب اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچے تو ان کے ساتھ ان کے وطن کی مٹی اور یادیں بھی ساتھ تھیں جس سے وہ تاعمر چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ وطن میں اجنبیت کا احساس یہی یادیں تھیں جسے آنے والے اپنے ساتھ لائے تھے جو کبھی ان سے جدا نہ ہوسکی۔ دلی میں لاہور بس گیا تھا تو لاہور میں دلی آباد تھا۔ انسانی نقل مکانی تو کچھ برسوں بعد رک گئی مگر یادوں کا سیلاب کبھی نہیں تھما۔ بہت سے فن کار اسی احساس کی ترجمانی کے سبب ’’بڑے ادیب‘‘ اور ’’شاعر‘‘ بن گئے لیکن ظاہر ہے کہ یہ احساس جس کی شدت اور اضطراب کو صرف وہی عہد محسوس کرسکتا تھا بعد کے زمانوں کے لیے اس کی حیثیت تاریخ کے ایک صفحے کی تھی اور بس۔ تخلیقی سطح پر جن ادیبوں اور شاعروں نے اسے اپنے فن کا حصہ بنایا اور غیرمعمولی شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور اسی کی بدولت انہیں ’’ادبی سفیر‘‘ کا مرتبہ بھی حاصل ہوا۔ ان میں ایک نمایاں نام جگن ناتھ آزاد(۱۹۱۸–۲۰۰۴) کا بھی ہے۔

جگن ناتھ آزاد محبت اور انسان دوستی کے سفیر قرار پائے۔ جگہ جگہ ان کی پذیرائی ہوئی۔ اقبال سے غیرمعمولی محبت اور عقیدت کے باب میں اقبال سے متعلق ان کی تصنیفات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ وطن دوستی اور انسانیت کے دکھ درد کو انہوں نے شعری قالب عطا کیا۔ درحقیقت آزاد نے نقل مکانی کی صورت میں خود جو دکھ جھیلا تھا اور جس شدید المیے سے دوچار ہوئے تھے انسانیت کی جو زبوں حالی اور کشت و خون کے جو مناظر دیکھے تھے اس نے پوری انسانیت کا انہیں ہمدرد بنا دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انسانیت کے اس دکھ کو انہوں نے کسی خاص دائرہ کے بجائے آفاقی وژن عطا کردیا تھا۔ ان کا دکھ صرف یہ نہیں تھا کہ پاکستان میں ہندو اقلیت غیرمحفوظ ہے بلکہ ان کی آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہندستان کی مسلم اقلیت بھی تقسیم وطن کے نتیجے میں مجبور محض بن کر رہ گئی ہے۔ اسی لیے ان کے کلام میں ہندستانی مسلمانوں کے دکھ اور درد کا احساس بہت شدید ہے لیکن فن کار کی ہنرمندی یہ تھی کہ اس نے دکھ کے اس لمحے کو خانوں اور دائروں میں تقسیم کرنے کے بجائے پوری انسانیت کے دکھ کی ترجمانی کا ذمہ اٹھا لیا۔ ’’نوائے پریشاں ‘‘ کی شاعری اسی احساس کی غماز ہے۔

جگن ناتھ آزاد کی نظموں میں بالخصوص اور غزلوں میں بالعموم بیانیہ اسلوب شعر کی کارفرمائی ہے۔ انہوں نے جس نوع کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی ہے اس کے لیے بیانیہ انداز شعر غالباً زیادہ مناسب ہے۔ غزلوں اور نظموں دونوں میں روایت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

جگن ناتھ آزاد کے مجموعہ کلام ’’بیکراں ‘‘ کی پہلی نظم ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء ہے۔ یہ نظم غزل کے فارم میں ہے:

نہ پوچھو جب بہار آئی تو دیوانوں پہ کیا گزری

ذرا دیکھو کہ اس موسم میں فرزانوں پہ کیا گزری

بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا

بتا اے پیر میخانہ یہ میخانوں پہ کیا گزری

کہو دیر و حرم والو پہ تم نے کیا فسوں پھونکا

خدا کے گھر پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری

’’نوائے پریشاں‘‘ کی پہلی نظم کا عنوان ہے ’پیش کش‘:

خس و خاشاک میں روح گلستاں لے کے آیا ہوں

خزاں کے دوش پر ابر بہاراں لے کے آیا ہوں

نہ ہو بے تاب اپنے درد سے اے شاکی دوراں

ترے ہی درد کا نغمو ں میں درماں لے کے آیا ہوں

مذکورہ بالا اشعار میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ جگن ناتھ آزاد کا ذاتی تجربہ بھی ہے اور اس عہد میں ان جیسے بہت سے دوسرے انسانوں کا بھی۔ نظم ’’جمنا کے کنارے‘‘ میں ماضی اور اس کی یادوں کا سلسلہ قائم ہے:

شام کے سائے میں جمنا کی روانی دیکھ کر

مجھ کو ا ے آزاد راوی کا سماں یاد آگیا

اور راوی کے کنارے پر جو ہے آباد وہ

آرزوؤں کا امنگوں کا جہاں یاد آگیا

تقسیم وطن کے بعد کا زمانہ یادوں کا زمانہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں اپنی مٹی، اس کی بوباس اور اس سے وابستہ افراد و شخصیات سے گہری وابستگی کا اظہار اکثر شعرا کے کلام میں ملتا ہے۔ شفیق جونپوری کو کسی نے کراچی آنے کی دعوت دی تو انہوں نے اس کے جواب میں لکھا تھا:

بلا رہی ہو کراچی میں تم ہمیں لیکن

وطن کا اپنے نظارہ کہاں سے لائیں گے

بجا کہ ساحل راوی ہے پر بہار مگر

وہ گومتی کا کنارہ کہاں سے لائیں گے

ماضی اور اس کی یادوں کا یہی سلسلہ ’’دیارِمحبوب کو جاتے ہوئے‘‘، ’’ نئی محفل‘‘، ’’کنارراوی‘‘ اور ’’وطن میں آخری رات‘‘ جیسی نظموں میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ’’ترکِ تعلق کے بعد‘‘ ایسی نظم ہے جس کا مخاطب محبوب بھی ہوسکتا ہے اور وہ سرزمین بھی جس کی یادیں تمام عمر جگن ناتھ آزاد کا تعاقب کرتی رہیں۔ اس نظم کے چند مصرعے دیکھے جاسکتے ہیں :

گو ترک تعلق ہوا ایک زمانہ

جتنے بھی حقائق تھے بنے آج فسانہ

دن کو بھی تری یاد ہے شب کو بھی تری یاد

دم بھر کو ہوا دل نہ تیری یاد سے آزاد

دن کو تو دبا رہتا ہے اندوہِ نہانی

مجھ سے نہ مگر پوچھ مری شب کی کہانی

گم نیند کے آغوش میں ہونے نہیں دیتا

راتوں کو تصور ترا سونے نہیں دیتا

لیکن اس کے علاوہ جگن ناتھ کی ایسی بہت سی نظمیں ہیں جن میں فکری تناسبات خاص طور پر در آئے ہیں لیکن اس کے باوجود نظم کی روانی اور دلکشی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس ذیل کی نظموں میں ذرہ، عظمت آدم، بھارت کے مسلماں، ماؤنٹ ایورسٹ، فریب نظر اور استفسار خاص اہمیت کی حامل قرار دی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اردو، شاعر کی آواز، ابوالکلام آزاد، ماتم نہرو اور دہلی کی جامع مسجد جگن ناتھ آزاد کی طویل نظمیں ہیں۔ ان نظموں کے مطالعہ سے جہاں جگن ناتھ آزاد کی فن کاری اور زبان و بیان پر قدرت کا احساس ہوتا ہے وہیں شخصیات سے غیرمعمولی ربط و تعلق اور عقیدت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ جگن ناتھ آزاد کی نظموں کے مطالعہ سے یہ بات بہرحال واضح ہوتی ہے کہ تاریخ کے اس نازک لمحے میں انہوں نے جرأت مندانہ طریقے پر حالات سے آنکھ ملانے کا جذبہ عطا کیا اور اسے انسانیت کی اعلیٰ و ارفع قدروں سے ہم آہنگ کرکے اپنے کلام کی ترتیب و تہذیب بھی کی۔ ان کی یہی دردمندی اور ان کے دل کا یہی سوز ان کی نظموں کو تنویر عطا کرتا ہے۔

جگن ناتھ آزاد کی غزلوں میں کسی طرح کی معنوی پیچیدگی یا تہہ داری کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ان کی غزلوں کا عام انداز بھی نظموں کی طرح بیانیہ ہے۔ البتہ غزلوں میں استفہامیہ انداز ضرور ہے مگر یہ استفہام عام طور پر برائے اثبات ہے۔ جگن ناتھ آزاد نے اپنی غزلوں میں بھی تعمیری اور مقصدی انداز کو برقرار رکھا۔ یہ کوئی ایسا شعری رویہ نہیں ہے کہ جس پر نکیر کی جائے لیکن یہ بات بہرحال ضروری ہے کہ شاعری کو پہلے شاعری ہونا چاہیے بعد میں چاہے جو کچھ بھی ہو۔ آزاد کی شعری سادگی اور روانی اہمیت کی حامل ضرور ہے۔ صناعی اور دیگر شعری محاسن کے چکر میں انہوں نے غزلوں کو بوجھل بھی نہیں کیا۔ لیکن یہ ساری چیزیں اس وقت اور زیادہ بامعنی قرار پاتیں جب انہیں تخلیقی ہنرمندی اور مضامین کے وسیع کینوس میں برتا جاتا۔ آزاد نے اپنی شاعری میں اقبال کا تتبع بھی کیا۔ اقبال سے انہیں بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ غالباً اسی لیے انہوں نے اقبال کے انداز و اسلوب  اور لفظیات کو اختیار کیا لیکن انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ یہ رنگ ان کی شاعری کو انفرادیت نہیں عطا کرسکتا اسی لیے بعد میں اقبال کا رنگ ان کے کلام میں ہلکا ہوتا چلا گیا۔ آزاد کی غزلوں کے مضامین وسیع نہیں کہے جاسکتے۔ شیخ و برہمن، ماضی کی یادیں، انسانی دردمندی اور دیر و حرم کے حوالے سے سیاسی چیرہ دستیوں کی پیش کش ان کی شاعری کے نمایاں مضامین ہیں۔

کچھ اس انداز سے شیرازۂ گل خاک پر بکھرا

مرے دل کو پریشاں کرگئی باد سحرگاہی

بس ایک نور جھلکتا ہوا نظر آیا

پھر اس کے بعد نہ جانے چمن پہ کیا گزری

نظر کی حد تک لگا دیا ہے سیاہ راتوں کا شامیانہ

اسی اندھیرے میں دیکھتا ہوں ابھر رہا ہے نیا زمانہ

میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو

کہ اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں

واعظ کبھی ہم لوگ فرشتے نہ بنیں گے

ہم خاک نشیں اور ہیں وہ عرش مکاں اور

وہ اک تڑپ کہ جس سے عبارت ہے زندگی

کچھ سنگ در میں کچھ مرے سودائے سر میں ہے

تجھ پہ اے دور سیاست آفریں صد آفریں

اک مسافر آج اپنے گھر میں آسکتا نہیں

یہ اشعار روایت کے اسی ذیل میں آتے ہیں جس میں فن کار اپنے جذبات و احساسات کے اظہار پر نہ صرف قدرت رکھتا ہے بلکہ اس میں تاثربھی ہوتا ہے لیکن چاہے غزل ہو یا نظم مخصوص حالات اور ماحول کے تناظر میں کہے جانے والے اشعار بہت دنوں تک باقی نہیں رہتے بلکہ ان کی معنویت کا جواز وہی خاص حالات اور ماحول ہوتے ہیں۔

جگن ناتھ آزاد نے انسانی ہمدردی اور اس کے دکھ کے اظہار کو جس طرح اظہار کا پیکر عطا کیا اس کے جواز سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن رفتہ رفتہ ان کی معنویت کے جواز کی راہیں کیا ہوں گی اس پر ازسر نو غور کرنا ہوگا۔ فراق گورکھ پوری نے جگن ناتھ آزاد کے مجموعہ کلام ’’بیکراں ‘‘ کے دیباچے میں لکھا تھا:

’’سطحیت تو ان (جگن ناتھ آزاد) کے کلام میں کہیں ہے ہی نہیں۔ ایک بڑھتی ہوئی گہرائی جس میں برابر تہیں پڑتی جارہی ہیں، ایک بلندی جو نئی منزلیں تلاش کرلیتی ہے۔ ‘‘ (1)

فراق گورکھ پوری نے دعویٰ کی دلیل میں کسی شعر کو نقل نہیں کیا ہے۔ فراق گورکھ پوری کی رائے کو پوری طرح سے رد تو نہیں کیا جاسکتا البتہ اگر انہوں نے اشعار کی روشنی میں اپنی بات کی تصدیق کی ہوتی تو شاید اس سے مزید روشنی ملتی۔

حوالہ جات

1۔  بیکراں، جگن ناتھ آزاد، ص ۱۲، انجمن ترقی اردو ہند۔ ۱۹۹۲

1 تبصرہ
  1. شاہد حبیب فلاحی کہتے ہیں

    بہت ہی عمدہ مضمون … جگن ناتھ آزاد کی یوم پیدائش پر ان کو یاد کر کے آپ نے اہل اردو کی بےحسی کی پردہ پوشی کا اہم کام سرانجام دیا ہے… کسی بھی زندہ زبان کے بولنے والے جگن ناتھ آزاد جیسے اپنے بطل جلیل کو کیسے بُھلا دے سکتی ہے!!

    آپ نے اپنے مضمون میں ان کا ایک شعر نقل کیا ہے جو ان ہی پر صادق آتا ہے :
    میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو
    کہ اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں

    ان کی یوم پیدائش پر سناٹا ایسا چھایا ہوا ہے کہ جگن ناتھ اردو کے نہیں بلکہ کسی ودیشی زبان کے ادیب و شاعر ہیں جس کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا. حالانکہ وہ تلوک چند محروم جیسے بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے اور غیر مسلم ہونے کے باوجود نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں کہی گئی ان کی نعتیں ایسی ہیں کہ ہمارے ادب کے شاہکار کہی جانے کی مستحق ہیں. ان کی ایک نعت پاک ہمارے چھٹے کلاس کی دینیات کی کتاب میں شامل تھی، اسی وقت سے جگن ناتھ آزاد جیسے نامانوس نام سے بھی عقیدت ہو گئی تھی. آج آپ کا یہ مضمون پڑھ کر وہ ساری یادیں تازہ ہو گئیں. ان کی وہ مقبول ترین نعت یوں تھی:

    سلام اس ذات اقدس پر، سلام اس فخر دوراں پر
    ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

    سلام اس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
    رہا جو بیکسوں کا آسرا، مشفق غریبوں کا

    مددگار و معاون بےبسوں کا، زیردستوں کا
    ضعیفوں کاسہارا اور محسن حق پرستوں کا

    سلام اس پر جو آیا رحمتہ للعالمیں بن کر
    پیام دوست لے کر، صادق الوعد و امیں بن کر

    سلام اس پر کہ جس کے نور سے پرنور ہے دنیا
    سلام اس پر کہ جس کے نطق سے مسحور ہے دنیا

    بڑے چھوٹے میں جس نے اک اخوت کی بنا ڈالی
    زمانے سے تمیز، بندہ و آقا مٹا ڈالی

    سلام اس پر جو ہے آسودہ زیر گنبد خضری
    زمانہ آج بھی ہے جس کے در پر ناصیہ فرسا

    سلام اس پر کہ جس نے ظلم سہہ سہہ کر دعائیں دیں
    وہ جس نے کھائے پتھر، گالیاں، اس پر دعائیں دیں

    سلام اس ذات اقدس پر حیات جاودانی کا
    سلام آزاد کا، آزاد کی شیریں بیانی کا

    ایک بار پھر آپ کا شکر گزار ہوں ڈاکٹر صاحب کہ آپ نے ایسی عمدہ اور متوازن ناقدانہ مضمون لکھ کر جگن ناتھ جیسے محب رسول قلم کار کو ہمارے حافظے سے محو ہونے سے بچا لیا. بہت خوب.. بہت بہت مبارک باد 💐💐💐… جزاكم اللہ خیرا.

تبصرے بند ہیں۔