جموں میں سرکاری اسکول

الطاف حسین جنجوعہ

جموں، حکومتی وانتظامی سطح پر سرکاری اسکولوں کو نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے آج سرکاری اسکول سماج میں عدم توجہی کا شکار ہیں، کوئی بھی سرکاری ملازم، تاجر، مزدور اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل نہیں کراتا۔ یہ ایک حیران کن امر ہے کہ بھی سرکاری ٹیچر بشمول رہبر تعلیم اساتذہ، اپنے بچے ، بچیوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل نہیں کرتے ۔ آج حالت یہ ہے کہ ایک مزدور جویومیہ بمشکل 300تا400روپے کماتا ہے بھی، اپنے بچے کو پرائیویٹ اسکول میں ہی پڑھانے کو توجیحی دیتا ہے تاکہ اس کے بچے کی بنیاد بہتر ہو۔جموں وکشمیر ریاست میں اس وقت سرکاری اسکول صرف ٹیچنگ ونان ٹیچنگ سٹاف کے لئے بازآبادکاری مراکز اور سیاسی حکمرانوں کے لئے ٹرانسفر انڈسٹری بن کر رہے گئے ہیں۔ ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘کے مصداق حکومتی سطح پر بلند وبانگ دعوے کئے جانے کے برعکس سرکاری تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کی فراہمی نظر نہیں آرہی۔ حال ہی میں جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے جاری آٹھویں کے امتحانی نتائج میں بھی سرکاری اسکولوں کے طلبہ وطالبات کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ ریاست کے شعبہ تعلیم پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں کی ناقص کارکردگی کی بڑی وجہ حکومتی وانتظامی سطح پر سرکاری اسکولوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان دنوں ریاست بھر میں جگہ جگہ نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے سالانہ دن تقریبات کاانعقاد کیاجارہاہے جن میں مخلوط حکومت کے وزراء، اراکین قانون سازیہ (ایم ایل اے/ایم ایل سی)، بیروکریٹس، اہم عہدوں پر فائض انتظامی افسران نجی تعلیمی اداروں بطور مہمان خصوصی شرکت کر رہے ہیں۔ سرمائی راجدھانی کی جموں یونیورسٹی میں واقع جنرل زور آور سنگھ آڈیٹوریم ، پولیس آڈیٹوریم گلشن گراؤنڈ کے علاوہ دیگر اہم بڑے بڑے ہال ان دنوں بک ہیں جہاں ہر روز کسی نہ کسی نجی تعلیمی ادارہ کی سالانہ تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں وزرا، ایم ایل اے، ایم ایل سی، اراکین پارلیمان اور دیگر سنیئرسیاستدان بطور خاص تشریف فرما ہوتے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ نجی تعلیمی اداروں میں آئے روز متعدد نوعیت کے نصابی ، سہ نصابی اور کھیل کود سرگرمیاں اور مقابلہ جاتی پروگرام کا انعقاد ہوتا ہے جس کی اختتامی انعام تقسیم کاری تقریب میں وزرا، اراکین قانون سازیہ اور حکومت وانتظامیہ کے دیگر اعلیٰ عہداداران کے ہاتھوں طلبہ وطالبات کی عزت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس سرکاری اسکولوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ خاص کر اول سے لیکر بارہویں جماعت تک کے اسکولوں میں ایسی کوئی سالانہ تقریبات کا چلن نہیں جن میں بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ذرائع کے مطابق حکومت اور انتظامیہ کے افسران اور دیگر نامی گرامی شخصیات کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نجی تعلیمی ادارہ کی طرف سے منعقدہ عظیم الشان تقریب میں جلوہ افروز ہوں اور وہاں پر بھاشن جاڑیں۔ مضحکہ خیز امرہے کہ نجی اسکولوں کی سالانہ تقریبات میں ایسے مہمانان خصوصی کے خطاب کرنے کی باری آتی ہے تو وہ سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم بہترکرنے کی بات کرتے ہیں۔اصل میں حکمرانوں کی بھی ذہنیت ایسی ہوچکی ہے کہ وہ سرکاری اسکولوں کی تقریبات میں جاناتو دور وہاں صرف سے گذرنا بھی گوارا نہیں کرتے، ہاں اگر سیاسی جلسہ ہو تو اس کا اہتمام سرکاری اسکولوں میں کیاجاتا ہے تاکہ غریب بچوں اور ان کے والدین کو جمع کرلیاجائے۔ خطہ جموں کے اضلاع پونچھ، راجوری، کشتواڑ، رام بن ، ڈوڈہ، ریاسی، اودھم پور، کٹھوعہ، سانبہ اضلاع کے دور دراز علاقہ جات اور دیہات میں موجود سرکاری اسکولوں میں ایسی سالانہ تقریبات کیوں نہیں منعقد ہوتیں، اگر منعقد ہوتی ہیں تو پھر کیوں ان میں حکومتی وانتظامی سطح کے عہداران شرکت نہیں کرتے۔کس امید کے ساتھ والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کریں، سرکاری اسکولوں کی عمارتیں نہیں، سرکاری اسکولوں میں عملہ کی کمی، جہاں عملہ ہے تو وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتے ہیں، باری باری پر اسکول آنا،حاضر ہوتے ہوئے بھی بچوں کو دلچسپی سے نہ پڑھانا اوپر سے بلاک سطح ، تحصیل اور ضلع سطح کے انتظامی افسران ، سیاستدان اور حکمرانوں کی طرف سے سرکاری اسکولوں نظر انداز کیاجاتاہے۔ہرمیدان میں نجی تعلیمی اداروں کے بچے نظر آتے ہیں، ٹیلی ویژن، ریڈیو ، اخبارات ہرجگہ نجی تعلیمی اداروں کے بچے ہی آگے نظر آتے ہیں، تو پھر کیا امید کی جائے کہ معیار تعلیم بہتر ہوگا۔ اگر حکمران وقت حقیقی معنوں میں سرکاری اسکولوں کے معیار حیات میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو پھر کیوں نہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے باقاعدہ طور حکم نامہ جاری کرکے اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ تمام تعلیمی زونوں میں کلسٹر ہیڈ ہائر سکینڈری اسکولوں میں سالانہ دن تقریب کا اہتمام کیاجائے جس میں کلسٹر ہیڈ کے تحت آنے والے تمام پرائمری، مڈل، ہائی اسکولوں کے طلبہ وطالبات کو جمع کیاجائے اور تعلیمی، سہ نصابی سرگرمیوں اور کھیل کود مقابلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلاب کی وزراء ، اراکین اسمبلی یا حکومت وانتظامیہ کے دیگر اعلیٰ افسران کے ہاتھوں حوصلہ افزائی کرائی جائے تاکہ انہیں بھی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ اس کو لازمی قرار دیاجائے کہ متعلقہ ایم ایل اے، ایم ایل سی سرکاری اسکولوں میں منعقد ہونے والی تقریبات میں ہرحال میں حصہ لیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔