جھوٹ اور اس کی نحوستوں کو سمجھنا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

 اللہ تعالی نے مسلمانوں کو قول زور یعنی جھوٹ بولنے سے اجتناب کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ قول زور کے لغوی معنی انحراف اور پھرنا ہے چونکہ باطل، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، چغلی کرنا، تمسخر اڑانا، منحرف ہونا، لغوو بے ہودہ بات کرنا، غنا اور چھوٹی گواہی دینے کا تعلق بھی انحرافی امور میں سے ہے لہٰذا یہ تمام امور بھی زور کی تعریف میں داخل ہیں۔ زور کے معنی بت کے بھی ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے۔ لفظ زور کے لغوی معنی ایک طرف جھکاہوا ہونے کے بھی ہیں جھوٹ کو اس لیے زور کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے۔

قرآن حکیم اور احادیث نبویہﷺ میں گناہوں پر وعیداور ممانعت کے انداز میں تبدیلی کی بنیاد پر علماء کرام نے گناہوں کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں (1) گناہ کبیرہ اور (2) گناہ صغیرہ۔ گناہ کبیرہ ہر اس جرم کو کہتے ہیں جس کی قرآن مجید اور حدیث نبویﷺ میں نہ صرف ممانعت بیان ہوئی ہو بلکہ عذاب جہنم کی وعید بھی ہو۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں جن کاموں سے شریعت اسلام نے منع کیا ہے ان کا جرأت اور بے باکی سے ارتکاب کرنا گناہ کبیرہ کی تعریف میں داخل ہے اگرچہ وہ چھوٹی خطا ہی کیوں نہ ہو۔ کبیرہ گناہوں میں بھی بعض ایسے خطائیں ہیں جو انتہائی سنگین ہیں جن کے ارتکاب کی وجہ سے انسان شدید مصائب و آلام اور اذیت و مشکلات سے دوچار ہوجاتا ہے انہی میں سے ایک جھوٹ بولنا بھی ہے جس کو گناہوں کا دروازہ کہا جاتا ہے چونکہ ایک جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے انسان کو کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بدترین گناہ کبیرہ ہے۔ اس کی وجہ سے انسان عبادت کی برکات سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ حضوراکرمﷺ نے فرمایا جو شخص روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ بولنا نہ چھوٹے اللہ تعالی کے پاس ایسے روزے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ حضرت سیدنا انسؓ سے مروی ہے حضورﷺ نے ایک مرتبہ کبیرہ گناہوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، معصوم جان کا قتل کرنا، پھر آپﷺ نے فرمایا ان کبائر میں سب سے بڑا گناہ تم کو نہ بتائوں پھر آپ نے فرمایا قول زور (جھوٹی بات) یا شہادۃ الزور یعنی جھوٹی گواہی فرمایا۔ (اخرجہ صحیحین)۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف مسلم معاشرے میں جھوٹ کا چلن عام ہے بلکہ مسلمان جھوٹ کی مختلف اقسام کا بھی شکار ہیں۔ آج کل حصول روزگار کے لیے نااہل افراد کی جھوٹی سفارش (Recommendation)کا چلن عام ہے جس کا ایک نقصان یہ ہے کہ قابل شخص اپنے حق سے محروم ہورہا ہے تو دوسرا نقصان یہ ہے کہ وہ نااہل شخص جس عہدے پر بھی فائز ہوگا اپنی کم علمی کی وجہ سے وہ اس کا حق ادا نہیں کرپائے گا جس کا نقصان سارے معاشرے اور ساری انسانیت کو ہوگا۔ مثلاً اگر کسی ایسے شخص کو جسے پیشہ طب کے بارے میں بنیادی معلومات بھی نہ ہو اگر اس کو جھوٹی سفارش کے ذریعہ ڈاکٹر بنا بھی دیا جائے تو وہ شخص سارے مریضوں کے لیے وبال جان بن جائے گا۔

آج مسلمان اسلام کے تصور حلال و حرام اور جائز و ناجائز کو بالائے طاق رکھ کر دفتروں سے مالی منفعت کے حصول کے لیے جعلی میڈیکل سر  ٹیفکیٹ پیش کررہے ہیں جو سراسر فریب اور دھوکہ ہے۔ اس طرح کے کام کرکے ہم نہ صرف جھوٹ کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ گناہ کو گناہ نہ سمجھنے جیسے سنگین جرم کا بھی ارتکاب کررہے ہیں۔ اسی طرح مسلم معاشرے میں جھوٹے مقدمات دائر کرنے کا چلن بھی عام ہے یہ ایک ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے جس کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ ہم سب اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ جھوٹی گواہی دینا جھوٹ بولنے سے زیادہ بدتر، شنیع اور خطرناک فعل ہے لیکن اس کے باوجود کریمنل کورٹ، سیول کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مسلمان ذاتی و دنیوی مفادات کے حصول کے لیے قسم کھا کھا کر جھوٹ بول رہے ہیں جبکہ اسلام نے مسلمانوں کو محض لوگوں کو ہنسانے اور معصوم بچوں کو بہلانے کی خاطر بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایاہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ مسلم وکلاء بھی اپنے موکلین کو عدالت میں جھوٹ بولنے کے نئے نئے طریقہ بتارہے ہیں جبکہ رحمت عالمﷺ نے جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قراردیا ہے (رواہ القسطلانی جلد 13صفحہ 38)۔ سورۃ الحج میں شرک کے فوری بعد جھوٹی گواہی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے چونکہ یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے۔ حضرت سیدنا قیسؓارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت  سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو فرماتے سنا اے لوگو! جھوٹ سے اپنے آپ کو بچائو کیونکہ جھوٹ ایمان سے الگ ہے۔ (مسند احمد)۔ جھوٹی گواہی دینے کو اسلام میں گناہ کبیرہ اور انسان کو ہلاک کردینے والی مذموم صفت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا جس نے جھوٹی گواہی دی اس نے اپنا ٹھکانا جہنم بنالیا ہے۔ اس کے باوجود مسلم معاشرے میں جھوٹ کا چلن عام ہے جس کی شاہد عدالتیں ہیں۔ عدالتوں میں دی جانے والی جھوٹی گواہی کا وبال یہ ہے کہ آج مسلمانوں کا کروڑہا روپیہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے، مسلمانوں کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے جس کا منفی اثر بچوں کی پرورش اور تربیت پر بھی پڑھ رہا ہے اور اس طرح ہمارے اس عمل سے اسلام کی رسوائی بھی ہورہی ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کے باوجود ہم اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں جبکہ رب کائنات واضح الفاظ میں بیان فرمارہا ہے جو جھوٹ بولتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور جس پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے وہ رحمت خداوندی سے محروم ہوجاتا ہے اور جو شخص رحمت کردگار سے محروم ہوجاتا ہے اس کی زندگی کا مصائب و آلام اور مشاکل ومسائل سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ جھوٹ کو لیکر مسلم معاشرے کی بے حسی، بے اعتنائی، بے توجہی اور لاپرواہی کا تو یہ عالم ہے کہ جو شخص زندگی بھر قسم کھاکر جھوٹ بولتا رہا جس پر عدالتوں نے بھی مہر ثبت کردی ہے، اس کے جھوٹ پر دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں ایسے شخص کے دنیا سے گزرجانے کے بعد اس کی مزار پر گنبد بناکر اس کا عرس منارہے ہیں۔ اس سے زیادہ بڑی بدبختی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ جبکہ قرآن مجید واضح الفاظ میں بیان کررہا ہے کہ اللہ کے ولی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ جھوٹ سے مجتنب رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم نااہل لوگوں کو ولی اس لیے سمجھ رہے ہیں چونکہ ہم باطن سے زیادہ ظاہر کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ پہلے انسان کا کردار دیکھ کر اس کی بزرگی کا اندازہ لگایا جاتا تھا لیکن اب مریدوں کی تعداد، درگاہ شریف کا رقبہ، گنبد، صوفیانہ لباس وغیرہ کی بنیاد پر شخصیت کی عظمت کو پرکھا جارہا ہے جو سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جس پر حسب ذیل بیان کردہ تاریخی حقیقت دلالت کررہی ہے۔

چودہویں ہجری میں سلفی و تکفیری دہشت گردوں نے شرک اور بدعت کے نام پر مدینہ طیبہ کی سب سے زیادہ مقدس و متبرک جگہ جنت البقیع اور اس کے احاطہ میں واقع مزارات پر بنے گنبدوں کو منہدم کردیا جہاں پر عالم اسلام کی عظیم ہستیاں یعنی اہل بیت اطہار، بنات رسول اللہﷺ، حضور اکرمﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ، آپؐ کی پھوپھیاں اور تقریباً 10,000 صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، علماء، صلحا، شہدا، اور اولیاء کرام کی کثیر تعداد آرام فرما ہے۔ اسلام کے خلیفہ ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی ذو النورین ؓکی مزار پر آج کوئی گنبد نہیں ہے لیکن اس کے باوجود آپ کو رب کائنات نے وہ مقام ذی شان و مراتب علیا سے سرفراز فرمایا ہے جہاں تک پہنچنا تو درکنار اس کی گرد کو چھونا تمام اغواث، اقطاب، اوتاد، نجباء اور ابدال کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا ہم ظاہری شان و شوکت کے بجائے باطنی خوبیوں پر نظر کریں اور بزرگوں کا لبادہ زیب تن کرکے جھوٹ بولنے والوں کو بے نقاب کریں کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اگر ایم ایسے جعلساز مکاروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کریں گے تو مسلمان اسی طرح رحمت کردگار سے محروم ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ ذلت و رسوائی کے دلدل میں زندگی گزاریں گے جیسا کہ موجودہ حالات ہیں۔

ہماری زندگی سے مصائب و آلام دور کرنا اور زندگی میں خوشحالی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم جھوٹ سے اجتناب کریں چونکہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ سے مروی ہے فرمایا آقائے نامدار رسول عربی ﷺ نے یقینا سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کرلیتا ہے اور بلا شبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے (بخاری شریف) اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ جھوٹ برائیوں کی جڑ ہے اور برائیاں قہر خداوندی کو دعوت دیتی ہیں۔ مذکورہ بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ تمام خامیاں ہمارے کردار میں موجود ہیں جس کی بنیاد جھوٹ ہے لیکن اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں جبکہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ جھوٹ بولنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ جھوٹ کو ترک کیے بغیر ہمارے تمام اعمال صالحہ بیکار اور عبث ہیں چونکہ عبادات قرب الٰہی کا ذریعہ ہے جبکہ جھوٹ قربِ الٰہی سے دوری کا سبب ہے۔

حضرت سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ میں نے خاتم پیغمبراں ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوا سنا کہ تین صفات ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ منافق ہے چاہے وہ روزے رکھے، نماز پڑھے، حج کرے، عمرہ کرے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے (اور وہ صفات ہیں ) جب امانت رکھی جائے تووہ خیانت کرتا ہے، بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ (الجامع الصغیر)۔

رب کی رحمتوں کے حقدار بننے کے لیے ہمیں اپنے کردار میں سدھار لانا ہوگا جس کا پہلا تقاضہ یہ ہے کہ ہم جھوٹ سے اجتناب کریں کیونکہ یہ ہماری آخرت کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ ایک دفعہ رسول محتشمﷺ سے دریافت کیا گیا کہ مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں پھر عرض کیاگیا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟ فرمایا ہاں۔ پھر سوال کیا گیا کیا مومن کذاب (جھوٹا) ہوسکتا ہے؟ فرمایا نہیں۔ لہٰذا ہمارے لیے ایمان کی سلامتی اور دنیوی و اخروی کامیابی کے حصول کے لیے جھوٹ سے اجتناب کرنا از حد ضروری ہے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔