فضل جاوید: پیروڈی کا نقش گرمحقق

امتیاز وحید

(شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی)

عہد حاضر میں فضل جاوید جیسے اہل قلم کی حیثیت باقیات الصالحات کی رہ گئی ہے۔ یہ ان اہلِ کمال میں سے ہیں، جن کے دم سے مکتبِ عشق کی روایت آگے بڑھتی ہے اور بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ یہ حضرت اسم بامسمّیٰ ہیں ؛سراپا فضل و عنایت اور وہ بھی نہ ختم ہونے والا فیض اور سرچشمہ۔ افسانہ(مجموعہ:گہرائیاں) اورطنز و مزاح (دو مجموعے:گل بوٹے، رعنائیاں) کے ساتھ فضل جاوید ادبی حلقے میں شخصی خاکے اور اپنے تبصروں کے سبب معروف ہیں لیکن بنیادی طور پر ان کی اصل شناخت پیروڈی کے ناقد اور محقق کی بنتی ہے۔ اردو پیروڈی کے صنفی دروبست اور تلاش و تحقیق پر وہ اس وقت متوجہ ہوئے جب پیروڈی عام ادبی حلقے میں شرف باریابی سے ابھی محروم تھی گوکہ اس کا چلن موجود تھا لیکن اس کی تحقیق کا باب بالکل خاموش تھا۔

صنف پیروڈی کے ضمن میں فضل جاوید کے تین بنیادی حوالے ہیں:

(۱)  اردو پیروڈی، (۲۰۱۷)

(۲) شگوفہ پیروڈی نمبر، (۱۹۷۶)

(۳)پیروڈی پر نصابی مضمون برائے ایم اے اردو، سال آخر، (۲۰۱۷)

’ اردو پیروڈی‘ فضل صاحب کا سندی مقالہ ہے جو ایم اے کورس کی تکمیل کے طور پر  ۱۹۶۶ میں پروفیسر آفاق احمد، صدر شعبۂ اردو، حمیدیہ کالج بھوپال کے زیر نگرانی لکھا گیا تھا اور جسے ایک طویل مدت بعد۲۰۱۷ میں کتابی صورت میں شایع کیا گیا ہے۔ اس وقت ظاہر ہے فضل جاوید کو وسائل اور مواد کی قلت اور عدمِ دستیابی کا سامنا تھا تاہم نگراں کے علاوہ انھیں رشید احمد صدیقی کے حوالے سے پروفیسر مسعود حسین خان، صدر شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے مفید مشوروں سے حوصلہ ملا۔ بیرونی ممتحن پروفیسر آل احمد سرورنے موضوع کے انتخاب کو پسند کیا، اس طرح ان کے تجاویز بھی شامل کہے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں مواد کی صورت میں ان کے پاس ’اسکالر‘ کا پیروڈی نمبر(۱۹۵۷)، نقوش (لاہور) کا طنز و مزاح نمبر(۱۹۵۹)، ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب’اردو ادب میں طنز و مزاح‘، پروفیسر اعجاز حسین کا مضمون اور بقول ان کے ’’… کچھ اور مضامین ‘‘ کا سرمایہ تھا البتہ اس وقت ان کے سامنے اس فن پر کوئی مستقل کتاب نہیں تھی۔ ایسے میں یہ بات کچھ کم قابل توجہ نہیں کہ فضل جاوید نے پہلی بار پیروڈی پر از سرنو ایک ادبی ا ور علمی ڈسکورس قائم کیا اورماہنامہ آجکل، نیادور، نگار پاکستان کے اصنافِ سخن نمبر اور دیگر جرائد میں جستہ جستہ پیروڈی پر اپنے مقالات اور خیالات کی اشاعت سے اہل نظر کو اس صنف کی جانب متوجہ کرنے کی مہم چھیڑی، جس کا سب سے ثمرآور نتیجہ ماہنامہ شگوفہ کے پیروڈی نمبر کی صورت میں سامنے آیا۔ ۱۹۷۶میں مدیر اعلا ڈاکٹر مصطفی کمال نے انھیں ’ شگوفہ کے پیروڈی نمبر‘ کا مہمان مدیر بنایا اور ان کی ادارت میں منثور و منظوم پیروڈیوں پر مبنی ایک وقیع نمبر شایع کیا۔

’اردو پیروڈی‘ جناب فصل جاوید کی تحقیقی و تنقیدی کاوش ہے۔ پانچ ابواب اور ۲۷۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب پیروڈی کے تعارف اور تعین قدر، یونان، انگریزی اور فارسی میں اس کے تاریخی پس منظر، اقسام اور اس کے تخلیقی وجوہ، ابتدا، اودھ پنچ میں پیروڈی کی بازگشت، اردوکے پہلے پیروڈی نگار کی تحقیق اور محاکمہ، چند مشہور پیروڈی نگاروں کا جائزہ اور چند دلچسپ اور منتخب پیروڈیوں کا احاطہ کرتی ہے۔

 نئی صنف کا مقدرنئے خدشات اور نئی یافت سے وابستہ ہوتا ہے، جس سے محقق حسبِ مقدور نمٹتاہے۔ نیا ادبی چلن محقق کے لیے نئے چیلنجز لاتا ہے۔ اس مخصوص ادبی صورت کا صنفی دائرہ اور پیمانہ، اساسی تصور، تکوینی عناصر اور خدو خال اور اس قبیل یا اس جیسی دستیاب ادبی صورتوں میں اس نئے پود کے امکانی وجود اور اس کا جوازوغیرہ سبھی گوشے محقق کی توجہ چاہتے ہیں۔ چیلنج کی نزاکت اور بڑھ جاتی ہے جب وہ پود ایک ایسے قافلے(طنز وظرافت) کا رکن ہو، جس پر علمائے ادب کا اجماع کبھی دیکھنے میں نہ آیاہو۔ پورے فکاہی ادب کی صنفی حیثیت ہی ثانوی یا محض اسلوبی ٹھہری تو بھلا پیروڈی کی خودمختارصنفی حیثیت چہ معنی دارد؟

جناب فضل جاوید نے متذکرہ تمام ممکنہ جہات پر پوری ادبی دیانت داری اور سنجیدگی سے کام کیا ہے اور پیروڈی کے دستیاب ادبی سرمایے کی روشنی میں اس کے صنفی دائرئہ عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈاکٹر جانسن کی گمراہ کن تحریفی تعریف کو مزاح کی چاشنی سے مشروط کیا ہے۔ اودھ پنچ سے پہلے کے شعرا کی معاصرانہ چشمکوں میں سنائی دینے والی تحریفی دھمک کو پیروڈی کے ارتقائی سفر کا نشان راہ ضرور مانا ہے لیکن اسے صنفی کسوٹی سے خارج بھی کیا ہے۔ ظفر احمد صدیقی کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ’سودیشی ریل ‘ اور’کتّے‘کو پیروڈی کے صنفی دائرے سے باہر محض مزاحیہ تخلیق تک ہی محدود رکھا ہے، کیونکہ ان کی اساس کسی موجود فن پارے پر نہیں رکھی گئی ہے۔ اودھ پنچ اپنی جملہ سرگرمیوں کے سبب فضل جاوید کے نزدیک مزاحیہ ادب کا روشن مینار ہے۔ نئے اور پرانے اقدار کی کشاکش کے حوالے سے برطانوی حکومت میں سرسید اور ان کے مخالفین کے مابین پائے جانے والے رد و قدح کے بطن سے ظرافت کے پھوٹنے والے چشمے میں موجود پیروڈی کی زرخیر مٹی پر گفتگو کرتے ہوئے موصوف نے اسی قافلے کے پنڈت تری بھون ناتھ ہجرؔ کو پیروڈی کا پہلا شاعر قرار دیا ہے۔ موصوف نے اودھ پنچ کو ابتدائی جبکہ ۱۹۶۳ میں لاہور سے ’شیرازہ‘ کی اشاعت کے ساتھ ظرافت کے دورِ جدیدکے آغاز کی نشاندہی کی۔ یہ دونوں ادوار پیروڈی کی مہمات میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ موصوف کے یہ امور بہرکیف قابل توجہ ہیں۔

محترم فضل جاوید کی تحقیق و تنقید کا جو سب سے روشن پہلو ہے وہ ان کا خودکار نقطۂ نظر ہے۔ یہ بنیادیں ان کے یہاں فکر اور تنقید و تجزیہ دونوں سطحوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان میں وضع کردہ میعار اور پیمانہ ان کااپناہے۔ سالارِ قافلہ کی خود اعتمادی سے نوواردین کو حوصلہ ملتا ہے۔ اس امر کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ متاخرین نے پیروڈی پر فضل جاوید کے نشانِ منزل سے مزید منزلوں کے نشانات ڈھونڈھے ہیں۔

۱۵۲ صفحات پر مشتمل شگوفہ پیروڈی نمبر(۱۹۷۶)کامزاج نظری کم عملی زیادہ ہے۔ نظری مباحث پرشامل دو مقالات کے علاوہ بقیہ مشمولات چنندہ منثور اور منظوم پیروڈیوں پر مبنی ہیں۔ پیروڈی کے صنفی دروبست اور اس کی تفہیم کے لیے غالباً یہ دو مقالات کافی سمجھے گئے یا عین ممکن ہے کہ اس وقت مزید تنقیدی مضامین دستیاب نہ ہوں۔ فضل جاوید کا مقالہ ’اردو پیروڈی‘بطورِ فاتحۃ الکتاب بلکہ مقدمۃالجیش کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ اور علمی مقالہ ہے جس میں پیروڈی کی اشتقاقی بحث، اس کے ابتدائی نقوش اور پھر اردو میں اس روشِ خاص کی تلاش، پیروڈی کی صورت گری میں کارفرما مزاح کی چاشنی سے مشروط ادبی حربے، علمائے ادب مشرق و مغرب میں معروف  اس سے وابستہ مفاہیم، دائرہ کار اور امکان ؛پیروڈی نگار کے لیے لازم ہمدردی، قابل تقلید فن پارے کی مقبولیت وغیرہ  سارے اعباد کو ٹٹولنے کی جدوجہد شامل ہے۔

اردو پیروڈی کے منظوم اور منثور جائزے میں سب سے اہم نکتہ فضل جاوید کا سالم مطمحِ نظر ہے، جسے ۲۰۱۲ میں راقم نے اپنے تحقیقی مقالہ ’پیروڈی کا فن‘کے کور پیج پر فریم کرکے شامل کیا تھا۔ یہ نقطۂ نگاہ فضل جاوید صاحب کے اقداری نصب العین کا نقیب ہے۔ ملاحظہ کریں :

’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ادبی نظریات کے کمزور پہلوئوں کو پیروڈی کے ذریعہ ابھارا جائے تاکہ ادب میں داخل ہوتے ہوئے ناہمواری، شدت پسندی اور بے اعتدالی کے تیز دھارے کا رخ بدل جائے اور ادبی نظریات ان عیوب سے پاک رہیں۔ ان تاریخی واقعات کو بھی پیروڈی کے احاطہ میں لایا جائے جن کی غیر صحت مندی ایک متعدی مرض کی طرح آج کے خام اذہان میں داخل ہوتی جارہی ہے ورنہ ڈر ہے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ذہن بعض ٹھوس حقیقتوں سے منکر ہو جائے گا۔ آج کے بعض محققین کو ٹھوس حقیقتوں کو چکنا چور کرکے ان پرخیالی اصنام کی تعمیر میں ایک خاص طرح کا لطف آرہا ہے۔ اگر تحقیق کے اس غلط رویہ کا سدباب نہ کیا گیا تو اصول اور حقائق خواب و خیال بن جائیں گے۔ اس سیلاب کو روکنے کے لیے پیروڈی کا فن نہایت خوبی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یعنی انھی کے لہجے میں جب ان کی کہی ہوئی باتوں کا مذاق بنتا ہے تو خامیاں خود بخود ان کی نظروں کے سامنے آجائیں گی‘‘۔

اپنی تازہ مطبوعہ کتاب ’اردو پیروڈی‘، ’ شگوفہ پیروڈی نمبر‘ اور پیروڈی پر نصابی مضمون برائے ایم اے اردو، سال آخرکے مابین فضل جاوید پیروڈی کے ایک بلند پایہ محقق اور موئد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک محقق کے ہاتھوں پیروڈی نے خوب سے خوب تر کا ادبی سفر کیااور نصاب کا حصہ بن گئی ؛فصل جاوید کا یہی کارنامہ ادب میں ان کی بقا کا ضامن ہے۔

تبصرے بند ہیں۔