وہ بھی جب رخصت ہوا تو اک کہانی دے گیا

حفیظ نعمانی
جنوبی ہند کی اندراگاندھی جس نے کبھی کسی کادباؤ قبول نہیں کیا آخر کاردل سے ہار گئیں اور 6؍ دسمبر کو شام کے وقت برہمن ہونے کے باوجود دفن کردی گئیں۔ وہ برہمن ہندو ہونے کے باوجود ان دراوڑوں کی لیڈر رہیں جو ہندی سے اور ہندو سے نفرت کی وجہ سے برسوں دراوڑستان کا مطالبہ کرتے رہے۔ اس لیے کہ وہ ہندو نہیں لا مذہب تھے اور ہیں۔اور آج بھی تمل ناڈو میں ہندی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔
جیہ جے للتا فلموں کی دنیا کا ستارہ رہیں۔ انھوں نے زیادہ تر تمل فلموں میں کام کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف ایک ہندی فلم کی ہیروئن بھی رہیں۔ وہ بہت اچھی ہندی جانتی اور بول لیتی تھیں لیکن دراوڑوں کی لیڈر ہونے کی وجہ سے وہ صرف اپنی ہی زبان بولتی تھیں۔ حالاں کہ وہ پیدائش کے اعتبار سے تمل نہیں کرناٹک کے میسور کی تھیں جہاں کی زبان تمل نہیں ہے۔
جے للتا نے ذرائع سے زیادہ آمدنی کے مقدمات کا سامنا سپریم کورٹ تک کیا۔ ایک زمانہ میں ان کے گھر سے برآمد ہونے والی10 ہزار ساڑیوں اور ہزاروں جوتے، بے حساب گھڑیاں اور اب 12 کلو سونا اور 800 کلو چاندی۔ ہر زبان پر تھے۔ اس کے ساتھ منہ بولے بیٹے کی شادی میں ایک کروڑ روپے اس زمانہ میں خرچ کرنا ان کے لیے مصیبت بن گیا تھا جس کے لیے انہیں حکومت بھی چھوڑنا پڑی اور وہ جیل بھی گئیں لیکن پھر سب کچھ واپس لے لیا۔ لیکن ہار نہیں مانی۔ اور ان کے دفن ہونے کے بعد جو ان کا خزانہ نکلا ہے اس میں 5 سو ساڑیاں زیادہ ہی ہیں۔
وہ 35 برس ایک صوبہ کی وزیر اعلیٰ رہیں لیکن انھوں نے کسی بھی وزیر اعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دہلی کے چکر نہیں لگائے شاید یہ غلط نہ ہو کہ35 برس کی مدت میں وزیر اعظم کوئی بھی رہا ہو وہ وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے سب سے کم دہلی گئیں۔ اس کے برعکس دہلی ان کے پاس بار بار آئی۔
1998میں جب28پارٹیوں کو ملا کر اٹل جی حکومت بنانے والے تھے تو ان میں انا ڈی ایم کے کی حمایت بھی تھی لیکن ان کی تحریر نہیں آئی تھی جو صدر صاحب کی خدمت میں پیش کی جاسکے۔ اتفاق کی بات کہ ہم ابن حسن اور ظہیر مصطفی اس وقت اٹل جی کے پاس بیٹھے تھے۔ انھوں نے دورانِ گفتگو کسی کو دیکھ کر معلوم کیا کہ جے للتا کا کیا ہوا؟ جواب دینے والے نے کہا کہ جارج فرنانڈیز ان کے گھر کے دیوان خانے میں بیٹھے ہیں اور جے للتا سو رہی ہیں، اٹھیں گی تو دستخط کریں گی۔
قریب بیٹھے ہوئے حضرات میں سے کسی نے کہا کہ سو نہیں رہی ہوں گی بلکہ یہ دکھا رہی ہوں گی کہ میں اٹل سرکار کی حمایت کی محتاج نہیں ہوں۔ اٹل جی میری حمایت کے محتاج ہیں۔ اس کے بعد تبصروں کی باڑھ آگئی۔ ہمیں جس مقصد کے لیے بلایا گیا تھا اس پر ہم نے آدھا گھنٹہ گفتگو کی اور نیک خواہشات پیش کرکے واپس آگئے۔ اتفاق کی بات کہ عزیز دوست ابن حسن ایڈوکیٹ تو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ظہیر میاں موجود ہیں جن سے مزید تفصیل معلوم ہوسکتی ہے۔
ایک بات کل ٹی وی کے ہر چینل پر کہی گئی کہ مودی جی سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے اور وہ مودی جی کا بہت لحاظ کرتی تھیں۔ یہ سب ہوگا اور ضرور ہوگا لیکن 2014میں جب مودی جی وزیر اعظم بننے جارہے تھے ا ور سارے ملک کی تائید انہیں حاصل ہورہی تھی اس وقت نہ مودی جی نے یہ سوچا کہ تمل ناڈو میں مقابلہ نہ کریں بلکہ چالیس طاقتور امیدوار اتارے اور جے للتا نے بھی رتی بھر لحاظ نہیں کیا۔ جب اترپردیش نے80 سیٹوں میں 73 انھیں دے دیں تب بھی جے للتا نے40 میں سے 38میں انھیں دھول چٹائی اور 2015میں جب اسمبلی الیکشن ہوا اس وقت بھی نہ مودی جی نے سوچا کہ امیدوار کھڑے کرکے کیا کریں گے؟ انھوں نے ا لیکشن لڑلیا،اپنی طاقت جھونکی اور کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ایک سیٹ بھی صرف اس صوبہ میں نہیں ملی جہاں کی وزیر اعلیٰ ان سے اچھا تعلق رکھتی تھیں۔
جے للتا نے برہمن ہوتے ہوئے دراوڑوں پر حکومت کی اور کرونا ندھی جیسے دراوڑ لیڈر کو بار بار ہرایا اور اس بار تو وہ دوسری بار جیت کر آئیں۔انھوں نے اپنا ہر رنگ دکھایا۔ ایک بار جب سرکاری ملازموں نے اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کردی تو جے للتا نے بہت کوشش کی لیکن جب کسی طرح ملازم نہیں مانے تو دو لاکھ ملازموں کو نکال دیا۔ یہ اتنا بڑا فیصلہ تھا کہ اس کے ردّ عمل میں سیاست اور حکومت سب ختم ہوجانا چاہیے تھی لیکن وہ کامیاب اور کامران بن کر نکلیں۔ پھر اس کے بعد عورت کے اندر کی ممتا جاگی اور انھوں نے جس غریب پروری کا مظاہرہ کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے کہ تمل ناڈو میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ صرف ایک روپے میں نمکین چاولوں کی تھالی، تین روپے میں چاول کے ساتھ اڈلی اور پانچ روپے میں چاول کے ساتھ سانبھر اور اڈلی دونوں، ہر کسی کو مزدور اور طالب علم سے لے کر ڈی ایم اور پروفیسر تک جو چاہے اسے کھلاؤ۔ کوئی شرط نہیں کہ دکھاؤ تم کون ہو؟ کہاں کے ہو؟ کیا کرتے ہو اور دن میں کتنی دفعہ کھاؤ گے؟
گھٹے اگر تو بس اک مشت خاک ہے انساں
بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے
جے للتا کے اس روپ نے انہیں صرف اماں ہی نہیں بنایا بلکہ ان دراوڑوں کو جو کسی کو بھگوان نہیں مانتے تھے ان کی دیوی بھی بن گئیں۔ گاندھی جی سے لے کر راجیو گاندھی تک کوئی نہیں ہے جس کی صرف ضمانت نامنظور ہوجانے کی وجہ سے سیکڑوں نے سر منڈائے ہوں، خود کشی کرلی ہو، انگلیاں کاٹ لی ہوں۔ اور کوئی نہیں ہے جس کی جگہ وزیر اعلیٰ کا حلف لیتے ہوئے پوری وزارت گورنر کے سامنے ہچکیوں سے روئی ہو اور کوئی نہیں ہے جس کے پاؤں کو صرف چھوا نہ ہو بلکہ بڑے سے بڑے افسروں اور عوام نے اس کے پاؤں پر سر رکھے ہوں؟جے للتا نے بھی آخری قربانی دی تھی کہ اپنی برہمنیت کو حکومت پر قربان کردیا تھا اور یہ بھی وصیت نہیں کی تھی کہ اسے جلایا جائے۔ وہ مر کر بھی دراوڑوں کی دیوی ہی بنی رہنا چاہتی تھیں اور بلا شبہ وہ اس میں کامیاب رہیں۔ اب ششی کلا کی باری ہے جس نے اسی طرح سیاسی تربیت حاصل کی ہے جیسے سونیا نے اندراگاندھی سے کی تھی۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ وہ اماں بننے اور دیوی بننے میں کتنی کامیاب ہوتی ہیں اور نریندر مودی جی کے دست شفقت کا کتنا اثر لیتی ہیں۔ ان کے ۳۷ ممبر پارلیمنٹ حزب مخالف میں ہی رہتے ہیں یا وزارت کے شوق میں مودی جی کی گود میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔