جہانِ آرزو

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

محترم جناب محمد نجم الثاقب آرزوؔ (ولادت ۱۶؍نومبر ۱۹۵۸) بن الحاج محمد زکریا مرحوم دربھنگہ کی مشہور ومعروف بستی رسول پور نستہ کے رہنے والے ہیں، تعلیم کے اعتبار سے زولوجی میں ایم اس سی ہیں، لیکن شاعری اردو میں کرتے ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے قائم کردہ قاضی احمد ڈگری کالج جالے میں زولوجی کے پروفیسر ہیں، کاروبار اینٹ بھٹہ کا کر رکھا ہے، دیندارانہ مزاج اور شریفانہ اخلاق واطوار کی وجہ سے علاقہ میں معروف ومشہور ہیں، حق بولنا اور حق کے لئے لڑنا بھی جانتے ہیں، صلبی اولاد تو کوئی ہے نہیں، اللہ کی مرضی، اپنی شاعری کو ہی اپنی اولاد سمجھتے ہیں، کیونکہ ادب کی زبان میں یہ بھی ایک تخلیقی عمل ہے، حالاںکہ اصل خالق تو اللہ ہی ہے، مجازاً بہت سارے لفظوں کا اطلاق غلط صحیح دوسری چیزوں پر بھی کیا جانے لگا ہے، جناب آرزو کا ’’جہان آرزو‘‘ عرف کے اعتبار سے ایک شعری تخلیق ہے۔

ایک سو برانوے (۱۹۲) صفحات پر مشتمل ’’جہان آرزو‘‘ کا انتساب جناب آرزوؔ نے اپنے گاؤں رسول پور نستہ کے نام کیاہے، جس کی گود میں آرزو پلے بڑھے، یہ انتساب ان کی جائے پیدائش سے والہانہ محبت اور غیرمعمولی تعلق کا اظہار ہے، کتاب کا آغاز اپنی بات سے ہوتا ہے، جس میں شاعر نے اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور خاندانی احوال وکوائف بیان کئے ہیں، اسی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آرزوؔ کی شاعری کو آگے بڑھانے، پروان چڑھانے میں جناب نقی احمد رحمانی، ارم انصاری اور مشہور وباکمال شاعر اور محیر العقول شخصیت جناب ڈاکٹر عبد المنان طرزیؔ کا بڑا ہاتھ رہا ہے، عبد المنان طرزیؔ کے آرزوؔ تلمیذ رشید کہے جا سکتے ہیں، کیونکہ طرزی نے ’’جہان آرزو‘‘ میں شامل چند نعت، غزل اور نظموں کے نوک وپلک استاذانہ مہارت کے ساتھ سنوارے ہیں اور اس طرح یہ کتاب اشاعت کے مرحلہ تک پہونچی ہے۔

پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی مرحوم بھی سیال قلم کے مالک تھے انہوں نے حوصلہ افزائی کرکے بہتوں کو شاعر اور نقاد بنا دیا، نجم الثاقب آرزو کے بھی وہ ہاتھ لگ گئے اور انہوں نے پوری تنقیدی مہارت کے ساتھ آرزوؔ کی شاعری کا جائزہ لیا، یہ تنقیدی جائزہ ’’نجم الثاقب آرزوؔ کی غزلوں میں اظہار کی صورتیں‘‘ کے عنوان سے شامل کتاب ہے، اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ

’’نجم الثاقب آرزو کے یہاں غزل کے مقتضیات کا شعور اور اس کی روایت کو برتنے کا خیال کا ر فرمانظر آتا ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ محسوسات کے شاعر ہیں، انہوں نے آس پاس کے ماحول اور گرد وپیش کے سماجی ومعاشرتی حالات کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا ہے اور حالات کی نباضی کی ہے (ص:۱۷)

آگے لکھتے ہیں ’’نجم الثاقب کلاسیکی انداز بیان کے ساتھ نئے تلازمات اور نئے پیمانے کو اپنائے ہیں، ذات اور کائنات کو مخصوص میزان ومعیار پر پرکھتے ہیں ۔اوردو قبول کی منزل سے گذرتے ہیں( ص:۱۷)

اور بالآخر انہوں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’’نجم الثاقب آرزوؔ کی غزلوں میں جذبۂ طہارت کے مسائل اور اظہار کی صورتوں میں مطابقت پائی جاتی ہے ، بیش تر اشعار میں معانی کی گونج اس طرح سنی جاتی ہے جیسے سیپ میں سمندر کی آواز سنائی دیتی ہے، صوتی تاثر اور نفسیاتی توانائی کی ہم کاری بھی ان کے یہاں ملتی ہے‘‘ (ص:۲۰)

عبد المنان طرزیؔ جنہوں نے آرزوؔ کی شرط کے مطابق ناگزیر ہونے ہی پر ہی اشعار میں ہلکی تبدیلی کی ہے جس سے آرزوؔ کے جذبات واحساسات اور خیالات میں واضح تبدیلی نہیں آئی ہے، طرزی صاحب نے آرزوؔ کے کلام کے محاسن ومعائب پر جو گفتگو کی ہے، اس کے مطابق ان کی غزلوںمیں عشقیہ جذبات اور خالص تغزل کا گذر نہیں ہے، سیدھے سادے الفاظ میں پیکر تراشی کی گئی ہے، نثرسیل وتفہیم میں تعقید نہیں پایا جاتا، فلسفیانہ اور مفکرات خیالات، رمز واشارہ، کنایہ، تلمیح و استعارہ سے گریز کیا گیا ہے، البتہ تخیلات میں اخلاق کریمانہ اور اقدار حسنہ کی پاسداری پائی جاتی ہے، اس وضاحت کے بعد طرزیؔ صاحب نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ بجا ہے کہ اسلوب بہت حد تک عالمانہ اور شاعرانہ نہیں ہے، آرزو صاحب اردو وادب کے طالب علم نہیں رہے، اس لئے ان سے عالمانہ اسلوب کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی، ان کا جو طرز بیان ہے وہ ان کی اردو دانی کے دائرے میں ہے‘‘ (ص:۲۳)

خود آرزوؔ نے اسی مجموعہ کے ایک نظم میں واضح کردیا ہے کہ  ؎

اپنے فن کے بارے میں ہے ایک وضاحت لازمی

میں نے سیدھے سادے لفظوں میں کی ہے شاعری

واسطہ ہے دینی اور اخلاقی قدروں سے مرا

اور سلوک اہل حکومت کا بھی موضوع بن گیا

گیسو ورخسار میرے فن کی دولت ہے نہیں

اور ہجر ووصل کی تلخی، مسرت ہے نہیں 

در اصل آرزوؔ سچی شاعری کو پسند کرتے ہیں اور سچی شاعری میں منافقت نہیں ہوتی کہ دل میں کچھ ہے اور زبان پر کچھ ،چوں کہ آرزوؔ کے خیالات اسلامی اقدار وافکار سے ماخوذ ہیں، اس لئے ان کا اسلوب سادہ ہو گیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا شمار ان شعراء میں نہ ہو جنہیں ٹامک ٹوئیاں مارنے والا قرار دیا گیا ہے اور جن کی کہنی اور کرنی میں فرق ہوتا ہے، آرزوؔ اپنی شاعری میں سچ کی آواز بلند کرتے ہیں اور حکومت کے طریقہ کار پر سچے انداز میں تنقید کرتے ہیں، اسے نقادوں کی اصطلاح میں عصری حست سے تعبیر کیا جاتا ہے، گو عصری حست کا دائرہ صرف حکمرانوں پر تنقید سے عبارت نہیں ہے، اس کے دائرہ میں، آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں، دماغ جو محسوس کرتا ہے، سب سما جاتا ہے، یہ صحیح ہے کہ آرزو کے یہاں شوکت الفاظ، ندرت خیال اور ادبی صنعتوں کا گزر نہیں ہے، تخیلات اعلیٰ وارفع ہیں، لیکن شوکت الفاظ کی کمی نے اسے عام سا بنا دیا ہے، اس اعتبار سے فکری ترفع کے باوجود ان کی شاعری فنی اعتبار سے کمزور معلوم ہوتی ہے، ادب نہ تو بنیے کا روز نامچہ ہے اور نہ ہی مولانا صاحب کی واعظانہ نصیحت، ادب کو ان دونوں سے اوپر ہونا چاہئے، نہ تو بنیے کے روزنامچہ کی طرح خشک اور کھردے اعداد وشمار ہوں اور نہ ہیئت واسلوب کے اعتبار سے وعظ،ادب میں کیا کہا جارہا ہے کی اصل اہمیت ہے، لیکن ہم ہیئت، فورم اور ادبی سلیقگی کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔

’’جہانِ آرزو‘‘ ایک حمدایک نعت، ایک وضاحت ، باسٹھ غزلوں اور پندرہ نظموں پر مشتمل ہے، طباعت، روشان پرنٹرس دہلی اور اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کی ہے۔ دو سو روپے دے کر ارشاد بک ڈپو دربھنگہ بُک گیلری قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے منگا سکتے ہیں۔ لائبریری کے لئے لینا ہو تو پچاس روپے مزید نکالنے پڑیں گے۔ نمونۂ کلام

اپنے دشمن ہی پہ ہم جان فدا کرتے ہیں

ہائے نادان بھی ہم کیسے ہیں کیا کرتے ہیں

ہم تو اس کو بھی سمجھتے ہیں ترا کوئی فریب

تجھ سے تعریف اگر اپنی سنا کرتے ہیں

تم کو آتا نہیں کچھ کرنا بُرائی کے سوا

ہم کو آتا ہے بھلا کرنا، بھلا کرتے ہیں

آپ میں، ہم میں جو ہے فرق فقط اتنا ہے

ہم وفا کرتے ہیں اور آپ جفا کرتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔