کون کر رہا ہے بھیڑ کو تشدّد پر آمادہ؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

فرقہ وارانہمنافرت کی سیاست کا خوفناک نتیجہ بلند شہر میں دیکھنے کو ملا۔ اس سانحہ نے سماج کے سامنے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آخر کون بھر رہا ہے بھیڑ میں نفرت؟ جس کی وجہ سے وہ ظلم و تشدّد پر آمادہ ہو رہی ہے۔ اسے قانون تک کا خوف نہیں ہے۔ کبھی گائے تو کبھی بچہ چوری کے نام پر ہتھیاروں کے ساتھ بھیڑ اچانک کسی بے گناہ پر کیوں ٹوٹ پڑتی ہے۔ بھیڑ کہاں سے آتی ہے؟ کون ہے جو اسے ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ بندوقیں نہ ہوں تو لاٹھی، ڈنڈے، تلوار، ترشول، پتھر کو ہتھیار بنا لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم کسی ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں قانون، انتظامیہ اور انصاف نافذکرنے والے اداروں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ پچھلے تین چار سال میں ہندوستانی سماج ہجومی تشدد کے کتنے ہی واقعات کا گواہ بن چکا ہے۔ زیادہ تر معاملوں میں حملہ آوروں کو بچانے اور متاثرین کو پھنسانے کی شکایتیں سننے کو ملی ہے، لیکن بلند شہر میں تو بھیڑ گائے کو لے کر اتنی متشدد ہو گئی کہ اس نے پولیس انسپکٹر پر ہی گولی چلادی۔

 بلند شہر کا یہ سانحہ اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ جن کا جواب ملنا ابھی باقی ہے۔ مثلاً یہ واقعہ عین اس دن کیوں پیش آیا جب تبلیغی اجتماع سے لوگ واپسی کر رہے تھے؟ کٹے ہوئے جانور کے باقیات کو کھیت میں ڈالا گیا جبکہ اس کے اعضاء کوکنویں پر لٹکایا گیا، کیوں؟ دیگر پولیس اہلکار انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کو اکیلا چھوڑ کر کیوں بھاگ گئے؟ پریم جیت سنگھ اور راج کمار جن کے کھیت میں ہڈیاں اور گائے یا بیل کے آثار ملے تھے، وہ پولیس کی یقین دہانی پر معاملہ کو رفع دفع کرنے کو تیار ہو گئے تھے پھر اسے طول کس نے دیا اور کیوں؟ یہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی؟ آئی جی پولیس میرٹھ زون رام کمار کے مطابق اس علاقہ میں گو کشی کا کبھی کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا تو پھر کس نے یہ شرارت کی؟ مہاو گاؤں (جہاں تشدد ہوا) میں مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے۔ تو ہندو اکثریتی علاقے میں گئو ونش کے آثار ڈالے جانے کا مقصد کیا تھا؟

 یوگیش راج جسے اس واقع کا ملزم نمبر ایک مانا گیا ہے، اس نے اپنی ایف آئی آر میں جن 7 مسلمانوں کے نام لکھوائے ہیں ،وہ نیا بانس کے ہیں جو موقع واردات سے چھ کلومیٹر دور ہے۔ ان میں ایک نام سدیف کا ہے، اس نام کا کوئی آدمی گاؤں میں کبھی رہا ہی نہیں، دوسرا الیاس کا۔ الیاس نام کے دو شخص نیا بانس میں رہتے تھے جو پندرہ سال پہلے گاؤں چھوڑ چکے ہیں، ان کے علاوہ شرف الدین اور پرویز کا نام ہے جو سانحہ سے دو روز قبل تبلیغی اجتماع میں چلے گئے تھے۔ ایف آئی آر میں دو نا بالغوں کے نام بھی شامل تھے جن کو ایف آئی آر سے نکالے جانے کی آئی جی پولیس تصدیق کر چکے ہیں۔ یوگیش راج نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ وہ صبح 9 بجے تفریح کیلئے نکلا۔ اس دوران پڑوسی گاؤں مہاؤ کے جنگل والے علاقے میں اس نے گئو کشی کرتے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ کچھ کر پاتے وہ فرار ہو گئے۔وہ سب اسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ اس ایف آئی آر میں درک کردہ کہانی کی تردید کیلئے خود راج کی بہن کا بیان کافی ہے۔ اس نے بتایا کہ مہاؤ گاؤں کے کسی آدمی نے اس (یوگیش) کو فون کیا تھا، جس کے بعد وہ گھر سے نکلا۔

اس معاملہ میں علاقہ کے لیکھ پال کی رپورٹ جو اس نے مجسٹریٹ کو بھیجی ہے ،میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گئوکشی کرنے والے اناڑی تھے۔ ماہر قصائی اس طرح جانور نہیں کاٹتے۔ اس کی تصدیق وہ ویڈیو بھی کرتی ہے جس میں دو لوگوں کی گفتگو موجود ہے۔ جو گائے کاٹنے والے کا نام، کاٹنے کی جگہ اور لانے کے وسائل کی معلومات فراہم کرتی ہے۔ جس گاؤں میں یہ سانحہ پیش آیا، اس کے آس پاس سے کسی گائے یا بیل کے غائب ہونے کی خبر بھی نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ٹریکٹر ٹرالی میں گائے کی باقیات کو دیکھا تھا، ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک درجن جانوروں کے باقیات تھے، تو اتنے جانور غائب ہونے چاہئیں تھے۔ ایک پولیس افسر، جس نے کھیت میں جا کر وہاں کا حال دیکھا، اس کا کہنا ہے کہ جانور کچھ دن پہلے کے کٹے ہوئے تھے۔ یعنی واردات والی رات کو کہیں اور سے لا کر مویشیوں کے کٹے ہوئے حصے گنے کے کھیت میں رکھ دیئے گئے ہوں گے۔ کاش پولیس جعلی ایف آئی آر پر کارروائی کرنے کے بجائے ان حقائق پر غور کرتی۔

عجیب بات ہے کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی جی نے خصوصی میٹنگ میں گئو کشی میں ملوث لوگوں اور مہم چلا کر ماحول خراب کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر سازش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایات تو دی لیکن ان کی پریس ریلیز میں ذمہ دار انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کے متعلق تعزیت کے دو لفظ بھی شامل نہیں تھے۔ البتہ سبودھ سنگھ کے ساتھ ہلاک ہونے والے سمیت کمار کے پسماندگان کو دس لاکھ روپے کی مدد دینے کا اعلان ضرورکیا گیا۔ حالانکہ پولیس نے اس کا نام بلوائی کے طورپرایف آئی آر میںدرج کر رکھا ہے۔ سبودھ سنگھ نے اپنی جان دے کر ریاست کو بھیانک خون خرابے سے بچا لیا۔ اگر اس وقت کوئی ناپسندیدہ واقعہ رونما ہو جاتا تو وہ وہیں تک محدود نہیں رہتا۔ چو طرفہ فسادات ہوتے اور اس کی آگ چاروں طرف پھیل جاتی۔ اس کا فائدہ جس کو بھی ہوتا لیکن عوام کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھگتنا پڑتا۔ اس کی تصدیق مہاؤ گاؤں کے سابق پردھان کے بیان سے ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پتھراؤ کرنے والے باہری لوگ تھے۔ ان کے گاؤں کے لوگ اس میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ مان گئے تھے۔ انہیں حیرت تھی کہ گاؤں میں تو اتنے پتھر نہیں ہوتے، اس لئے یہ پتھر کہاں سے آگئے؟ راج کمار جن کے کھیت میں آثار پائے گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ان کے کھیت میں اتنی بھیڑ کہاں سے آئی؟ کس نے؟ کیسے اور کیوں انہیں اطلاع دی ؟

ایسا لگتا ہے کہ یہ پوری سازش اجتماع سے واپس لوٹ رہے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے رچی گئی تھی۔ جسے ایک جرأت منداور سمجھدار انسپکٹر نے ناکام بنا دیا۔ اسی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سازش میں سبودھ سنگھ کو مارنا بھی شامل ہو۔ جس کا انکشاف ان کی بہن نے کیا ہے کہ سبودھ سنگھ نے اخلاق معاملے میں تفتیش کی تھی اور وہ عدالت میں کچھ انکشافات کرنے والے تھے۔ انہیں اس سلسلے میں دھمکیاں مل رہی تھیں۔ حقیقت تو انویسٹی گیشن رپورٹ آنے کے بعد معلوم ہوگی لیکن اگر اخلاق یا پہلو خان کی موت پر سماج خاموش نہیں رہتا تو آج سبودھ سنگھ نہیں مارے جاتے۔ اس بات کو یہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سول سوسائٹی کو آگے آنا ہوگا کیونکہ اس معاملہ کا اصل ملزم پولیس کی پکڑ سے باہر ہے جبکہ گیارہویں نمبر کا ملزم جیتو فوجی گرفتار ہو چکا ہے۔ اتر پردیش کے ڈی جی پی نے اس سانحہ کو بڑی سازش کا حصہ مانا ہے۔ تو امید کرنی چاہئے کہ وہ سازش کرنے والوں کو بے نقاب بھی کریں گے۔ ہم بس امید ہی کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں اس کیلئے کئی سطح پر لوگوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔

سماج کو جس میں تمام طبقہ کے لوگ شامل ہوں، مل جل کر یہ سوچنا ہوگا کہ ان کے بیچ کی دراروں، کھائیوں کو چوڑا ہونے سے کیسے روکا جائے؟ چناؤ کے وقت سماج کو مذہب، ذات اور علاقہ کے نام پر گمراہ ہونے، بنٹنے سے کیسے بچایا جائے۔ کون ہیں جو سماج میں مذہبی انتہا پسندی، نفرت کو ہوا دے رہے ہیں، انہیں پہچاننا ہوگا۔ ایسی تمام تنظیموں، انجمنوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کیلئے سرکار پر دباؤ بنانا ہوگا۔ سیاستدانوں کے ذریعہ نوجوانوں کو کرائم کی طرف دھکیلے جانے کی کوششوں کو ناکام کر انہیں تعلیم، روزگار سے جوڑنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ہم اپنے بچوں، نوجوانوں کو کیسا مستقبل دینا چاہتے ہیں، وہ مہذب معاشرہ کا حصہ بننے کے لائق ہوں۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر دیش کو آگے بڑھانے والے ہوں یا پھر ہاتھ میں پتھر اٹھانے والے؟ یہ آج طے کرنا ہوگا ورنہ کل پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ اس کیلئے آج خاموشی توڑنی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔