شہید بابری مسجد اور بعض رہبران قوم کا ناموافق رویہ

محمد قاسم ٹانڈوی

جان سے بھی زیادہ عزیز اس ملک ہندوستان میں رہ کر بود و باش اختیار کرنا ہمارا پیدائشی حق ہے اور یہ ہمارا آبائی وطن ہے، ہمارے آباواجداد نے اسی سرزمین پر جنم لیا تھا اور اسی ملک کی خاک میں دفن ہوکر رل مل جانے کا عہد و پیمان کیا تھا؛ یہی اب ہمارا بھی عزم محکم ہے کہ ہم ملک کی الفت و محبت میں حد سے گزر کر خاک وطن میں زمیں بوس تو ہو جائیں گے مگر کسی بھی صورت اپنے آباو اجداد سے ملی وراثت کی سودے بازی نہیں کریں گے۔ وہ اس لئے کہ ہمارے آباؤ اجداد کہیں باہر سے آ کر آباد و مقیم نہیں ہوئے تھے اور اس ملک کا حصہ نہیں بنے تھے بلکہ ان سب نے اسی دھرتی کے سینے پر جنم لےکر اس ملک کو ترقی کے بام عروج پر پہنچایا تھا، تو اب ہم کیسے ان کے لگائے اس سرسبز و شاداب چمن اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو خیرآباد کہیں؟ ہم ایسا ہرگز نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایسا کسی صورت ہونے دیں گے، بلکہ جس طرح ہمارے آباؤ و اجداد اور اکابر علماء کرام نے بےشمار جانی مالی قربانیوں کا نذرانہ پیش کرکے اس ملک کو پنجہ استبداد سے آزادی دلانے کے بعد یہ فیصلہ لیا تھا کہ "یہی ملک ہمارا مسکن ہے اور یہی ہمارا مدفن بھی ہوگا” تو ہم کیوں ان کی اس متفقہ رائے سے اختلاف کریں؟ جبکہ اس فیصلے میں ان حضرات کو کوئ مجبوری کوئی عجلت یا کوئی عہدہ اور منصب بھی درکار نہیں تھا بلکہ یہ بہت ہی سوچا سمجھا دانشمندی، حاضر دماغی اور وطن عزیز سے غایت درجے کی محبت پر مبنی برحق اور ایک دور اندیشانہ فیصلہ تھا۔

اور ہمارا یہ قدیم اور برسہا برس پرانا ملک ہندوستان ابتدا ہی سے رنگا رنگ تہذیب و تمدن کا مرکز، ثقافت و کلچر کا حامل، نوع بنوع مذاہب کا گہوارہ اور مختلف زبانوں کو شامل وسعت و کشادگی پر پھلا پھولا ملک ہے، یہی اوصاف جداگانہ ہمارے اس ملک  کی خصوصیات میں چار چاند لگا دیتے ہیں جسے دنیا بھر کے لوگ اپنی اپنی تحریروں اور تقریروں میں سونے کی چڑیا سے تعبیر کرتے ہیں، اور اتنا ہی نہیں بلکہ جب غیر ممالک کے سربراہان و اساطین اور ماہرین سیاحت ہندوستان کے دورہ پر آتے ہیں تو وہ یہاں سے واپس ہونے پر اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب، کلچر و ثقافت، باہمی رواداری اور ہندو مسلم کی مشترکہ اقدار و روایات کا بچشم خود معائنہ کرتے ہیں تو بآسانی یہ نتیجہ اخذ کر لے جاتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اب اس ملک کو اپنا غلام نہیں بنا سکتی۔ اس لئے کہ یہاں اگر ایک طرف مندر میں شنکھ کی آواز گونجتی ہے تو اسی کے پہلو میں قائم مسجد میں اذان کی صدا بھی سنائ دیتی ہے یہاں گیتا کے شلوکوں سے ماحول میں اخلاق و کردار کی رنگت بکھیری جاتی ہے تو وہیں مساجد کے بلند و بالا میناروں سے مقدس کلام الہی ‘قرآن حکیم’ کی تلاوت اور اس کے لافانی، ابدی اور بےمثال احکامات کے ذریعہ جرائم کا سد باب اور باہمی طور پر اخلاق و معاملات کی پاسداری برتنے کی مسلسل تلقین و تائید کی جاتی ہے۔

ہر چند کہ مندر و مسجد اپنے اپنے مذہبی عقیدہ کی رو سے اور اپنے اپنے طور طریقوں کی بنیاد پر عبادت انجام دینے کے دو خاص اور اہم مقامات اور دو خالص اصطلاحیں ہیں، جہاں مکمل طور پر اپنے مذہبی امور ادا کرنے کی ہر ایک کو آزادی حاصل ہے، مگر پہر بھی کچھ ناعاقبت اندیش اور ملک و سماج کے موجودہ حالات سے ناواقف بے فکرے اور خود ساختہ ملت کی راہنمائ کا دم بھرنے والے سیاسی غیر سیاسی افراد نے اس مسئلہ پر بھی ملک کے سادہ لوح عوام کو گمراہ اور تقسیم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور اسے سماج کا سب سے اہم اور سب سے نازک مسئلہ بنا کر گذشتہ ڈھائی دہائ سے الجھا کر رکھ دیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ملک ترقی کے دھارے سے کٹ کر باہمی چپقلش، آپسی رنجشوں اور مذہبی منافرت کا گہوارہ بن کر رہ گیا، جگہ جگہ ہندو بنام مسلم اور مسجد بنام مندر کی طنابیں کس کر حالات کو جہنم زار بنا کر رکھ دیا، اسی لئے مفکرین و دانشور کا یہ کہنا صد فی صد درست ہےکہ اگر اس ملک میں سیاستداں اور حکمراں ایودھیا پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا بند کردیں، جو انہوں نے "بابری مسجد اور رام مندر کیس کے بھڑکتے تندور پر سینکنے کی عادت بنا رکھی ہے” تو یہ ملک اسی دن امن کا گہوارہ اور باہمی رواداری کا سرچشمہ بن کر اپنی حقیقی شناخت قائم کرنے والا ہو جائے گا۔ اور جب تک یہ مسئلہ سیاسی آقاوں اور حکمرانوں کی دہلیز سے آگے پیش قدمی نہیں کر جاتا اس وقت تک ملک میں باہمی خوشگوار فضا کا قائم ہونا اور سیاسی معاملات میں پختگی کا آنا ممکن نہیں اور جس دن بابری مسجد قضیہ سیاسی دہلیزوں سے پرے ہو جاتا ہے یقین جانئے اسی روز سے نہ تو کسی ہندو بھائ کو اپنی پوجا پاٹ میں دقت و پریشانی کا سامنا کرنے کی نوبت پیش آئے گی اور نہ ہی کوئی مسلمان اپنے رب کی عبادت بجا لانے میں کسی خاص محل اور اہم مقام کا متلاشی و سرگرداں ہوگا۔ اس لئے مندر وہ مقام کہلاتا ہے جو برادران وطن کا معبد ہوتا ہے جہاں برادران وطن اپنے ہندو مذہب کی رسم و رواج اور عقیدہ و آستھا کے مطابق پوجا پاٹ کرتے ہیں، ایشور کی طرف دھیان جماتے ہیں جبکہ مسجد ہم مسلمانوں کی عبادت گاہ اور خوشنودی رب کے حاصل کرنے کی ایک مقدس جگہ شمار ہوتی ہے جس کو اہل ایماں پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کے واسطے استعمال کرتے ہیں جس کو وہ موقع محل کی مناسبت اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مخصوص علاقوں میں تعمیر کرا لیتے ہے جو خانہ خدا مسجد کے نام سے منسوب ہوکر لوگوں میں معروف و مشہور ایک مقام خاص کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ جس کے تئیں شریعت مطہرہ کا نقطہ نظر اور فرمان رسول (صلعم) ہےکہ اگر ایک مرتبہ تمام حق حقوق کی پاسداری اور شرعی قوانین و ضوابط کی مکمل رعایت کرتے ہوئے کہیں مسجد کی بناء ڈال دی جائے تو اب وہ جگہ ہمشیہ ہمیش کےلئے وقف الی اللہ ہو جاتی ہے اب اس متعین و مخصوص جگہ کی ساتویں تہہ سے لےکر عرش تک، تمام خلا حدود مسجد اور خانہ خدا (اللہ کے ذمہ داری) میں آجاتا ہے اور اب اس حدود میں کوئی دوسرا کام یا اس جگہ کو کسی دوسرے شغل و شغف کےلئے استعمال میں نہیں لایا جا سکتا ہے۔

ہاں فقہاء کرام نے نماز کی ادائیگی کے ساتھ ضمنا اتنی گنجائش ضرور دی ہےکہ اگر کوئی سخت مجبوری ہو یا کوئی اور دینی رفاہی معاملہ ہو، جیسے: نکاح خوانی یا لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر دینی مجالس اور درس قرآن و حدیث کے حلقے وغیرہ قائم کرنے ہوں تو عارضی طور ان کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو اس سلسلے میں ہماری شریعت مطہرہ کا نظریہ بہت صاف شفاف ہے جو کسی بھی حال میں مساجد کو عبادات اور اس قبیل کی ضروتوں کے علاوہ استعمال کرنے پر سختی سے بریک لگاتی ہے۔ اس کے علاوہ شریعت اس جگہ کو خالص مسجد اور خانہ خدا کے علاوہ کسی اور نام سے منسوب کرنے کی قطعا اجازت اور دوسرے امور میں اس کے استعمال کو لانے کی گنجائش اور اجازت نہیں دیتی کیونکہ یہ خالصتا مذہبی امور سے مربوط اور دینی معاملات سے وابستہ مقام ہوتا ہے۔ مساجد کا تعلق دین حنیف و مذہب اسلام کی شان و شوکت اور مسلمانوں کے بنیادی شعائر سے مربوط معاملہ بھی ہے جن کے حقوق کےلئے قانونی لڑائی لڑنا اور روئے زمین پر موجود ان کے وجود کو قانونی طور پر مستحکم کرنا اور ان کی بازیابی کی فکر کرنا ہر صاحب ایمان کا ایمانی حصہ ہے۔

مگر بھلا ہو ہندوستان کی ترقی پذیر اس سیاست کا جس کی سیاسی دال جوتیوں میں تقسیم ہونا عوام کا مقدر بن گئ ہے اور رہبران سیاست نے اپنے مطلب براری اور مفاد پرستی کی جنگ میں مذہب، مذہبی امور سے متعلق مراسم اور سماج کے تانے بانے کو خاکستر کرکے رکھ دیا ہے اور جب سے سیاست کو مذہب سے جوڑا گیا ہے تب سے ہر کام کی نوعیت ہی تبدیل ہو کر رہ گئی اب ہر کام میں ماتھے پر سیاست کی عینک لگا کر دیکھنے اور ہر مسئلے کو اسی سیاسی عینک کی روشنی میں ہر کس و ناکس حل کرنے کا مدعی بنا ہوا ہے جو خود کو سب سے زیادہ دوراندیش، دوربین اور دوسروں سے زیادہ عقلمند تصور کئے بیٹھا ہے وہ اپنے سیاسی مطلب کے من میں ڈوب کر ملت کو در پیش سیاسی سماجی اور مذہبی مسائل کے حل میں علماء کو پس پشت ڈال کر سعی لاحاصل کرنے میں پیش پیش ہے۔ حالانکہ سچائی اور حقیقی بات یہ ہےکہ نہ تو ان لوگوں کو اصل واقعہ کی صورتحال کا پتہ ہے اور نہ ہی انہیں اس پیش آمدہ مسئلہ کی نوعیت اور صحیح تاریخ کا علم ہے وہ تو بس اپنے مفادات کی خاطر میدان میں کود کر اس مسئلے کی بابت ایک نئ تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں، جسے ملت کبھی برداشت نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس مسئلہ کے حل کے تئیں کی جانے والی باز گشت میں عوام و خواص کا کیا نظریہ ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ تو مفاد پرستی، سکوں کی کھنک اور عہدوں کی چمک دیکھ کر زیر بحث مسئلہ کی سودے بازی کرنے میں دن و رات ایک کرکے پوری امت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا عمل دہرانے کی ناپاک کوشش اور شازش رچتے ہیں اور امت کا سواد اعظم کہلانے والوں کو غلط ٹہھرانے کی ہمت و جرات کرتے ہیں۔

واضح رہے ہماری آج کی اس تحریر کا موضوع عدالت میں زیر بحث اور زیر سماعت مقدمہ "شہید بابری مسجد” ہے۔ جس کو شہید ہوئے بھی پچیس سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے، جسے تقریبا پچیس سال پہلے حکومت ہند کی ملی بھگت سے چند فرقہ پرست تربیت یافتہ کارسیوکوں نے پہلے سے منظم شدہ انداز پر دن کی روشنی میں اسے شہید کر دیا تھا جس نے آج انصاف کی منتظر بنے اپنی شہادت کے 26/ برس پورے کر لیے ہیں۔ یہ خاص تحریر آج اسی کے تعلق سے قلم بند کی گئ ہے جس کا قضیہ براءے تصفیہ اس کی شہادت کے بعد سے عدالت میں لڑا جا رہا ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی پر اپنی اپنی ملکیت کے دعوے دار ہیں اور دونوں ہی فریق اپنی اپنی اجارہ داری ثابت کرنے پر بضد ہیں جسے دیکھتے ہوئے عدالت عظمی کے فضلاء ججز نے بارہا اس اہم اور مذہبی معاملے میں فریقین کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اس مقدمہ کا تعلق براہ راست "عقیدہ اور آستھا سے جڑا ہے” لہذا بہتر ہوگا کہ دونوں فریق عدالت کے باہر ہی باہمی گفت و شنید اور آپسی رضا مندی سے اسے حل کر لیں، یہ کہہ کر ہر بار سماعت کو ٹال دیا جاتا ہے۔ اور اب ایک بار پھر معزز عدالت نے اس مقدمہ کی شنوائی کو جنوری 2019/کےلئے ٹال دی ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہوتا یہکہ جب اس اہم اور حساس مقدمہ کی سنگینی اور اس کے تصفیہ کے نتائج کا عدالت کو علم ہے تو اسے یہاں تک آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئ اور عدالت جو ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کےلئے قابل احترام جگہ ہے جس کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کیا جاتا ہے وہ کیوں فیصلہ سنانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہے؟ کیوں اس کے ججز حضرات اپنا آئینی فریضہ نبھانے میں مسلسل آنا کانی سے کام لے رہے ہیں؟ انہیں چاہئیے کہ دلائل اور ثبوتوں کی روشنی میں حق بجانب فیصلہ دے کر تاریخ رقم کریں، ہندوستان کا ہر مسلمان معزز عدالت کا ہر فیصلہ بسروچشم منظور کرنے کو تیار ہے اس کے علاوہ اگر کوئی شخص چاہے وہ کسی بورڈ کا نمائندہ ہو یا کسی سیاسی سماجی تنظیم اور جماعت کا سربراہ ہو اس کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ زیر سماعت اس مقدمہ کو عدالت کے احاطہ کے باہر باہمی رواداری اور برادران وطن کی دل جوئ کا بہانہ بنا کر گفتگو کی ٹیبل پر بیٹھ جائے اور اپنے بل بوتے دم خم دکھائے اور بظاہر مسلمانوں کی نمائندگی کا اظہار کرے اس کی قطعا کسی کو اجازت نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کو عدالت کے باہر کا فیصلہ منظور و تسلیم ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔