جے للیتا کا سیاسی کرشمہ

عبدالعزیز
تاملناڈو جنوبی ہند کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں آزادی ہند کے فوراً بعد ڈراویڈین تحریک اننا درائی کی قیادت میں کامیاب ہوئی اور کانگریس پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ آج تک ڈراویڈین تحریک ہی سے تعلق رکھنے والی دو پارٹیاں ڈی ایم ے اور انا ڈی ایم کے باری باری حکومتیں کرتی رہیں۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں نتیجہ بالکل برعکس ہوا۔ جے للیتا کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہار جائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چھ ماہ پہلے ان کا سورج ڈوبنے کے بجائے چمکتا رہا۔ وہ مرتے دم تک اپنے عہدہ پر قائم رہیں، یہاں تک کہ جب وہ اسپتال میں دو ماہ سے زیادہ رہیں جب بھی وہ وزیر اعلیٰ ہی کے عہدہ پر رہیں۔ ان کی پارٹی کے اندر کسی قسم کی چہ میگوئیاں نہیں ہوئیں۔ او پنیر سیلوم وزیر خزانہ ان کی جگہ قائم کرتے رہے۔ پہلے بدعنوانی کے مقدمہ میں جب انھیں جیل جانا پڑا تو ان کی وفادار سسی کلا اور ان کے خاندان والوں نے اپنے فرقہ کے پنیر سیلوم کو قائم مقامی کیلئے تجویز کیا تھا جسے جے للیتا نے بغیر کسی چوں و چرا کے قبول کرلیا تھا۔ اس بار بھی پنیر سیلوم ہی حکومت کا کام کاج سنبھالتے رہے۔
او پنیر سیلوم کے دو بار جے للیتا کی غیر موجودگی میں حکومت کا کاروبار سنبھالنے کی وجہ سے پارٹی کے حق میں بہتر ہوا ۔ جے للیتا کی موت کی وجہ سے جو جگہ خالی ہوئی اسے جلد ہی پر کرلیا گیا۔ کسی قسم کی کشمکش پارٹی کے اندر نہیں ہوئی۔ جے للیتا کے گرو ایم جی آر تھے۔ ان کی موت پر پارٹی میں کشمکش پیدا ہوئی تھی۔ ایک گروپ ایم جی آر کی بیوی کو جانشین بنانے پر تلا ہوا تھا جس کی وجہ سے ایم جی آر جب بستر مرگ پر تھے تو جے للیتا کو عیادت تک کرنے نہیں دیا گیا اور آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے ایم جی آر کی بیوی نے جے للیتا کو دھکا دے کر گاڑی سے اترنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جے للیتا نے اپنے مقام اورمنصب کیلئے جنگ جاری رکھی۔ بالآخر پارٹی کے بڑے اور چھوٹے لوگوں کی اکثریت نے انھیں قبول کرلیا اور ایم جی آر کی بیوی سیاست کی دوڑ میں پیچھے ہوگئیں۔ جے للیتا کو ریاست میں حکومت کرنے کا چار بار موقع ملا۔ جے للیتا نے اپنے دور حکومت میں غریبوں اور کمزوروں کیلئے بہت سا کام کیا جس میں ’اماں کینٹین، اماں سالٹ، اماں میڈیسین، اماں نرسنگ ہوم کے علاوہ غریبوں کو مفت سائیکل اور لیپ ٹاپ مہیا کرنا بھی شامل ہے۔ حالانکہ کرپشن چارجز کی وجہ سے جے للیتا کو جیل میں بھی جانا پڑا مگر کام اس قدر کیا تھا کہ لوگوں نے ان کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کر دیا۔
جے للیتا نے اپنی زندگی فلمی اداکارہ کی حیثیت سے شروع کی تھی۔ سیاست سے کوئی واسطہ نہ تھا ، ایم جی آر انھیں سیاست کی دنیا میں لائے۔ وہ سیاست کی اونچائیوں تک پہنچ گئیں۔ ان کو آگے تک پہنچانے میں جہاں ان کے گرو کا ہاتھ ہے ، اس میں سسی کلا کا بھی حصہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایم جی آر کی موت کے بعد جو ان کی بیوی اور جے للیتا میں کشمکش ہوئی اس سے متاثر ہوکر سسی کلا نے جے للیتا کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے جے للیتا کو جلد ہی کامیابی مل گئی۔ جے للیتا کی مقبولیت اور شہرت ان کی موت کے بعد کچھ زیادہ ہی ابھر کر سامنے آئی۔ جے للیتا میں جہاں حکومت کرنے کا گر تھا وہیں اپنی پارٹی کو مستحکم اور مضبوط بنائے رکھنے کا بھی گر تھا۔ اگر چہ جے للیتا اپنی پارٹی کی ڈکٹیٹر تھیں۔ پارٹی میں جمہوریت نام کی چیز نہیں تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کے بعد جانشیں کون ہوگا؟ تو جواب میں کہا کہ ایم جی آر کے بعد جس طرح میں ابھر کر سامنے آئی اور آج ان کی جگہ کام کر رہی ہوں اسی طرح کوئی نہ کوئی ابھر کر سامنے آئے گا اور میری جگہ کام کرے گا۔
پارٹی کی قسمت اچھی کہی جائے گی کہ دو مواقع ایسے آئے کہ حکومت اور پارٹی کی سربراہی کی ذمہ داری پنیر سیلوم کو دینی پڑی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ جے للیتا کے بعد پنیر سیلوم ہی ذمہ داری سنبھالنے کے لائق ہیں۔ جے للیتا کہا کرتی تھیں کہ ان کی زندگی پر ان کے گرو ایم جی آر کا بڑا اثر ہے مگر اس وقت میں کسی کے اثر کے بغیر خود کام کرنے کی اہل ہوںَ دیکھنا یہ ہے کہ او پنیر سیلوم بھی اس لائق ہوسکیں گے کہ انھیں بھی جے للیتا کی طرح وہ مقام حاصل ہوگا جو ان کی پیش رو کو حاصل تھا۔ سسی کلا کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ شاید پارٹی کا جو سب سے بڑا عہدہ جنرل سکریٹری کا ہوتا ہے وہ لینا پسند نہ کریں مگر پس پردہ وہ حکومت کرنا پسند کریں گی۔ اس وقت جے للیتا تھیں تو سسی کلا کو سنبھال لیتی تھیں مگر پنیر سیلوم سنبھال سکیں گے یا نہیں ۔ اگر دونوں میں نا اتفاقی ہوئی تو پھر اقتدار کی کشمکش پیدا ہوسکتی ہے۔
اس وقت بی جے پی کی نظربد تاملناڈو کی سیاست پر ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح تاملناڈو میں اپنی جگہ بنائے۔ سسی کلا اور پنیر سیلوم میں سے کسی کو اپنا بنالے اور پارٹی کے اندر ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اپنائے۔ اگر دونوں اس بات کو شروع سے سمجھ گئے تو شاید بی جے پی یا آر ایس ایس کے جال میں نہ پھنسیں لیکن اگر نہ سمجھ سکے تو پھنس سکتے ہیں۔ دوسری طرف ڈی ایم کے کے اندر اس طرح کی کوشش ہوگی کہ انا ڈی ایم کے کو ابھرنے اور مضبوط ہونے کا موقع ملے۔ کانگریس بھی اپنی جگہ بنانے کیلئے کوشاں ہوگی۔ انا ڈی ایم کے کے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے سارے بحرانوں پر قابو پاسکتی ہے۔ اگر اقتدار میں نہ ہوتی تو شاید بحرانوں پر قابو پانا مشکل ہوتا۔
جے للیتا کے اندر ایک خوبی یہ تھی کہ وہ اخبار یا ٹی وی چینلوں سے دور بھاگتی تھیں۔ ان کو یقین تھا کہ مصنوعی طریقے سے شہرت زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہتی۔ اس لئے وہ غریب عوام کی فلاح وبہبود پر زیادہ یقین کرتی تھیں۔ یہی یقین ان کے کام آیا اور کاغذی شیرنی ہونے کے بجائے وہ تاملناڈو کے عوام کیلئے اماں کی شکل میں شہرت کی اونچائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔
ڈراویڈین تحریک برہمنیت کے خلاف تھی۔ غریبوں اور کمزوروں کو اوپر اٹھانے کیلئے تھی۔ ڈی ایم کے اور انا ڈی ایم کے دونوں پارٹیاں اس کام کو بخوبی انجام دیتی تھیں جس کی وجہ سے تاملناڈو کی حالت مجموعی اعتبار سے ہندستان کی دوسری ریاستوں سے بہتر ہے۔ خاص طور سے جرائم اور عورتوں، بچوں اور کمزوروں پر مظالم دوسری ریاستوں سے کم ہوتے ہیں۔ فلمی دنیا سے آئے ہوئے اننا دورائی، کرونا نیدھی، ایم جی آر اور جے للیتا سب کے سب اصلی دنیا میں بھی کامیاب ہوئے۔ جے للیتا کے وفاداروں اور معتقدوں کا حال تو یہ تھا کہ وہ ان کا صرف پیر نہیں چھوتے تھے بلکہ ان کے پیروں پر سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ ایسی تحریک جو برہمنوں کے خلاف چلی تھی اس کا حشر یہ ہوا۔ اب اس طرح پتہ چلتا ہے کہ برہمن یا غیر برہمن جو بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جائے تو اس کی پوجا ہندستان میں شروع ہوجاتی ہے۔ مایا وتی دلت سماج سے تعلق رکھتی ہیں مگر وہ بھی یہ کام اقتدار اور سیاست میں رہ کر اپنے پیروؤں سے کراتی ہیں۔ یہ حقیقت میں بت پرستی کی دوسری شکل ہے جسے اقتدار پرستی ہی کہا جائے گا۔
ایک خدا کو ماننے والوں کا کام ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف ایک خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوں بلکہ دوسروں کو بھی ایک ہی خدا کی پرستش اور عبادت کیلئے سمجھائیں اور اپنی زندگی سے ثابت کریں کہ ایک سجدہ جسے انسان گراں سمجھتا ہے وہی ہزار سجدوں سے انسان کو نجات دیتا ہے۔ ایک اچھی چیز جو ڈَراوِیڈین کے پیروؤں میں نظر آرہی ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں کی لاشوں کو جلاتے نہیں بلکہ دفن کرتے ہیں۔ اننا ورائی اور ایم جی آر نے بھی وصیت کی تھی کہ انھیں مرنے کے بعد دفنایا جائے، جلایا نہ جائے۔ شاید ایسی ہی وصیت جے للیتا نے بھی کی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔