دشتِ جُنوں میں دوڑتا پھرتا ہے اک غزال

افتخار راغبؔ

دشتِ جُنوں میں دوڑتا پھرتا ہے اک غزال

مشکل ہے ذہن و دل کے عناصر میں اعتدال

تجھ سا حسیں جہانِ تخیّل میں بھی کہاں

ممکن کہاں ہے ڈھونڈ کے لانا تری مثال

مضبوط اِس قدر ہو ہر اک آس کی لڑی

ڈر ٹوٹنے کا ہو نہ بکھرنے کا احتمال

مت پوچھ کیسے شعروں میں آتی ہے دل کشی

مت پوچھ کس کی چشمِ فسوں گر کا ہے کمال

جس کا جواب قلب گوارا نہ کر سکے

اُبھرے کبھی نہ ذہن میں ایسا کوئی سوال

اک دوسرے کے دل میں دھڑکتے رہیں سدا

تا عمر اعتماد کی سانسیں رہیں بحال

ہو جائے ہر ملال دسمبر کے ساتھ ختم

لے آئے جنوری کوئی مطلق خوشی کا سال

تعبیر اُس کے حسن و ادا کی ہو کیا بھلا

وہ پیکرِ جمال وہ دل دارِ خوش خصال

دیکھا ہر ایک عکس میں آنکھوں نے تیرا عکس

"ابھرا ہر اک خیال کی تہہ سے ترا خیال”

راغبؔ سمجھ کے شعر وہ دیتے رہیں گے داد

کیسے بیاں کروں دلِ مضطر کا اپنے حال

تبصرے بند ہیں۔