چیٹر

 محمد عباس ثاقب

 گاڑی کے جی پی ایس کی بدو لت یحییٰ چوہدری اور اقبال رانا کو کلفٹن میں پرانزو ریسٹورنٹ ڈھونڈنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ واپسی پر 26اسٹریٹ پرچڑھنے کے بعدیحییٰ نے گاڑی فیز فائیوکی طرف  بڑھاتے ہوئے کہا ’’یار مزا آگیا، اتنا authenticسی فوڈ بہت دن بعد کھایاہے!‘‘

’’ سوپ بھی OK تھا۔ ایسا کرتے ہیں ۔ نیکسٹ منتھ پھر وزٹ کرتے ہیں یہاں کا!‘‘اقبال نے تائید کرتے ہوئے تجویز پیش کی جو نعمان نے قبول کرلی۔ یہ اعزاز شہر کے بہت کم طعام خانوں کو حاصل ہوسکا تھاکیوں کہ ہرویک اینڈ پر شہرکاکوئی نیا ریسٹورنٹ ڈھونڈکروہاں ڈنر کرنا ان دونوں دوستوں کا مشترکہ شوق تھا۔

 گاڑی سگنل پر رک چکی تھی۔ نعمان مزید کچھ کہنے ہی والا تھاکہ معقول حلیے والے ایک ادھیڑ عمر اجنبی نے اسے متوجہ کیا ’’ ایکسیوزمی سر، آپ میرے لیے ایک منٹ Spareکرسکیں گے؟ کوچ والے نے کرایا مانگا تو پتاچلامیں اپنا پرس آفس میں بھول آیاہوں ، اس نے بدتمیزی کرکے یہاں اتار دیا … مہربانی ہوگی ، اگر آپ…‘‘

’’Sorry‘‘ نعمان نے اس کی بات کاٹ کر گاڑی بڑھادی۔ا قبال نے کہا’’  جینئین لگ رہاتھا،پچاس روپے …‘‘

نعمان نے اسے بھی بات پوری نہ کرنے دی’’ ڈریسنگ سے دھوکا نہ کھاؤیار، نفسیاتی حربوں کے ماہر فن کار میدان میں آئے ہوئے ہیں، آج کل!‘‘اقبال نے حسب عادت بحث سے گریز کیا۔

اگلی جمعرات نعمان نے اپنی پراپرٹی فرم کی گلشن اقبال برانچ کا دورہ کیا۔ واپسی پر شارٹ کٹ کے چکر میں اس نے گاڑی ایک سائیڈ روڈ پر گھمادی ۔ اپنی غلطی کااسے فوراً ہی احساس بھی ہوگیا۔ دو موٹر سائیکلوں پر سواربدمعاش شایدکافی دیرسے اس کا پیچھا کررہے تھے۔ انہوں نے سائیڈپر بائیک لگاکر گن کے اشارے سے اسے رکنے پر مجبور کیااور ان میں سے دونعمان کی گاڑی میں سوارہوگئے۔ ان کے پاس نائن ایم ایم پستول تھے۔ اس سے سب کچھ چھیننے کے بعد  عزیز بھٹی پارک کی طرف چلنے کا حکم دیاگیا۔ نعمان نے گھبرا کر کہا’’ یار تم نے سب کچھ تو لے لیا،اور کیا چاہتے ہو؟ ‘‘

’’ فکر نہ کروانکل… ہم Kidnapperنہیں ہیں … یہ گاڑی چاہیے ہمیں … اچھے دام نکل جائے گی!‘‘

’’ پراس گاڑی …‘‘ سینئر ڈکیت نے بات کاٹ کرکہا’’پتاہے…  ہرگاڑی میں ٹریکرفٹ ہوتاہے آج کل … پر اس کا علاج ہے اپنے پاس … چپ چاپ گاڑی آگے بڑھاؤ…  کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش نہ کرنا!‘‘

نعمان ان کے اشارے پرمسلسل گاڑی دوڑاتارہا، حتیٰ کہ راستوں کی شناخت کھوبیٹھا۔اتنا اندازہ تھا کہ وہ گڈاپ کے علاقے میں بھٹک رہاہے۔ بالآخر ایک سنسان مقام پرگاڑی رکواکراسے پستول کی نوک پر نیچے اتاردیا گیا۔ اگلے ہی لمحہ گاڑی ایک زناٹے سے آگے بڑھی اور گہرے ہوتے اندھیرے میں گم ہوگئی ۔

نعمان کچھ دیر بت بنا کھڑا رہا، سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیا کرے ۔ بالآخر محض چھٹی حس کے سہارے ایک طرف چل پڑا۔ اندھیرا گاڑھا ہورہاتھا۔ بالآخر نماز عشاکی اذان نے اس کی رہنمائی کی۔ ایک دکان کے بورڈ نے بتایا کہ وہ کچی آبادی عبداللہ گبول گوٹھ ہے۔ اسے اپنے رگ و پے میں زندگی لوٹتی محسوس ہوئی ۔ اسے یاد آیا وہاں سے لیاری بستی کچھ ہی فاصلے پرہے جہاں سے شہر پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔

 آدھے گھنٹے میں وہ لیاری بستی کے وسط سے گزرنے والے کشادہ روڈ پر پہنچ گیا۔ عین اس وقت اسے ایک چنگچی رکشا اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ نعمان نے اسے روکااور پوچھا’’یہ رکشاکہاں جائے گابھائی ؟‘‘

’’سرجانی …اورکدھر؟…تیرے کو کہاں جاناہے؟‘‘

’’وہیں چھوڑدینابھائی …پرایک ریکویسٹ ہے… میرے پاس کرایا نہیں ہے… مجھے ڈاکوؤں نے …‘‘

چنگچی والے نے زاری سے اس کی بات کاٹ دی’’کرایانئیں ہے تو پیدل مارچ کروناں بابا…ہم نے کوئی ایدھی سینٹر تھوڑی کھول رکھاہے…‘‘

 بے بس نظروں سے آگے بڑھتے  رکشے کودیکھتے نعمان کے کانوں میں رکشے والے کے آخری الفاظ پڑے ۔ وہ اپنے اکلوتے پسنجر کو کہہ رہاہے’’ دیکھا…کیسا  بابولوگ کے حلیے میں پھرتاہے آج کل چیٹر لوگ!‘‘

تبصرے بند ہیں۔