حالات وظروف کا تنوع اور دعوت اسلامی

ڈاکٹر محمد رفعت

دعوتِ اسلامی کے معنی انسانوں  کو اللہ کی طرف بلانے کے ہیں ۔ کارِ دعوت، انبیاء علیہم السلام کے اسوے کا بنیادی عنصر ہے اور اہلِ ایمان کی منصبی ذمہ داری بھی ہے۔ قرآنِ مجید میں  نبی کریم ﷺ کا تعارف کراتے ہوئے آپ کو داعی الی اللہ قرار دیا گیا ہے:

’’اے نبی! ہم نے تمھیں  بھیجا ہے گواہ بناکر،بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بناکر۔‘‘(سورہ احزاب، آیات 45-46)

ایک موقع پر جِنوں  میں  سے بعض افراد نے قرآنِ مجید سنا اور پھر دوسرے جنوں  سے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے، نبی ﷺ کو داعی الی اللہ کے الفاظ سے موسوم کیا:

’’(اور وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جب ہم جِنوں  کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ وہ قرآن سنیں ۔ جب وہ اُس جگہ پہنچے (جہاں  تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انھوں  نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ۔ پھر جب وہ پڑھا جاچکا تو وہ (جِن) خبردار کرنے والے بَن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے۔ انھوں  نے جاکر کہا: ’’اے ہماری قوم کے لوگو، ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں  کی، رہنمائی کرتی ہے حق اور راہِ راست کی طرف۔ اے ہماری قوم کے لوگو! ’’داعی اللہ‘‘ کی دعوت قبول کرلو اور اس پر ایمان لے آؤ۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمھیں  عذابِ الیم سے بچا دے گا(سورہ احقاف، آیات 29-31)

انبیاء علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے اہلِ ایمان بھی دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ اُن کے موقف کو قرآن مجید بہترین موقف قرار دیتا ہے:

’’اور اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں  مسلمانوں  میں  سے ہوں ۔‘‘ (سورہ حٰم سجدہ، آیت:33)

دعوتِ اسلامی کے موضوع پر غور کرتے وقت چند اہم سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں :

(الف) دعوتِ اسلامی کے نکات کیا ہیں ؟

(ب) کارِ دعوت کے لیے کیا تیاری درکار ہے؟

(ج) دعوت کے مخاطب کون ہیں  یعنی داعی کس کو خطاب کرے۔

(د) دعوت کا طریقہ کیا ہے اور دعوت کے لیے کیا اسلوب اختیار کرنا چاہیے؟

(ہ) داعی کو کس ترتیب کے ساتھ اپنا پیغام پیش کرنا چاہیے؟

(و) دعوت کی راہ کے متوقع مراحل کیا ہیں ؟ مخاطبین کے مثبت یا منفی ردِّ عمل کے سلسلے میں  داعی کو کیا رویہ اختیار کرنا ہوگا؟

(ز) اقامتِ دین کے وسیع اور متنوع تقاضوں  اور کارِ دعوت کے مابین کیا تعلق ہے؟

ان تمام سوالات پر تفصیلی گفتگو کا توموقع نہیں  البتہ اجمالاً ان سے تعرض ضروری ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ جب حالات و ظروف بدلتے ہیں  تو نئے چیلنجز سامنے آتے ہیں ۔ کسی ایک زمانے میں  بھی خطہ ارضی پر رہنے والے مختلف انسانی گروہوں  کے حالات یکساں  نہیں  ہوتے چنانچہ ان سے دعوتی مخاطبت میں  اس تنوع کا لحاظ ضروری ہے۔ اسی طرح زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ٹکنالوجی، وسائل کے استعمال کے طریقوں  اور ابلاغ کے ذرائع میں  تبدیلی آتی ہے۔ انسانوں  سے خطاب کرنے کے اسلوب پر اس تبدیلی کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ خارج کی ان تبدیلیوں  کے علاوہ انسانی گروہوں  کے مزاج اور نفسیات میں  پائے جانے والے تنوع اور اُن کے داخل کی دنیا میں  واقع ہونے والے تغیرات کو بھی نظر انداز نہیں  کیا جانا چاہیے۔ درجِ بالاسوالات کے سیاق میں  کوشش کی جائے گی کہ دعوتِ اسلامی سے متعلق غور طلب مختلف موضوعات کا جائزہ لیا جائے، اُن امور کی نشاندہی کی جائے جن میں  حالات و ظروف کے تغیر کی بنا پر تبدیلی نہیں  ہوتی۔ اسی طرح اُن امور کی بھی، جن میں  حالات کا تغیر، نئی تفہیم و تعبیر اور تخلیقی کاوش کا تقاضا کرتا ہے۔

دعوتِ اسلامی کے نکات

قرآنِ مجید نے متعدد آیات میں  دعوت اسلامی کے نکات کو بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر درجِ ذیل آیات پر غور کیا جاسکتا ہے:

(1)  ’’بے شک ہم نے ہر امت میں  ایک رسول بھیجا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘ (سورہ نحل، آیت: 36)

(2)’’اے نبی کہو کہ میں  تو ایک انسان ہوں  تم ہی جیسا۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے پس جو کوئی اپنے رَب کی ملاقات کا امیدوار ہو اُسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں  اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘ (سورہ کہف، آیت :110)

(3)’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں  ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔‘‘ (سورہ انبیاء، آیت :25)

(4)’’ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے کہا: ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں  ہے۔ کیا تم ڈرتے نہیں  ہو؟‘‘ (سورہ مومنون، آیت :23)

(5)’’اللہ نے (موسیٰ اور ہارون سے) کہا کہ فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم تیرے رَب کے رسول ہیں  پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور اُن کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں  اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔‘‘ (سورہ طٰہٰ، آیت :47)

(6)’’یاد کرو جب کہ اُن کے (یعنی قومِ عاد کے) بھائی ہود نے اُن سے کہا تھا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں  تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں ۔ میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمّہ ہے۔ یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر ایک یادگار عمارت بناڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں  ہمیشہ یہیں  رہنا ہے اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو جبار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ (سورہ شعراء، آیات 124 تا 131)

(7)’’ثمود نے رسولوں  کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب کہ اُن کے بھائی صالح نے اُن سے کہا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں  تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں ۔ میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم اُن سب چیزوں  کے درمیان جو یہاں  ہیں ، بس یونہی اطمینان سے رہنے دیے جاؤگے؟ ان باغوں  اور چشموں  میں ؟ ان کھیتوں  اور نخلستانوں  میں  جن کے خوشے رس بھرے ہیں ؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ اُن میں  عمارتیں  بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اُن بے لگام لوگوں  کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں  فساد برپا کرتے ہیں  اور کوئی اصلاح نہیں  کرتے۔‘‘ (سورہ شعراء، آیات 141 تا 152)

(8)’’لوط کی قوم نے رسولوں  کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب کہ اُن کے بھائی لوط نے اُن سے کہا تھا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں  تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں ، میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم دنیا کی مخلوق میں  سے، مَردوں  کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں  میں  تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے، اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔‘‘ (شعراء، آیات 160 تا 166)

(۹)’’ایکہ والوں  نے رسولوں  کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب شعیب نے اُن سے کہا تھا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں  تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں ۔ میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں  کو ان کی چیزیں  کم نہ دو۔ زمین میں  فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس ہستی کا خوف کرو جس نے تمہیں  اور گزشتہ نسلوں  کو پیدا کیا ہے۔‘‘(آیات۱۷۶-184)

آیاتِ بالا سے دعوتِ اسلامی کے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں :

(i)    اللہ کی بندگی کی جائے اور طاغوت سے بچا جائے۔

(ii)    رسالت اور آخرت کو مانا جائے۔

(iii)   نیک عمل کیا جائے اور اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کیا جائے۔

(iv)   اللہ کا تقویٰ اختیار کیا جائے اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔

ان بنیادی نکات پر مبنی دعوت کے علاوہ، اللہ کے بھیجے ہوئے رسول چند اور اہم امور کی بھی تلقین کرتے ہیں ۔ مثلاً:

(i)   ظلم اور جبّاری سے اجتناب کی نصیحت۔

(ii)    آخرت سے غافل کرنے والی غیر ضروری تعمیر سے پرہیز کی تلقین۔

(iii)   اللہ کے باغیوں  کی اطاعت نہ کرنے کی دعوت۔

(iv)    بے حیائی کے کاموں  اور خلافِ فطرت حرکتوں  سے باز آنے کی نصیحت۔

(v)     پیمانے اور ترازو درست رکھنے کے تلقین۔

(vi)   زمین میں  فساد نہ پھیلانے کی نصیحت۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں  اسلام کے داعی، دعوت کے ذیل میں  کن نکات کو بیان کریں ؟ ظاہر ہے کہ بنیادی نکات کے سلسلے میں  کوئی ابہام نہیں  پایا جاتا۔ آج بھی اللہ کی بندگی، طاغوت سے اجتناب، رسولوں  پر ایمان، آخرت پر یقین، شرک سے پرہیز، عمل صالح کے اہتمام، تقویٰ کے التزام اور رسول کی اطاعت کی دعوت دی جائے گی۔ البتہ یہ ضروری ہوگا کہ موجودہ دور میں  وجودِ باری تعالیٰ اور عقل و وحی کے تعلق جیسے موضوعات کے سلسلے میں  جو نئے سوالات پیدا ہوگئے ہیں ، اُن کا جواب بھی فراہم کیا جائے۔ اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ عملِ صالح اور تقویٰ کے التزام کے وہ تقاضے واضح کیے جائیں  جو زندگی کے تمام گوشوں  سے متعلق ہیں  اور جن کی طرف عموماً لوگوں  کی نظر نہیں  جاتی ۔۔۔۔دعوت کے بنیادی نکات کے بعد، دعوت کے ان پہلوؤں  پر غور کرنا چاہیے جن کا تعلق فضائلِ اخلاق کی تلقین، رذائل سے بچنے کی تاکید، ظلم اور فساد سے اجتناب کی دعوت اور حقوق العباد کی ادائیگی کی نصیحت سے ہے۔ اصولاً یہ سارے امور، آج بھی دعوتِ اسلامی کا جز ہوں  گے۔ البتہ یہ ضروری ہوگا کہ آج کے انسانی معاشرہ کا جائزہ لیا جائے، وہ جن نمایاں  اخلاقی خرابیوں  میں  مبتلا  ہے، اُن کی واضح نشاندہی کی جائے۔ اسی طرح حقوق العباد کے وہ تقاضے جو نظروں  سے اوجھل ہیں ، سامنے لائے جائیں ۔ ظلم اور فساد نے آج نئی شکلیں  اختیار کرلی ہیں ، اُن کے بارے میں  انسانوں  کے شعور کو بیدار کرنا ضروری ہے۔ پھر اُن سے بچنے کی نصیحت کی جانی چاہیے۔

کارِ دعوت کی تیاری

اللہ کی طرف بلانے کا عظیم الشان کام تیاری چاہتا ہے۔ اس تیاری کا ایک پہلو یہ ہے کہ دعوت دینے والا، پہلے قرآن مجید کے پیغام کی روح کو اپنے اندر جذب کرے۔ قرآن مجید میں  ہے:

’’نماز میں  کھڑے رہا کرو مگر کم۔ آدھی رات یا  اُس سے کچھ کم کرلو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں ۔ درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں  ہے۔‘‘ (سورہ مزمل، آیات 2 تا 6)

ظاہر ہے کہ نصف رات کھڑے ہوکر نماز پڑھنا اور اس میں  قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا کوئی آسان کام نہیں  ہے چنانچہ بعد میں  اس ہدایت میں  تخفیف کردی گئی اور یہ کہا گیا کہ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے، پڑھ لو لیکن جہاں  تک اس ہدایت کی اصل اسپرٹ کا تعلق ہے وہ بدستور قائم ہے یعنی قرآن مجید کو رات کی نماز میں  پڑھا جائے، ٹھیر ٹھیر کر پڑھا جائے اور قلب و ذہن کو اس کے نور سے منور کیا جائے۔ اس تیاری کے بعد ہی اللہ کی طرف بلانے کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔

سورہ مزمل کی آخری آیت میں  مذکورہ بالا تخفیف کا تذکرہ ہے:

’’اے نبی! تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات، عبادت میں  کھڑے رہتے ہو اور تمہارے ساتھیوں  میں  سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔ اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں  کرسکتے۔ لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی۔ اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، پڑھ لیا کرو۔ اسے معلوم ہے کہ تم میں  کچھ مریض ہوں  گے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں  سفر کریں  گے اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں  جنگ کریں  گے۔ پس جتنا قرآن، آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجوگے اُسے اللہ کے ہاں  موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔ اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورہ مزمل، آیت:20)

رات کی نماز میں  قیام اور قرآن مجید کی تلاوت سے قلبِ انسانی کی اصلاح ہوتی ہے۔ یہ دعوت کی تیاری کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا اہم پہلو علمی تیاری کا ہے یعنی دعوت دینے والے کو اس دین سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے جس کی طرف انسانوں  کو بلانا مقصود ہے۔ اس کو جاننا چاہیے کہ دین کیا ہے؟ اس کی تعلیمات کیا ہیں ، ان تعلیمات کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے اور اسلام اپنے پیغام کی صداقت کے حق میں کیا دلائل پیش کرتا ہے۔ اس تیاری کے معنی یہ ہیں  کہ دین کا گہرا فہم حاصل کیا جائے۔ قرآن مجید نے اس کاتذکرہ کیا ہے:

’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ، ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں  نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں  سے کچھ لوگ نکل آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں  کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔‘‘ (سورہ توبہ، آیت :122)

اس ارشاد کا منشا یہ ہے کہ اگر سارے اہلِ ایمان، دین کا گہرا فہم حاصل نہ کرسکیں  تو کم از کم کچھ لوگ تو ضرور ایسا کریں  اور اس کے بعد وہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں  کی صحیح رہنمائی کا فریضہ — دینی بصیرت کی روشنی میں  — انجام دیں ۔ حالات کی تبدیلی کے باوجود دعوت کی تیاری کی اہمیت حسبِ سابق باقی ہے۔

دعوت کے مخاطب

اصولاً دعوتِ اسلامی کے مخاطب تمام انسان ہیں ۔ قرآنِ مجید میں  تمام انسانوں  سے خطاب پر مشتمل متعدد آیات موجود ہیں ۔ مثلاً:

’’اے انسانو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہوگزرے ہیں  اُن سب کا خالق ہے۔ تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت میں  ہوسکتی ہے۔‘‘ (سورہ بقرہ، آیت:21)

’’(اے نبی!) کہو کہ ’’اے انسانو! میں  تم سب کی طرف اُس خدا کا رسول ہوں  جو زمین اور آسمانوں  کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امّی پر، جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے۔ اور پیروی اختیا رکرو رسول کی۔ امید ہے کہ تم راہِ راست پالوگے۔‘‘ (سورہ اعراف، آیت:158)

’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہارے قبیلے اور برادریاں  بنادیں  تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں  سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار (متقی) ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (سورہ حجرات، آیت: 13)

اسلام کے اس عالم گیر خطاب کی ضرورت آج بھی اسی طرح ہے، جیسے نزولِ قرآن کے وقت تھی چنانچہ اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ ساری انسانیت کو خطاب کریں  اور اُن تک حق کا پیغام پہنچائیں ۔ آج کے دور میں  یہ کام، ماضی کے مقابلے میں  آسان ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جو انسان ہم سے قریب ہوں  اُن سے ربط قائم کرنا اور گفتگو کرنا آسان ہوتا ہے۔ ہمسائیگی کی بِنا پر اُن کا حق بھی زیادہ ہے، اس لیے خطاب کی عالم گیر نوعیت کے باوجود اُن افراد اور گروہوں  سے ترجیحاً ربط قائم کرنا چاہیے جو علاقے اور زبان کی یکسانیت کی بنا پر یا کسی اور سبب سے داعی کے قریب ہوں ۔ ہر اہم کام کی طرح کارِ دعوت بھی منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس منصوبہ بندی میں  اُن افراد پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جن سے کسی نوعیت کی قربت موجود ہو۔ یہ اصول آج بھی اسی طرح صحیح ہے جس طرح ماضی میں  صحیح تھا۔

دعوت اسلامی کے خطاب کی ہمہ گیری یہ تقاضا کرتی ہے کہ حق کی طرف بلانے والے ہر انسان کو اہمیت دیں ، بحیثیت انسان اُس کا احترام کریں ، اُس کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کریں ، اس کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں  ہوں ، اس کو اپنی اصلاح اور اپنی شخصیت کے ارتقا کی طرف متوجہ کریں ، فکر وعمل کی گمراہی اور کج روی سے اُس کو بچائیں ، حق و صداقت کی راہ اس کے سامنے نمایاں  کریں  اور ربِ حقیقی سے اس کا تعارف کرائیں ۔ کوئی انسان کمزور ہو یا قوی، غریب ہو یا امیر، خواندہ ہو یا ناخواندہ، مرد ہو یا عورت، دیہاتی ہو یا شہری، بظاہر زیادہ صلاحیت رکھتا ہو یا کم صلاحیت کا حامل ہو، بہرحال داعی حق کی توجہ کا مستحق ہے اور اس کو نظر انداز کرنا صحیح نہیں  ہے۔ ابتدائی خطاب کے بعد البتہ داعی یہ جائزہ لے سکتا ہے کہ وہ افراد کون سے ہیں ، جو سنجیدگی اور شوق کے ساتھ پیغام ِحق کو سُن رہے ہیں  اور وہ کون ہیں  جو بے پروا اور بے نیاز ہیں ۔ اس جائزے کی روشنی میں  متلاشیانِ حق کو ز یادہ اہمیت دینا صحیح ہوگا۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:

’’اے نبی! اپنے دل کو اُن لوگوں  کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں ، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت کو پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار، افراط اور تفریط پر مبنی ہے۔‘‘(سورہ کہف، آیت:28)

طریقِ دعوت

دعوت کے نکات کی تفہیم کے بعد یہ ضروری ہے کہ دعوت کے طریقے پر توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں  قرآنِ مجید نے اصولی رہنمائی فراہم کی ہے:

’’اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو، حکمت اور عمد ہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں  سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔ اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پرزیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں  ہی کے حق میں  بہتر ہے۔ اے نبی! صبر سے کام کیے جاؤ— اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے— ان لوگوں  کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں  پر دل تنگ ہو۔ اللہ اُن لوگوں  کے ساتھ ہے، جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں  اور احسان کی روش اختیار کرتے ہیں ۔‘‘ (سورہ نحل، آیات 125-128)

جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں  کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کربات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں  کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اُس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں  سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں ۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ نحل، حاشیہ 122)

’’حکمت‘‘ کے ذیل میں  مولانا مودودیؒ نے ان نکات کو شامل کیا ہے:

(1) مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کا اندازہ

(2) مخاطب کے مرض کی تشخیص

(3) مرض کا علاج کرنے کے لیے مناسب دلائل کے ساتھ گفتگو۔

ظاہر ہے کہ طریقِ دعوت کا یہ جز، حالات کے ساتھ بدلتا رہے گا۔ اگر حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں  مخاطَب فرد یا گروہ کی کیفیت بدل جائے تو نئی کیفیت کے مطابق، اس سے گفتگو کرنی ہوگی۔ اس نئے اسلوب کی درست نشاندہی کے لیے حالات کا صحیح فہم درکار ہے اور دین کی گہری سمجھ بھی ضروری ہے۔ اصولی طور پر دعوت کے طریقِ کار کے سلسلے میں  اجمالی رہنمائی یوں  کی جاسکتی ہے کہ ’’اسلوبِ دعوت حکیمانہ ہونا چاہیے‘‘ لیکن کسی متعین مخاطب کے اعتبار سے حکیمانہ اسلوب کیا ہے، اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے داعی کو محنت کرنی ہوگی۔

مولانا مودودیؒ مزید فرماتے ہیں

’’عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفانہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کوبھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں  اور گمراہیوں  کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں  اُن (برائیوں ) کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی ابھارا جائے اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عملِ صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔

(نصیحت کا) دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیرخواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں  اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں  اس کی بھلائی چاہتا ہے۔‘‘ (ایضاً)

دعوتی کے طریقِ کار کا یہ جُز، حالات بدلنے سے متاثر نہیں  ہوتا۔ ہر قسم کے حالات میں  عمدہ نصیحت کی ضرورت باقی رہتی ہے اور اس نصیحت کے مؤثر ہونے کے لیے داعی کی نیک نیتی لازمی شرط ہے۔دعوت کے طریقِ کار میں  جدالِ احسن کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید نے جدالِ احسن کی اجازت دی ہے۔ اس اصطلاح کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں :

’’(جدالِ احسن) کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں  کج بحثیاں  اور الزام تراشیاں  اور چوٹیں  اور پھبتیاں  نہ ہوں ۔ اس کا مقصود، حریف مقابل کو چپ کردینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجادینا نہ ہو۔ بلکہ اس میں  شیریں  کلامی ہو، اعلیٰ درجے کا شریفانہ اخلاق ہو، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں ۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ (مخاطب) کج بحثی پر اُتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں  اور زیادہ دور نہ نکل جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ نحل، حاشیہ 123)

اس تشریح سے ظاہر ہے کہ مروجہ مناظرہ، جدال احسن کی تعریف میں  نہیں  آتا۔ تاریخی وجوہ سے اب مناظرے کے ناپسندیدہ طریقوں  کا چلن خاصا کم ہوگیا ہے، لیکن جس حد تک باقی ہے اس کی ہمت شکنی کی ضرورت ہے۔ طریقِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے کہ مخاطب کے اندر جس حد تک حق پسندی کا جذبہ موجود ہو، وہ فروغ پائے۔ اس کے ساتھ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ جاہلی حمیت کے جذبات مخاطب کے اندر نہ ابھرنے پائیں ۔ قرآنِ مجید میں  جدالِ احسن کی جو مثالیں  موجود ہیں  ان کو سامنے رکھا جانا چاہیے۔

دعوت کی ترتیب

قرآنِ مجید میں  انبیاء علیہم السلام اور داعیانِ حق کی دعوتی تقاریر کا تذکرہ موجود ہے۔ ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ داعی کو اساسی امور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے یعنی وہ اللہ اور رسول پر ایمان کی دعوت دے، آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدا رکرے، فضائلِ اخلاق کی تلقین کرے، معروف کا حکم دے، منکر سے روکے اور حقوق العباد کی ادائیگی کی نصیحت کرے۔ جب مخاطب بنیادی امور کو سمجھ لے تب اس کے سامنے شریعت کی تفصیلات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہی ترتیب انسانی نفسیات کے مطابق ہے۔ جب دلوں  میں  استعداد اور ذہنوں  میں  آمادگی پیدا ہوجائے تب عمل کے طریقوں  کی تعلیم مفید اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔مخاطب افراد اور گروہوں  کے سلسلے میں  مندرجہ بالا فطری ترتیب کے علاوہ اُن نکات کا تذکرہ بھی مناسب اور مفید ہے، جو مخاطب کے نزدیک بھی تسلیم شدہ ہوں ۔ دعوت کے دیگر پہلوؤں  سے ان مسلّمہ نکات کا ربط بآسانی واضح کیا جاسکتا ہے۔ قرآنِ مجید نے اہلِ کتاب کو خطاب کرتے ہوئے مسلمہ حقائق (کلمہ سواء) کا تذکرہ کیا ہے:

’’کہو، اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں  ہے، یعنی یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں  اور ہم میں  کوئی، کسی اور کو، اللہ کے علاوہ رب نہ بنائے۔ پس اگر وہ اس بات کو ماننے سے منھ موڑیں  تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان (اللہ کے فرما ں بردار) ہیں ۔‘‘ (سورہ آلِ عمران، آیت:۶۴)

مختلف مخاطب گروہوں  کے اعتبار سے کلمہ سواء کیا ہے، یہ جاننے کے لیے اس گروہ کے حالات کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ چنانچہ حالات کے بدل جانے کی بنا پر ازسرِ نو، مطالعے اور تحقیق کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔

متوقع مراحل

یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ دعوتی جدوجہد، حالات کے فہم اور مناسب منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے۔ داعی، پچھلے داعیانِ حق کے تجربات کی روشنی میں  یہ اندازہ بھی کرسکتا ہے کہ دعوت کی پیش کش کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ مخاطب فرد یا گروہ کا ردِ عمل کئی قسم کا ہوسکتا ہے:

(1) مخاطب دعوتِ حق کو قبول کرلے۔

(2) مخاطب بے پروائی برتے اور دعوتِ حق کو نظر انداز کردے

(3) مخاطب دلچسپی کا اظہار کرے، اپنے سوالات و اشکالات پیش کرے اور تفصیلات کا طلب گار ہو۔

(4) مخاطب دعوت کی مخالفت پر اتر آئے اور اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرے۔

ماضی کے داعیانِ حق کو ردِ عمل کی ان مختلف صورتوں  سے سابقہ پیش آتا رہا ہے۔ آج بھی مندرجہ بالا حالتوں  میں  سے کوئی حالت پیش آسکتی ہے۔ اسوہ انبیاء کی روشنی میں  داعی اپنا رویہ متعین کرسکتا ہے۔ جو لوگ دعوتِ حق کو قبول کرلیں  اُن کی تعلیم و تربیت پر توجہ کی جانی چاہیے اور اگر اُن کو آزمائشیں  پیش آرہی ہوں  تو اُن کی مدد کی جانی چاہیے۔ جو افراد بے پروا ہوں  اور بے نیازی برتیں ، اُن کی اس روش کو بدلنے اور اُن کے اندر سنجیدگی ور احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہ آئے تو ایسے بے نیاز افراد پر مزید وقت صَرف کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے برعکس داعی کے لیے وہ افراد بڑی قدروقیمت رکھتے ہیں  جو دعوتِ حق سے دلچسپی لے رہے ہوں  اور پیغامِ حق کو سمجھنا چاہتے ہوں ۔ داعی کو ان پر توجہ صَرف کرنی چاہیے اور دلائل کی روشنی میں  اسلام کی حقانیت اُن پر واضح کرنی چاہیے۔ مخالفین کی مخالفت کے جواب میں  ثابت قدمی، صبر اور استقامت سے کام لیا جانا چاہیے۔ اسلامی لٹریچر میں  اس نکتے کی تفصیلات موجود ہیں ۔

اقامتِ دین اور کارِ دعوت

یہ حقیقت ملحوظ رہنی چاہیے کہ دعوت کا عظیم کام انجام دینے کی ذمہ داری پوری امتِ مسلمہ پر عائد ہوتی ہے اور فریضہ دعوت، کارِ اقامتِ دین کا ایک جز ہے۔ اس بنا پرامت کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ دین کی اقامت کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے۔ اس منصوبہ بندی کی کامیابی کے لیے امت کے حالات کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ جامع منصوبے کو سلیقے کے ساتھ ترتیب دینے اور روبہ عمل لانے کے لیے منصوبے کے ناگزیر اجزاء کا استحضارضروری ہے۔ یہ ناگزیر اجزاء، جن پر ہر قسم کے حالات میں  توجہ دینی ہوگی، درجِ ذیل ہیں :

(1) امتِ مسلمہ کے افراد کی جامع تعلیم وتربیت

(2) امت کا تحفظ و دفاع اور اس کے مسائل کا حل

(3) امت کے نظامِ اجتماعی کااحیاء اور امت کی ضرورتیں  پورا کرنے والے اداروں  کی تعمیر

(4) انسانیت عامہ کو حق کی طرف دعوت

(5) امت کے اندر اور باہر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر

(6) دنیا میں  عدل کے قیام کی کوشش

درج بالا سارے امور پر توجہ دی جائے تب اقامتِ دین کے تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں ۔ دین کے قیام کے لیے محض دعوتی سرگرمیاں  کافی نہیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا امور کے سلسلے میں  عملاً پیش رفت کے لیے دین میں  گہری بصیرت حاصل کرنے کے علاوہ موجودہ حالات کو سمجھنا بھی ضروری ہوگا۔ دنیا کے حالات کو بھی اور خود امت کے احوال کو بھی۔ اسی طرح اقامتِ دین کے منشا کو پورا کرنے کے لیے موجودہ سرگرمیوں  کے علاوہ نئی راہیں  بھی نکالنی ہوں  گی، جن میں  حالات کے تغیر کے ساتھ، تبدیلی اور ارتقاء کی گنجائش ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔