دشتِ جُنوں میں دوڑتا پھرتا ہے اک غزال
افتخار راغبؔ
دشتِ جُنوں میں دوڑتا پھرتا ہے اک غزال
مشکل ہے ذہن و دل کے عناصر میں اعتدال
…
تجھ سا حسیں جہانِ تخیّل میں بھی کہاں
ممکن کہاں ہے ڈھونڈ کے لانا تری مثال
…
مضبوط اِس قدر ہو ہر اک آس کی لڑی
ڈر ٹوٹنے کا ہو نہ بکھرنے کا احتمال
…
مت پوچھ کیسے شعروں میں آتی ہے دل کشی
مت پوچھ کس کی چشمِ فسوں گر کا ہے کمال
…
جس کا جواب قلب گوارا نہ کر سکے
اُبھرے کبھی نہ ذہن میں ایسا کوئی سوال
…
اک دوسرے کے دل میں دھڑکتے رہیں سدا
تا عمر اعتماد کی سانسیں رہیں بحال
…
ہو جائے ہر ملال دسمبر کے ساتھ ختم
لے آئے جنوری کوئی مطلق خوشی کا سال
…
تعبیر اُس کے حسن و ادا کی ہو کیا بھلا
وہ پیکرِ جمال وہ دل دارِ خوش خصال
…
دیکھا ہر ایک عکس میں آنکھوں نے تیرا عکس
"ابھرا ہر اک خیال کی تہہ سے ترا خیال”
…
راغبؔ سمجھ کے شعر وہ دیتے رہیں گے داد
کیسے بیاں کروں دلِ مضطر کا اپنے حال
تبصرے بند ہیں۔