جہاد اور روح جہاد

ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی

(معروف اسلامی دانشور)

اسلام کے بنیادی تصورات اپنے اندر انقلاب کی حشر سامانیاں رکھنے کے باوجود بالعموم ایک خشک موضوع ہوا کرتے ہیں کیونکہ ان کا فہم، ادراک کی جن تنگنائیوں سے گزرتا ہے ان میں ہماری بہت سی دلچسپیاں اور وابستگیاں مسمار ہوتی نظر آتی ہیں۔ لیکن پیش نظر کتاب نے اس خشک موضوع کو انتہائی دلچسپ بنادیا ہے۔ آج سے کوئی چالیس سال قبل تحریک اسلامی سے متعارف ہوتے ہوئے اسلام کے پانچ ارکان کا تعارف جس روح اور پس منظر کے ساتھ سامنے آیا تھا وہ کسی انقلاب سے کم نہ تھا جس کے نتیجہ میں زندگی گویا جی اٹھی تھی۔ البتہ ان پانچ ارکان کی فہرست میں جہاد جب چھٹے رکن کی حیثیت میں ابھرنے لگا تو ایسا لگا کہ اسے ابھی تک اگر سازش نہیں تو کم ہمتی اور مصلحت کے تحت چھپایا گیا تھا اور یوں ہم بتدریج اپنے آپ کو خود تضادی کا شکار سمجھنے لگے تھے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد خود تضادی کے اس حصار کو توڑ کر وہ کچھ کر بیٹھی جس سے میرے خیال میں ایک پوری نسل دین کی حمایت کے عظیم الشان عمل میں مخمصے کا شکار ہوکر نڈھال ہوگئی۔اس پوری صورتحال میں تصورجہاد کے فہم کا ہی اصل رول تھا۔ ایسے لوگ کم نہ تھے جو قرآن و حدیث اور تاریخ و علماء کے اقوال کے ذریعہ جہاد کے بغیر تحریکی سرگرمیوں کو نہ صرف نا مکمل سمجھتے تھے بلکہ اس سوچ کے مخالف وابستگان کو غیروں کا آلہ کار تک بنادینے میں ذرا بھی تکلف سے کام نہ لیتے تھے۔ یہ دور تو اب گزرگیا لیکن اپنے پیچھے ایک ایسی نسل چھوڑگیا ہے جو کنفیوژن کا شکارہے اور نتیجے میں پژمردگی اور بے سمتی کا بھی۔

’جہاد اور روح جہاد‘ کی اصل خوبی یہی ہے کہ یہ مذکورہ نسل کو جواَب بوڑھی ہورہی ہے اس کنفیوژن سے نکالنے میں انتہائی کارگر ثابت ہورہی ہے۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ غلط فکر کو نمایاں کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کے ساتھ یہ جہاد کے اسکوپ کو بہت وسیع کردیتی ہے اور یہ کسی منطق کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرآن کریم کے فہم کی بنیاد پر ایساکرتی ہے۔احادیث پر ناقدانہ نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتی اور باور کراتی ہے کہ اجتماعی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود بھی ایک فرد ہمہ وقت روح جہاد سے سرشاررہ سکتا ہے۔

اس کتاب کے جن نکات نے مجھے متأثر کیا ہے وہ درجہ ذیل ہیں:

یہ نقطہ نظر صحیح نہیں ہے کہ جہاددین کے غلبہ کے لیے کیا جاتا تھا۔ اس کی اصل ظلم واستبداد سے انسانوں کو آزادی دلانا تھی۔ خود رسولؐ اﷲ کے زمانہ میں ہوا ہو یا خلافت راشدہ کے دور میں، جہاد ظلم اور ظالموں کے خلاف ہی کیا گیا، قرآن کریم اسی کا حکم دیتا ہے۔ ظلم دراصل انسانوں کے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے جن کی فراہمی اسلام کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، چنانچہ جہاں انسانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں وہاں جہاد ہوسکتا ہے تاکہ انسان اپنی راہِ حیات کو آزادانہ منتخب کرسکیں۔

جہاد کے سلسلے میں یہ اولین اور یقیناًانتہائی بنیادی وضاحت ہے اور جس اعتماد کے ساتھ مصنف نے یہ وضاحت کی ہے اور مختلف پہلوؤں سے کی ہے وہ قابل مصنف ہی کا حصہ ہے۔ اس وضاحت میں ممکنہ اشکالات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم سے جس طرح استدلال قائم کیا گیا ہے وہ انتہائی شاندار ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ جہاد کی روح خیر خواہی اور بہی خواہی پر مشتمل ہے۔ اس کا تعلق نہ مسلمان بنانے سے ہے، نہ مملکتِ اسلامیہ کی حدود میں اضافہ سے اور نہ جزیہ وصول کرنے اور لوگوں کو ذمی بنانے سے ہے۔ مصنف محترم اس بحث کا آغاز اس قرآنی اصول سے کرتے ہیں کہ دین میں زبردستی نہیں ہے، چنانچہ دین قبول کرانے کی غرض سے جو بھی جنگ ہوگی وہ جہاد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کفرو شرک کی بنیاد پر قائم حکومتوں کو زمین بوس کرنا تا کہ اﷲ کا دین غالب ہوسکے بھی قرآنی تصوّر کے مطابق جہاد ہے۔اس طرح جہاد کی شرائط کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاں ایک مضبوط حکومت یا نظام کو ضروری قرار دیا ہے وہیں شرکاءِ جہاد کی جن انفرادی صفات کا تذکرہ کیا ہے وہ قرآن کریم سے مأخوذ ہیں۔یوں جہاد دراصل دعوتِ اسلامی کی وسعت کا ایک اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور شرط جہاد کی تیاری سے متعلق ہے اورآج کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اہم اور دلچسپ موضوع ہے کیونکہ ہمارے دور میں صنعتی و تکنیکی اور دفاعی ترقیاں جس مقام پر پہنچ چکی ہیں اس پس منظر میں محض مساوی حدتک نہیں بلکہ مقابل سے بہتر استطاعت کا حامل ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ قوت صرف ملٹری استطاعت پر منحصر نہیں بلکہ صحت، زراعت، صنعت و حرفت، آسمانوں اور فضاؤں پر کنٹرول کی استطاعت پر بھی منحصر ہے۔ ملٹری کے علاوہ مذکورہ بالا میدانوں میں قوت کا حصول قوت کے مطلوبہ معیار پر پہنچانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ کوئی بھی اجتماعیت علمی و فکری اور فنی طاقت حاصل کیے بغیر وہ استطاعت حاصل کر ہی نہیں سکتی جو جہاد کی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔ ایک حدیث کے حوالہ سے محترم مصنف نے تیر کے بنانے والے، ان تیروں کو مجاہدوں کو فراہم کرنے والے اور ان تیروں کو استعمال کرنے والے ہر تین طرح کے افراد کو جنت میں د اخل ہونے والا قراردیا ہے۔

یہ محض ایک تیر کی بدولت ہے جو جہا د کی غرض سے تیار کیا گیا ہو۔ جہاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت مکمل طور پر آزاد ہو اور وہ کسی مرحلے میں دباؤ کا شکار نہ ہوسکے۔ چنانچہ محض دفاعی ہتھیاروں کی تیار ی کافی نہیں بلکہ دشمن کے مقابلہ میں زیادہ کارگر ہتھیار، زیادہ تعداد اور زیادہ مہارت کی بھی ضرورت ہوگی۔ اور محض اتناہی نہیں بلکہ، ذرعی، صنعتی، صحت و امراض سے متعلق ترقی اور وہ علوم اور فنون جو سوشل میڈیا کے ذریعہ عام انسانوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور گوگل جو تمام دنیا میں پھیلی ہوئی آبادیوں کے باریک ترین مقامات کے نقشوں کا ریکارڈ رکھتا ہے اور کسی بھی وقت اس صلاحیت کی بدولت وہ انسانی آبادی کے کسی بھی مقام تک رسائی حاصل کراسکتا ہے۔ان تمام صلاحیتوں کا اس طرح حاصل ہونا کہ بوقت ضرورت اپنے مقصد کے لیے استعمال کی جاسکیں بھی قوت کا ایک اہم پہلو ہے جو حاصل ہونا چاہیے۔

ان تمام علوم و ٹکنالوجی پر اس حد تک استطاعت کہ دوسری قوتیں ہمیں مجبور نہ کرسکیں، دور جدید میں جہاد کی اوّلین شرائط میں شامل نظر آتی ہیں۔ فاضل مصنف نے کتاب کے آخر میں جدید علوم بالخصوص سائنس اور ٹکنالوجی کے حصول کی اہمیت کی طرف بہت کھل کر اشارہ کیا ہے جو بڑا اطمینان بخش ہے۔ 

اس سلسلے میں جزیہ اور غلامی سے متعلق بعض وضاحتیں بڑی معنی خیز ہیں۔ مثلاً جزیہ کی اصطلاح کو جنگ میں شامل لوگوں تک محدود کرنا اور اس سے ملتی جلتی بعض دوسری توضیحات مباحثہ کے لیے نئے دروازے کھولتی ہیں۔ مصنف کا نقطہ نظر یوں بھی اہم ہے کہ مفتوحین پر اس نوعیت کا ٹیکس رسولؐ اﷲ کی آمد سے قبل بھی لگایا جاتا تھاجس کا تذکرہ محترم یٰسین مظہر صدیقی نے اپنے کسی مضمون میں کیا ہے جو تحقیقاتِ اسلامی میں چند سال قبل شائع ہوا تھا۔ اسی طرح غلامی کا مسئلہ بھی ہے،البتہ یہاں ایک سوال باقی رہتا ہے کہ تمام تر ترغیبات کے باوجود ایسا حکم کیوں نہیں دیا گیا کہ غلامی اب ختم کردی گئی۔ اگر یہ حکم انتہائی واضح ہوتا تو صحابہ کرام کے دور ہی میں اس کا خاتمہ کیا جا چکا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ غلامی، غلاموں اور باندیوں، ان کی اولادوں کے مسائل و احکام ہماری فقہ میں ایک بڑے حصہ کے طور پر آج بھی موجود ہیں۔

اسی طرح بنو قریظہ کے قیدیوں کا اجتماعی قتل اسلامی تاریخ کے ایک تقریباً متفق علیہ واقعہ کی حیثیت سے معروف ہے۔ فاضل مصنف نے اس سلسلے میں مضبوط علمی و فکری نکات کی بنیاد پر اس واقعہ کی صحت سے سرے سے انکار کیا ہے۔ اس واقعہ کے راویوں اور روایتوں کی صحت ایک طرف، یہ پورا واقعہ اسلام میں قیدیوں سے متعلق اصول کی نفی بھی کرتا نظرآتا ہے۔ دور جدید کی اجتماعی اخلاقیات کے پس منظر میں اس واقعہ پرتنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ البتہ ہمارے علماء اور مفکرین مختلف انداز میں اس واقعہ کی توجیہ بھی کرتے رہے ہیں، لیکن فاضل مصنف نے اپنے استدلال سے اس واقعہ کی نفی کی ہے۔ ان کے خیال میں اس واقعہ کی روایت ان سازشوں کا حصہ ہے جو اغیار نے رسولؐ اﷲ کے عمل کو متنازعہ بنانے کی نیت سے گھڑلیے تھے، لیکن اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو ان اعتراضات کا خاطر خواہ جواب ضرور ملنا چاہیے جو محترم مصنف نے اس کی صحت کا انکار کرتے ہوئے اٹھا ئے ہیں۔

بحیثیت مجموعی یہ کتاب اردو زبان کے اسلامی فکری لٹریچر میں ایک انتہائی قیمتی اضافہ تو ہے ہی، یہ ایک رخ متعین کرنے والی کتاب بھی ہے۔ تحریکی لٹریچر میں مولانا مودودی ؒ کی الجہاد فی الا سلام کی عظمت مسلّم ہے، اور یقیناًمسلمانوں کی فکری تعمیرمیں اس نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ گزشتہ چند دہائیوں میں جہاد سے متعلق ہمارے رویوں کی تشکیل میں بھی اس کا رول کم نہیں جس کا اظہار بیسویں صدی کے آخر میں مختلف گروہوں کی طرف سے ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس باب میں اگر مولانا کی فکر میں کوئی ارتقاء ہوا ہے توکیا اس کا اظہار الجہاد فی الاسلام کی جدید اشاعتوں میں کیا گیا ہے کہ نہیں؟

پوری کتاب پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جہاد کے پس منظر میں یہ کتاب ایک ایجنڈا ہے، جو ان تمام افراداور گروہوں کو اپنانا چاہیے جو اسلام کے احیاء اور اس دور میں اس کے اظہار اور اس کی اقامت کے لیے کوشاں ہیں۔ جہاد کے لیے ضروری صفات اور تیاری جن کا تذکرہ فاضل مصنف نے اس کتاب میں کیا ہے اس کے بہت سے پہلو ابھی ہماری پہنچ سے دور سہی لیکن روح جہاد کے تحت تیاری کے وہ تمام کام کیے جاسکتے ہیں جن کی طرف مصنف اشارہ کررہے ہیں اور جن کے لیے کسی حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کتا ب کے ٹائٹل میں جہاد کے ساتھ’’ روح جہاد‘‘ کی معنویت اس پس منظر میں بڑی نمایاں ہوکر ابھرتی ہے اور فاضل مصنف کے لیے دعاؤں سے دل لبریزہوجاتا ہے۔

اب سے کوئی ۳۵؍ سال قبل جب میں اور مجھ سے کہیں بہتر بعض دوسرے دوستوں نے طلبہ تحریک کے ایک اجتماعی فیصلہ کے تحت بعض دینی مقاصد کے لیے اپنے اپنے مخصوص میدانوں کونیا رخ دینے کا فیصلہ کیا تو چند سالوں ہی میںیہ اندازہ ہوگیا تھاکہ سائنسیات فکر اسلامی کا حصہ ہونے کے باوجود اسلامی فکری لہروں میں کہیں گُم ہوگئی ہے جس کی شناخت اب خاصا مشکل کام ہے۔ اور آج میں محسوس کرتا ہوں کہ گزشتہ طویل عرصہ کے دوران بقول ٹیگور میں اپنی بیناکے الجھے تاروں کو سلجھانے ہی میں سرگردا ں رہا ہوں، اصل نغمے کے سُر اور تال، تا حال پہنچ سے دور ہیں‘‘۔ اس نغمۂ مقصود کے لیے ’’جہاد اور روحِ جہاد‘‘ شاید وہ سُر عطا کرسکے جو میرے نغمے کی تکمیل کرے گا۔ میں یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ جہاد کی غرض و غایت جب ظلم و استبداد کا خاتمہ ہے، اور یقیناًہے تو یہ واضح رہے کہ تمام تر نعمتیں مہیا کرانے کے باوجود جدید سائنس و ٹکنالوجی کی بدولت ظلم و استبداد جدید شکل میں آج بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ محض دفاعی اور ملٹری سائنس نہیں بلکہ زراعت، صحت اور صنعتی، ماحولیاتی اور ٹکنالوجیکل ترقیوں نے ظلم و استبداد کے گہرے اور مہیب اندھیروں میں انسان کو جکڑ لیا ہے۔ ظلم و استبداد کی اس جدید ترین شکل کا ذریعہ سائنس و ٹکنالوجی بنی ہے۔ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کا تعلق سائنس کے استعمال سے ہے۔ استعمال سے تو ہے ہی، خود سائنسی سوچ اور فکر میں اور اس کے عمل میں بھی یہ ظلم پنہاں ہے، لیکن کیونکہ سائنسی ترقی نے نعمتوں کے انبار لگا دیئے ہیں اس لیے ظلم کی یہ جدید شکلیں دیر سے نظرآتی ہیں یا بالکل نظر ہی نہیں آتیں۔ لیکن اب سائنس کی عظیم الشان حصولیابیوں کے جلو میں نقصان عظیم کا یہ احساس بتدریج ہونے لگا ہے۔ یہ نقصان انسانی ذات، معاشرہ، سوسائٹی اور اس کائنات تک وسعت پذیر ہے۔

یہ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ گزشتہ سالوں میں کچھ کھویا نہیں بلکہ جہاد کی تیاری کی ہے۔ لگتا ہے کہ اب اس نغمہ کا سُرگرفت میں آنے کو ہے جس کے لیے چند دہائیاں قبل ہم نے فیصلے کیے تھے۔ مصنف محترم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ خدا کرے یہ پیغام دوسری ہندوستانی اور غیر ہندوستانی زبانوں کے ذریعہ بھی انسانوں تک پہنچے۔

کتاب: جہاد اور روح جہاد، مصنف:مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی  صفحات : 384 قیمت: 330، رابطہ کریں: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی، موبائیل اور وہاٹس اپ کے لیے: 9891051676، ای میل: [email protected]

تبصرے بند ہیں۔