جہاد اور روح جہاد کتاب وسنت کی روشنی میں

ڈاکٹرمحمد غطریف شہبازندوی

اسلام دین فطرت ہے۔ و ہ فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے۔ انسان کے دل کی آواز اور اس کی عقل ’وجدان‘ جذبات اور فطرت سب کو اپیل کرتا ہے۔ آزادیٔ فکر وشعور ہر انسان کو پسند ہے۔ کوئی انسان یہ نہیں چاہتاکہ کوئی چیز اس پر خارج سے تھوپ دی جائے۔ اس کی فطرت اس سے اِبا کرتی ہے۔اور اسلام نے اپنی ہر ہر تعلیم میں انسان کی اس فطرت کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ مذہبی آزادی کے سلسلہ میں اسلام کا اصول الاصول لااکراہ فی الدین(البقرہ:256) (دین میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے)۔ اس لحاظ سے جب قرآن کا مطالعہ ہم کرتے ہیں تو اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ملتی جو انسانی عقل وفطرت کے منافی ہو مگر روایات حدیث، فقہی آراء اور فکر اسلامی کے وسیع ذخیرہ میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو اشکالات سے خالی نہیں جن کو عقل عام قبول نہیں کرتی۔ ہمارے علماء وفقہا ودانشوران دوراز کار توجیہیں کرکے ان کو مطابق عقل کرنے کی اپنی سی کوششیں کرتے ہیں مگر بات کچھ بنتی نظر آتی۔ مثال کے طور پر اس بات کا دعویٰ ہر ایک کرتا ہے کہ اسلام آزادی ٔ ضمیر وآزادی ٔ دین ومذہب کا علمبردار ہے۔ پھر جب جہاد کی تشریح کرتے ہیں تو ایک گروہ کہتا ہے کہ جہاد کفر کے خاتمہ کے لیے ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر لااکراہ فی الدین کا اصول کہاں گیا۔

ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں کفر کا خاتمہ تو جہاد کا مقصد نہیں البتہ شوکت کفر کا خاتمہ ضرور مقصود ہے۔ یعنی اہل کفر کو کفر پر زندہ رہنے کی تو اجازت ہے مگر غالب پوزیشن میں نہیں ، بلکہ مغلوب وماتحت بن کر۔ لیکن اشکال سے خالی جہاد کی یہ توجیہہ بھی نہیں کہ جب آپ اصولاً اہل کفر کا اپنے کفر پر باقی رہنے کا حق تسلیم کرتے ہیں تو اپنے ملک وعلاقہ میں ان کو اپنے نظام پر چلنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے حق سے کس بنیاد پر محروم کردیں گے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں جبکہ اس فکر کے علمبردار امن عالم اور بقاء باہم کی باتیں بھی خوب کرتے ہوں ؟ تکثیریت اور تحمل برداشت اور Pluralسماج کے قائل بھی ہوں ؟ جہاد کے علاوہ ارتداد کی سزا پر بھی اسی طرح مختلف اشکالات وارد ہوتے ہیں جن کا اطمینان بخش عقل وروح کو مطمئن کرنے والا جواب روایتی اور موجودہ فکر اسلامی کے پاس نہیں ۔ جو جوابات بھی روایتی علماء، فقہ قدیم کے پرستار یا اسلام پسند حضرات دیتے ہیں ، وہ روایات حدیث اور فقہی آراء کی اساس پر دیتے ہیں اور ان دونوں پر پھر اشکالات ہیں جن کی توجیہ تاویلات بار دہ و تکلف کرکے کرنی پڑتی ہے۔ اس سلسلہ میں جن لوگوں نے مولانا مودودیؒ کاکتابچہ ’’مرتد کی سزا‘‘ پڑھا ہوگا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہیں گے کہ مصنف بڑے زور لگا لگاکر جو عقلی جواب ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے ہیں وہ خود نئے سوال کھڑے کردیتے ہیں ( اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ) ۔ تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ایک بنیادی وسنگین غلطی کا شکار ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے دین کے سلسلہ میں ہم قرآن پاک کو اصل مصدر وسورس نہیں بناتے۔ اور بجائے اس کے کہ ہر چیز میں اسی کو اپنے لیے حکم بنائیں کہیں اس پر روایات کو حاکم بنا ڈالتے ہیں اور کہیں فقہی آراء ومذاہب کو مسلط کر ڈالتے ہیں ۔ اپنے ہر سوال کا جواب اگر قرآن سے ڈھونڈیں تو ضرور کافی وشافی جواب ملے گا اور ہر اشکال ختم ہوجائے گا۔

حالیہ دنوں میں جہاد اور اس کے متعلقات پر کئی اچھی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ۔ عربی میں فقہ الجہاداز علامہ یوسف القرضاوی، اردومیں مولانا محمد عمار خان ناصراور مولانا یحییٰ نعمانی کی کتابیں ۔ اور بالکل تازہ بتازہ استاذ محترم مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کے گہربار قلم سے جہاد اور روح جہاد آئی ہے۔ 384صفحات پر مشتمل یہ کتاب جہاد اور اس کے تمام متعلقات سے جامع انداز میں بحث کرتی ہے۔ جہاد کیاہے اس کی روح کیا ہے۔ اس کے مقاصد، اس کے جواز اور اس کے ثمرات ونتائج کیا ہیں ، وہ کب فرض ہوتا ہے، اس کی شرائط کیا ہیں وغیرہ تمام مباحث کا جواب انہوں نے دیا ہے۔ اس کتاب کی اصل خوبی جو اسے دوسری تمام کتابوں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ مصنف نے بحث کی اصل صرف ا ور صرف کتاب اللہ کو بنایا ہے۔ جتنے اعتراضات، شبہات وسوالات پیدا ہوتے ہیں ان کا شافی وکافی جواب خود قرآن کی روشنی میں دیا ہے۔

مصنف حدیث وفقہ ، آرء سلف اور معاصر علماء کرام کی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہیں مگر قرآن کی روشنی میں ۔ ان کے ہاں ردوقبول کا اصل معیار صرف اور صرف یہی کتاب عزیز ہے۔ لہٰذا روایات ِ حدیث ، ائمہ فقہ کے مذاہب اور آراء سلف وغیرہ ان کی راہ میں روڑے نہیں بنتے۔ وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے اسیر نہیں لہٰذا قرآن کی روشنی میں وہ ساری وادیاں بآسانی قطع کرلیتے ہیں ۔

مصنف جہاد اقدام اور جہاد دفاع دونوں کے قائل ہیں مگر وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ جہاد نہ کفر کی وجہ سے ہوتا ہے، نہ شوکت کفر کو توڑنے کے لیے بلکہ صرف اور صرف جارح اور ظلم وجبر کرنے والے کافروں سے ہوتا ہے۔ مولانا نے تفصیل سے عام علماء وفقہا ء کے موقف اور مولانا مودودیؒ (بغیرنام لیے )دونوں کے موقف کا جائزہ لیاہے اور دونوں کو دلائل کی بنیاد پر رد کردیا ہے۔ (ملاحظہ ہو جہاد اور روح جہاد صفحہ 45تا 85) ’’وہ فرماتے ہیں مسلح جہاد کا مقصد ہے اس زمین سے ظلم واستبداد کو ختم کرنا اس دھرتی پہ بسنے والے انسان کی آزادی وعزت کی حفاظت کرنا‘‘ (صفحہ 88وہی کتاب)

اس سلسلہ میں ایک تیسرا موقف مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب جاوید احمد غامدی کا ہے کہ اتمام حجت اگر کسی گروہ پر کردی جائے تو پھر اس گروہ کو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی تلواروں سے سزا دلواتے ہیں ۔ اس موقف کی بنیاد سورہ برأت کی یہ آیت ہے: قاتلوہم یعذبہم اللہ بأ یدیکم ویخذہم وینصرکم علیہم (14)ترجمہ : ان سے لڑو اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کوسز ادلوائے گا اور انہیں ذلیل وخوار کرے گااور ان کے مقابلے میں تمہاری مدد کرے گا۔غامدی صاحب کی تشریح میں یہ نبی کے براہ راست مخاطبین کا حکم ہے۔ اب آپ کے بعد اس حکم کا اطلاق نہ ہوگا کیونکہ اب ویسے اتمام حجت کی کوئی شکل نہیں رہ گئی جیسا نبی کے ذریعہ ہوا کرتا ہے۔ مولانا سبحانی کہتے ہیں کہ قرآن میں اتمام حجت کے بعد بھی کوئی سزا بیان نہیں کی گئی اور جو سزا بیان کی گئی وہ آخرت سے متعلق ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں جہاد اصلاً حیروظلم کی قوتوں کے خلاف ہوتا ہے جو عام لوگوں کو اپنا غلام بنالیتی ہیں اور جو اللہ کے دین اور ان کے درمیان رکاوٹ بن جاتی ہیں ( دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ95)

جزیے کے سلسلے میں مولانا کی رائے یہ ہے کہ اس کو فکر اسلامی میں غلط طور پر لیا گیا ہے۔ وہ اس کا تعلق عوام سے ہے ہی نہیں وہ تو ایک ٹیکس ہے اور مغلوب حکومت سے لیا جاتا ہے نہ کہ عام لوگوں سے۔ مولانا کے جنگی قیدیوں کی نزدیک غلامی کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے قرآن اما منا بعد واما فدائً( محمد :4)دو ہی حکم جنگی قیدیوں کے بیان کرتا ہے( دیکھئے:276)کتاب میں مولانا نے بہت سے فقہا وعلما، مفسرین اور موجودہ مفکرین کے خیالات کو رد کیا۔ ان کے بعض اقوال تو نقل کردیے یں مگر نہ ان کا نام لیا ہے، نہ ان کی کسی تحریر کا حوالہ دیا ہے۔ شاید انہوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ خاکسار تبصرہ نگار کی رائے میں ان کا نام لینا اور تحریروں کا حوالہ دیا جانا بہت ضروری تھا، اس لیے کہ موجودہ دور میں عموماً جہاد کے بارے میں جتنے غلط رجحانات وتشریحات اور کنفیوژن پھیلا ہوا ہے وہ انہیں حضرات کی فکر وتحریروں سے پھیلا ہے ا س لیے اس مسئلہ میں کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہیے۔

صلح حدیبیہ:

صلح حدیبیہ اسلام کی تاریخ میں ایک Turning Pointہے۔ ا س میں مسلمان دفاع کی بجائے اقدام کی پوزیشن میں آگئے اور دعوتی سرگرمیاں بھی تیزی سے پھیلیں ۔ مولانا وحیدالدین خاں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے مگر وہ اس کا صرف ایک پہلو ذکر کرتے ہیں صلح والا۔ اس کے دوسرے مضمرات سے صرف نظر کرجاتے ہیں ۔ مولانا عنایت اللہ سبحانی نے اس پر مولانا خان صاحب کابغیر نام لیے دلائل کے ساتھ تعاقب کیا ہے  اور صلح حدیبیہ کی صحیح نوعیت کو واضح کیا ہے۔(ملاحظہ ہو صفحہ 185)

سیر ت نبوی میں بنو قریظہ کا واقعہ بہت مشہورہے کہ آپؐ نے بنو قریظہ کے تمام جنگ کرسکنے والے مردوں کو قتل اور عورت وبچوں کو غلام بنالیا تھا ۔ مستشرقین اور معاندین کو بڑا مسالہ اپنے معاندانہ پروپیگنڈے کے لیے اس واقعہ سے ملتا ہے۔ سبحانی صاحب نے اس واقعہ کی تحقیق کی ہے ، جن سندوں سے یہ مروی ہوا ہے ان کے راویوں کا جائزہ لیا اور درایتاً بھی اس پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کو کلیتاً مسترد کردیا ہے۔ (ملاحظہ ہوصفحہ 27) موجودہ دور میں حادثہ قریظہ پر اور تحقیقات پر منظرعام پر آئی ہیں ۔ ایک اور مصنف نے بھی اچھی دادتحقیق دی ہے۔ اپنی دوسری تمام تحریروں وتقریروں کی طرح مؤ لف نے صرف قرآن کریم اور صحیح احادیث کو اپنی بحث کی اصل بنیاد بنایا اور یہی اس کتاب کی اصل خوبی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ’’جہاد وقتال کے سلسلہ میں علماء کے ذوقی اجتہادات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے، چاہے وہ آج کے علماء ہوں یا پچھلے ادوار کے۔ ضروری ہے اس سلسلہ میں براہ راست قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ علماء وفقہاء کی بس وہی باتیں قابل قبول ہوتی ہیں جو قرآن وسنت کے محکم دلائل پر مبنی ہوں ۔ رہیں وہ رائے جو ان کے محض ذوق وفہم کی پیداوار ہوں تو اس طرح کے اہم معاملات میں وہ حجت نہیں بن سکتیں ‘‘۔(جہاد اور روح جہاد صفحہ 318)

مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کا مسئلہ:

ظالم مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کے مسئلہ میں اہل علم کی اکثریت کا خیال ہے کہ جب تک ان کی طرف سے کفر بواح کا ظہور نہ ہو خروج جائز نہیں ۔ امام نوویؒ اس کو اجتماعی رائے بتاتے ہیں ۔ تاہم امام ابوحنیفہ ؒ کا نقطہ ٔ نظر یہ تھا کہ اگر خروج کرنے والوں کے پاس مناسب حکمت عملی، کافی قوت اور متبادل نظم موجود ہو اور خروج کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں تو خروج کردینا چاہیے۔ یہی رائے مصنف کتاب نے بھی اختیار کی ہے۔ اور سلسلہ میں وارد کئی روایتوں پر سنداً اور درایتاً کلام بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو اجتماعی رائے اس مسئلہ میں بیان کی جاتی ہے وہ کوئی حتمی مسئلہ نہیں بلکہ وقتی علاج تھا کہ اس کو دائمی حکم ماننے کی صورت میں کبھی اصلاح احوال کی گنجائش نکلے گی ہی نہیں ۔

موجودہ دور میں کرنے کا کام:

موجودہ دورمیں اصل کام یہ نہیں کہ یوں ہی تلوار ہاتھ میں لے کر معصوموں کا قتل، خودکش بمباری وغیرہ جیسے غیراسلامی کام کیے جائیں ۔ اصلاح احوال کے سلسلہ میں پہلا کام ہے: فرزندان اسلام کی تعلیم وتربیت کا زبردست اہتمام، دوسرا یہ ہے کہ اسلام کی ایک دلکش تصویر لوگوں کے سامنے لائیں ۔ غلط فہمیاں دور کریں ۔ اور چونکہ آج طاقت کی علامت یا طاقت کا پیمانہ علم، سائنس اور جدید تکنالوجی ہے بغیر ان کے کوئی جنگ نہیں لڑ ی جاسکتی نہ کوئی صالح انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے، اس لیے علمی دوڑ میں بھرپور حصہ لیں اور علم وسائنس کے میدان میں دوسری قوموں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔ یہ علم وسائنس مسلم امت کی میراث ہے۔ یہ ہمارے بزرگ اسلاف کی ایجاد ہے، یہ علم وسائنس کتابِ الٰہی کا فیضان ہے(خلاصہ)

کتاب میں سیرت کے کئی جزوی واقعات مثلاً کعب بن اشرف کا قتل، عقبہ بن ابی معیط کا قتل، فتح مکہ کے موقع پر کئی لوگوں کے خون کو مباح کردینے کا قصہ وغیرہ بھی زیربحث آئے ہیں ۔ مولانا کی تحقیق عام سیرت نگاروں سے الگ ہے۔ اس کے علاوہ جہاد وقتال سے متعلقہ متعدد آیات کریمہ کی صحیح تاویل اور نئی تفسیر سامنے آتی ہے۔ کئی مباحث ایسے ہیں جن پر مزید تحقیق کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ کل ملاکریہ کتاب اس اہم موضوع پرنہایت علمی اور ہر خاص و عام کے لیے قابل مطالعہ ہے۔ مصنف کا اسلوب خالص علمی اور خشک تحقیقی نہیں بلکہ اس میں ادبی وتذکیری پہلو بہت ابھرا ہوا ہے اور انہوں نے لکھا بھی تفصیل واطناب کے ساتھ ہے۔ مگر غیر ضروری جزئیات اور تفصیلات سے دامن بچایا ہے۔ کتاب میں تفسیر، حدیث، فقہ وسیرت و تاریخ کے بہت سے واقعات ومباحث بھی مختصراً زیر بحث آگئے ہیں ۔ امید ہے کہ جہاد اور اس کے متعلقات پر اس کتاب سے نیاڈ سکورس شروع ہوگا۔ کیونکہ اس میں پہلی بار فقہاء و تحریکات اسلامیہ کے روایتی موقف جہاد پر تنقید کی گئی ہے۔ کتاب اہل فکر اور اہل تحقیق کو مزید غور وفکر اور بحث وتحقیق کی دعوت دیتی ہے۔

مناسب گٹ اپ میں ہدایت پبلشرزاینڈ ڈسٹری بیوٹرس ایف 155فلیٹ 204ہدایت اپارٹمنٹ شاہین باغ جامعہ نگر نئی دہلی ([email protected], 09891051676) نے یہ وقیع کتاب شائع کی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔