جے این یو پر نیا حملہ

فیضان الحق

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ریسرچ کی دنیا میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ اور جہاں تک میرا ماننا ہے یونیورسٹی کو ریسرچ کے اس بلند معیار پر فائز کرنے میں سینٹرل لائبریری کا بڑا ہاتھ ہے۔ جے این یو کی سنٹرل لائبریری جسے حال ہی میں بابا بھیم راؤ امبیڈکر لائبریری کر دیا گیا ہے نہ صرف کتابوں کا مرکز ہے بلکہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے کیلئے ایک پر سکون جگہ بھی ہے۔ لائبریری ایک وسیع مربع شکل میں تعمیر کی گئی ہے جسمیں مرکز کی اوپری منزلیں نسبتا کم چوڑی رکھی گئی ہیں اور چاروں طرف محض ایک فلور یا دو فلور بنا کر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ لائبریری کی مرکزی عمارت نو منزلوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے ایک وسیع چبوترے پر کوئی اونچی تعزیہ  رکھی ہوئی ہے۔ لائبریری کے چاروں طرف کا نچلا حصہ ریڈنگ ہال کیلئے مخصوص ہے۔ مغرب کے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی دائیں اور بائیں جانب دو بڑے ریڈنگ ہال ہیں۔ جو پوری طرح ائر کنڈیشن ہیں۔ بائیں جانب ہی سائبر لائبریری بھی ہے جہاں سیکڑوں کمپوئٹر رکھے ہوئے ہیں، طلبہ وہاں سے بھی آسانی کے ساتھ استفادہ کر سکتے ہیں۔

لائبریری کے عقب میں داہنی جانب ایک اور ریڈنگ روم ہے جسے ”دھول پور” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تفصیل پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ابھی تک دو ریڈنگ ہال میں اپنی کتابیں لے جانے کی پوری آزادی تھی۔ ایک ”دھول پور” اور دوسرے لائبریری کی بائیں جانب اے سی  والے ریڈنگ ہال میں۔ تمام طلبہ ان ریڈنگ ہالس میں اپنی کتابیں لے جا کر مطالعہ کرتے تھے۔ کیونکہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہم جو چیز پڑھنا چاہ رہے ہیں وہ لائبریری میں موجود ہی ہو۔ ہاں البتہ اس کی ہر طالب علم کو ضرورت ہے کہ اسے پڑھنے کیلئے پر امن ماحول ملے۔ اور یہ ماحول جے این یو کی لائبریری میں موجود ہے۔جو کہ خود وہاں کے طلبہ کا پیدا کیا ہوا ہے،اس میں کسی زور زبردستی اور پابندیوں کا دخل نہیں ہے۔ ورنہ بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ جہاں قانون بنے ہوتے ہیں وہیں انکی پامالی بھی ہوتی ہے۔ ایسے پر امن ماحول میں پڑھنے کی ہر سنجیدہ طالب علم کی پہلی خواہش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اے سی والے ریڈنگ ہال میں جگہ لینے کیلئے صبح نو بجے سے پہلے ہی لائن لگ جاتی تھی۔ خود میرا یہ تجربہ ہے کہ اگر وقت پر پہنچنے میں ذرا بھی تاخیر ہوئی تو سیٹ ملنا ناممکن ہوجاتا تھا۔

یہ ریڈنگ ہال ہمہ وقت کھلے رہتے تھے۔ اور کبھی بھی کوئی بھی اپنی کتابیں لے جا کر پڑھ سکتا تھا۔ مگر حال ہی میں جے این یو کے وی سی ایم جگدیش کمار کی جانب سے ایک نیا فرمان جاری ہوا ہے جس کے مطابق کوئی بھی طالب علم ائر کنڈیشن ریڈنگ ہال میں اب اپنی کتابیں لے کر نہیں جا سکتا۔ اس فیصلے کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ سواۓ اس کے کہ اپنا ہی ماتھا پیٹ لیا جائے۔ جب یہ بات واضح ہے کہ ریڈنگ ہال کے دروازے بالکل الگ ہیں اور وہاں سے لائبریری کی کتابوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے تو پھر اس فرمان کی کیا وجہ ہے۔ کیا وی سی صاحب اس بات کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ وہ ہر طالب علم کو اسکی ضرورت کے مطابق مواد فراہم کریں گے۔ اور اگر مان لیا جائے وہ مواد فراہم کر بھی دینگے تو کیا ان کتابوں پر نشان لگانے، مارک کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق نوٹ چڑھانے کی بھی اجازت ہوگی؟ ظاہر سی بات ہے وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے۔ ایک قدم اور آگے بڑھ کر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وی سی صاحب کتابوں پر حاشیہ چڑھانے، مارک کرنے وغیرہ کی اجازت دے بھی دینگے تو کیا وہ اس بات کی گارنٹی لیتے ہیں کہ ہر دن طالب علم کو وہی مواد، وہی کتاب فراہم کی جائیگی جس پر اس نے کل مارک کیا تھا؟ یہ سب ناممکنات میں سے ہے۔

جے این یو کی علمی فضا میں میں نے دو سال گزارے ہیں اور میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ یو پی ایس سی اور کمپٹیٹو اکزام کی تیاری کرنے والے تمام طلبہ اپنا مواد اور اپنی ذاتی کتابیں لے جا کر ریڈنگ ہال میں مطالعہ کرتے ہیں۔ صرف انہیں کی بات نہیں بلکہ ہر ریسرچ اسکالر اپنے مواد کی کتابیں اپنے پاس رکھتا ہے اور انہیں سے استفادہ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں ذاتی کتابوں کا ریڈنگ ہال میں لے جانے سے منع کرنا کہاں کی عقلمندی اور کس فلسفی کا مشورہ ہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ ممکن ہے ایڈمنسٹریشن کی جانب سے یہ توجیہ پیش کی جائے کہ دھول پور میں کتابیں لے جانے کی اجازت ہے۔ لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔ اس ریڈنگ ہال میں شدید گرمی اور شدید سردی کو برداشت کرنا کتنا مشکل ہوگا جبکہ وہ اے سی سے خالی ہے۔ اور اگر ایک لمحے کیلئے مان لیں کہ طلبہ اس سرد گرم کو جھیل لینگے تو کیا تمام اسٹوڈنٹس اس ایک ریڈنگ ہال میں سما جائنگے؟

 ایڈمنسٹریشن یہ توجیہ بھی پیش کر سکتا ہے کہ یہاں لیپ ٹاپ لے کر اندر آ سکتے ہیں، اور ساتھ میں لائبریری کی کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کتنے فیصدی طلبہ کے پاس اپنا لیپ ٹاپ موجود ہے؟ اور اگر ہے بھی تو اسکی کیا گارنٹی ہے کہ ان کی پڑھائی سے متعلق مواد بھی آن لائن دستیاب ہے؟ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو سمجھ سے بالکل پرے ہیں۔

جے این یو ایک مدت سے باطل طاقتوں کے نشانے پر ہے اور یہاں کی فضا میں سوال اٹھانے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینے کی جرأت بہت سے لوگوں کو کھلتی آئی ہے۔ کہیں یہ تمام کوششیں اسلئے تو نہیں کہ یہاں کے طلبہ کو نئے نئے فرمان جاری کر کے گھریلو مدوں ہی میں الجھا دیا جائے، تاکہ وہ ملک اور بیرون ملک ہو رہی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی مہلت ہی نہ پا سکیں۔ اور انہیں یونیورسٹی کے ہی مسائل میں الجھا دیا جائے تاکہ وہ ملکی مسائل پر سوچنے کی فرصت ہی نہ پا سکیں؟

چمن جے این یو کا ہر بلبل اس چمن کا آپ نگہبان ہے۔ باغبانی بھی اسے ہی کرنا ہے اور عطر بیزی و گلفشانی بھی اسی کا حصہ ہے۔ صیاد دام پر دام بچھانے میں لگا ہوا ہے۔ اب پھندے سے نکلنے کیلئے انہیں اپنے قوت بازو کی بھی ضرورت ہے اور ملک کے ان تمام بہی خواہوں کی ہمدردی، ساتھ اور تعاون کی بھی جو اس ملک کو جنت نشان دیکھنا چاہتے ہیں۔

یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق 

نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی 

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول 

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی 

اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے 

ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے

( فیض)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. شمس ودود کہتے ہیں

    زندگی کا ایک نیا رخ جہاں سے دریافت ہوتا ہے اگر اسی ماخذ کوزمیں بوس کردیا جائے تو ساری بلائیں از خود دفن ہو جاتی ہیں… جے این یو کو ان دنوں اسی طرز پر برباد کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جن کیلئے اگر آوازیں ابھی سے نہ آئیں تو بہت مشکل ہوگی…
    چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی…

تبصرے بند ہیں۔