جہنم کا وجود اور اس کا سائنسی ثبوت

ڈاکٹر احید حسن

قرآن کریم میں مذکور ہے:

’’ لیکن اگر تم یہ نہیں کرسکتے ہو اور تم یہ کبھی کبھی نہیں کر پاؤگے تو پھر اس آگ کا خوف کرو جس کا ایندھن انسان  اور پتھروں کا ہے اور وہ کافروں کے لئے تیار ہے۔‘‘(2:24)

انسانوں اور پتھر جہنم کا ایندھن کیسے ہو سکتے ہیں؟  انسانوں اور پتھروں کا ایندھن کے طور پہ استعمال کرنے کے لئے جہنم بہت زیادہ درجہ حرارت کیسے پیدا کر سکتی ہے؟ اگر ہم سائنسی طور پر قرآن کی اس آیت کا تجزیہ کرتے ہیں تو پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے سورج جیسے چھوٹے اور درمیانی جسامت کے ستاروں میں ہائیڈروجن کے دو جوہر یا ایٹم عمل ایتلاف یا Fusion reaction کے ذریعے مل کرہیلیم پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ بڑے ستاروں میں ہیلیم تعاملات کے ایک چکر میں تیار کیا جاتا ہے جس میں کاربن عمل انگیز یا Catalyst کا کردار ادا کرتی ہے  ,اس عمل کو  کاربن نائٹروجن آکسیجن سائیکل(CNO cycle) کہا جاتا ہے۔  ,سی این او سائیکل (کاربن نائٹروجن آکسیجن کے لئے) فیوژن یا ایتلافی تعاملات کے دو معروف عوامل  میں سے ایک ہے جس کے ذریعے ستارے ہائیڈروجن کو ہیلیم میں بدلتے ہیں، یہ عمل ان ستارے میں غالب ہے جو سورج سے 1۔3 گنا بڑے ہیں۔ CNO سائیکل میں چار پروٹان یعنی چار ہائیڈروجن ایٹم کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن کو عمل انگیز یا Catalyst کے طور پہ استعمال کرتے ہوئے، ایک الفا ذرہ یا ہیلیم، دو پازیٹران اور دو الیکٹرون نیوٹرینو پیدا کرتے ہیں۔ اگرچہ سی این او سائیکلوں میں متعدد طریقے اور عمل انگیز موجود ہیں لیکن یہ تمام چکر ایک ہی نتیجے پہ ختم ہوتے ہیں۔ پازیٹران فوری ٹوٹ جاتے ہیں اور ساتھ ہی توانائی گاما کرنوں( Gamma rays) کی شکل میں خارج ہوتی ہے۔ستارے سے  نیوٹرینو  کچھ توانائی سمیت خارج ہوجاتے ہیں۔ ایک نیوکلیس یا مرکزہ لامتناہی عوامل کے ذریعےکاربن، نائٹروجن، اور آکسیجن میں بدل جاتا ہے۔

اس نقطے پر غور کریں۔جب قرآن کا کہنا ہے کہ ٫٫جہنم کے ایندھن انسان اور پتھر ہیں،، تو یہ مکمل طور پر سچ ہے۔ کیمیائی طور پہ انسانی جسم میں 16 بڑے عناصر شامل ہیں جن کو حیاتیاتی عناصر یا  بائیو ایلیمنٹس کہتے ہیں جن میں کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن بہت زیادہ ہیں۔قرآن کریم کا کہنا ہے کہ یہ ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن اور کاربن پر مشتمل انسان جہنم کے ایندھن ہیں اور جب ہم اسے سائنسی طور پر دیکھتے ہیں، تو یہ واضح ہے کہ یہ عناصر آگ یا ستاروں کی بہت بڑی گیندوں کے بنیادی ایندھن ہیں۔ جہنم  ستاروں کی طرح آگ کی بہت بڑی گیند ہے لیکن اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہے۔ جب یہ انسانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہے، تو یہ ان کے جسم میں موجود ہائڈروجن سے پروٹون پروٹون فیوژن کے ذریعہ ہیلیم تشکیل دیتا ہے اور یہ ان انسانوں کے جسم میں موجود کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن کا استعمال کرتے ہوئے کاربن نائٹروجن آکسیجن سائکل کے ذریعے مزید  ہیلیم بھی پیدا کرتی ہے۔ اگر ہم اس سائنسی وضاحت کو ذہن میں رکھیں تو، 1400 سال پہلے قرآن کریم کی یہ وضاحت  مکمل طور پہ سائنسی ہے جو کہ ایک معجزہ ہے۔

مکمل طور پر قائم ستاروں میں جن کا مرکز یا کور 100 ملین کیلون اور ماس یا کمیت 0۔5 اور 10 ایم ایل کے درمیان ہے،ان میں ہیلیم کو ٹرپل الفا پروسیسنگ کے ذریعے کاربن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جو وسطی ایٹمی عنصر بریلیم کا استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا یہ آگے اور پیچھے (ریورس رد عمل) ہے جس میں ہیلیم کاربن اور انسانوں میں موجود کاربن جہنم کے ایندھن کے طور پہ ہیلیم میں تبدیل کیا جاتا ہے اور یہ بات مکمل طور پر قرآن کی وضاحت کوثابت کردیتی ہے۔

بڑے ستاروں کور میں نیون احتراقی عمل اور آکسیجن احتراقی عمل کے ذریعہ بھاری عناصر کو جلا دیا جا سکتا ہے۔  نیون جلانے کا عمل بڑے ستاروں میں ہوتا ہے جن کی کمیت سورج سے آٹھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے زیادہ بلند درجہ حرارت اور کمیت یعنی سو کلو الیکٹران وولٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے کچھ نیون نیوکلیس ٹوٹ کر الفا ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں جب کہ پہلے مرحلہ میں استعمال شدہ نیون دوسرے مرحلے میں دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ عمل تب استعمال ہوتا ہے جب کاربن کے احتراقی عمل سے کور یا مرکز میں موجود ساری کاربن استعمال ہوچکی ہو اور ایک نئی آکسیجن نیون سوڈیم میگنیشیم کور بنتی ہے۔ کور میں موجود فیوژن توانائی کی پیداوار ختم ہو جاتی ہے۔ یہ کور کا سکڑاؤ کثافت اور درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔اس طرح کور کے ارد گرد بڑھتا ہوا  درجہ حرارت کاربن کو شیل میں جلانے کی اجازت دیتا ہے، اور کور  سےباہر ہیلیم اور ہائیڈروجن کے جلنے کا عمل جاری رہتا ہے۔  نیون جلانے کے دوران آکسیجن اور میگنیشیم مرکزی کور میں جمع ہوجاتے ہیں۔چند سالوں بعد ستارہ اپنی تمام نیون کو استعمال کرلیتا ہے اور کور فیوژن توانائی کی پیداوار کو ختم کردیتی ہے۔  ایک بار او ثقلی دباؤ یا Gravitational  کام لیتا ہے اور مرکزی کور کو دباتا جس سے کے کثافت اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ آکسیجن جلانے والے عمل دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں۔جب آکسیجن احتراقی عمل بھی ختم ہوجائے تو سلیکون احتراقی عمل شروع ہوجاتا ہے۔اس عمل کے دوران ستارے کے مرکز میں لوہا پیدا ہوتا ہے لیکن یہ لوہا مزید تعاملات کرکے توانائی پیدا نہیں کر سکتا۔لہٰذا ستارے میں سب سے اندر سلیکان احتراقی عمل اس کے باہر کاربن احتراقی عمل،اس کے باہر نیون احتراقی عمل، اس کے باہر کاربن اور اس کے باہر ہائیڈروجن احتراقی عمل وقوع پزیر ہوتے ہیں۔

حتمی مرحلہ سلکان جلانے والا عمل ہے جس میں  آئرن 56 کی پیداوار ہوتی ہے۔ اب یہاں ایک اہم نقطے پہ غور کریں۔ بہت سے پتھروں میں سلیکا ہوتا ہے جو کہ سلکان اور آکسیجن کا ایک مرکب ہے جو قشر ارض یا ارتھ کرسٹ کا 74۔3 فیصد بناتا ہے۔پتھروں اور معدنیات میں سلکا کا تناسب ان کے نام اور خصوصیات کا تعین کرنے میں ایک بڑا عنصر ہے۔ قرآن کریم نے پتھروں کو جہنم کے ایندھن کے طور پر بیان کیا ہے اور سائنس کے مطابق، پتھروں میں سلیکیٹس شامل ہیں اور سلکان جلانے والے عمل  ستاروں میں واقع ہوتے ہے جو غیر معمولی اعلٰی درجہ حرارت پیدا کرتی ہے۔ اور  پتھروں میں موجود  سلیکان اور آکسیجن ،آکسیجن اور سلکان جلانے کے عمل کو چلاتے ہیں۔لہذا قرآن کا بیان کہ جہنم کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں مکمل طور پہ درست ہے۔ اور جب قرآن کہتا ہے کہ جہنم کے لوگوں جہنم کے درختوں کے کانٹے کھانے کے لیے دیے جائیں گے تو قرآن کی یہ بات بھی غلط نہیں ہے,کیونکہ خود ناسا کے مطابق سورج پہ آگ سے بنی زندگی موجود ہوسکتی ہے۔

اس ساری بحث  سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی طرف سے جہنم میں  انسانوں اور پتھروں کے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے کا بیان انتہائی گرم ستاروں میں ہونے والے  پروٹون پروٹون فیوژن، کاربن نائٹروجن آکسیجن سائیکل، آکسیجن احتراقی عمل اور سلکان احتراقی عمل یا Silicon burning process سے مکمل طور پہ ثابت کیونکہ انسان اور پتھر دونوں ان بنیادی عناصر پہ مشتمل ہیں جو ان انتہائی گرم ستاروں کا بنیادی ایندھن ہیں۔یہ وضاحت آج سے 1400 سال پہلے ایک کتاب قرآن کی طرف سے بیان کی گئی ہے جب ستاروں کے حوالے سے ہمیں بنیادی سائنسی معلومات بھی نہیں تھیں،یہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کا انکار ناممکن ہے اور تمام تعریف اللہ تعالی کے لیے ہے جو سب جہانوں کارب ہے، اور وہی خدا ہی سب سے بہتر جانتا ہے۔

ھذا ما عندی۔ واللٰہ اعلم بالصواب۔ الحمداللہ

حوالہ جات:

https://www۔google۔com/amp/s/www۔theonion۔com/scientists-theorize-sun-could-support-fire-based-life-1819575858/amp?espv=1
Eid, M۔ F۔ El, B۔ S۔ Meyer, and L۔‐S۔ The۔ "Evolution of Massive Stars Up to the End of Central Oxygen Burning۔” ApJ The Astrophysical Journal 611۔1 (2004): 452-65۔ Arxiv۔org۔ 21 July 2004۔ Web۔ 8 Apr۔ 2016۔
Hirschi۔ “Evolution and nucleosynthesis of Very Massive Stars۔” arXiv:1409۔7053v1 [astro-ph۔SR] 24 Sep 2014
Clayton, Donald۔ Principles of Stellar Evolution and Nucleosynthesis, (1983)
Salaris, Maurizio; Cassisi, Santi (2005), Evolution of stars and stellar populations, John Wiley and Sons, pp۔ 119–121,ISBN 0-470-09220-3
Woosley, Heger, and Weaver۔ “The evolution of massive stars۔” Reviews of Modern Physics, Volume 74, October 2002
Caughlan and Fowler۔ "Thermonuclear reaction rates”۔ Atomic Data and Nuclear Data Tables, 40, 283-334 (1988)۔
Eid, M۔ F۔ El, B۔ S۔ Meyer, and L۔‐S۔ The۔ "Evolution of Massive Stars Up to the End of Central Oxygen Burning۔” ApJ The Astrophysical Journal 611۔1 (2004): 452-65۔ Arxiv۔org۔ 21 July 2004۔ Web۔ 8 Apr۔ 2016۔
Wilson, James Robert (1995), A collector’s guide to rock, mineral & fossil localities of Utah, Utah Geological Survey, pp۔ 1–22, ISBN 1557913366, archived from the original on 19 November 2016۔
Wallerstein, G۔; et al۔ (1999)۔ "Synthesis of the elements in stars: forty years of progress” (PDF)۔ Reviews of Modern Physics۔ 69 (4): 995–1084۔ Bibcode:1997RvMP۔۔۔69۔۔995W۔doi:10۔1103/RevModPhys۔69۔995۔ Retrieved 2006-08-04

تبصرے بند ہیں۔