ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی

عبدالعزیز

 اگر انسانیت مری ہوئی ہو اور حکمراں انسانیت نواز نہ ہوں اور قوانین بھی وحشیانہ اور ظالمانہ ہوں تو ایسے ماحول میں انسان جرم و گناہ کی طرف مائل ہوتا رہتا ہے پھر ایسا عادی مجرم بن جاتا ہے کہ انسانیت کی طرف اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن اللہ کی عنایت اور رحمت کی بارش کسی وقت کسی بھی برے سے برے انسان پر ہوسکتی ہے اور اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ سکتی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ایسے شخص کو بھی جو توبہ و استغفار سے اپنے اندر کے انسان کو زندہ یا بیدار رکھنا چاہتا ہے ظالم حکمرانوں کے اہلکار پھر اسے گناہوں کے دلدل میں گھسیٹنے لگتے ہیں ۔ ایسا شخص اللہ کی مدد سے ہی وہ اپنی توبہ پر قائم و دائم رہ پاتا ہے ورنہ ظالم انسان بگڑے ہوئے انسانوں کو بد سے بدتر بنانے یا بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔

 تحریک اسلامی کے سرکردہ رہنما اور دانشور پروفیسر خورشید احمد جیل کے اپنے زمانے کا ایک واقعہ اپنی کتاب ’’تذکرۂ زنداں ‘‘میں لکھتے ہیں جو یقینا پتھر سے پتھر دل کو بھی ہلا دینے والا ہے:

  ’’وہ رفقاء جو 6جنوری کو مجھ سے پہلے جیل پہنچ گئے تھے، ان کو عارضی طور پر چکر میں وارڈ نمبر 2کی ایک بَیرک میں رکھا گیا تھا۔ وہاں ایک عادی مجرم ’’جانی‘‘ کے ساتھ انھوں نے چند گھنٹے گزارے تھے۔ اس بیرک کو جیل میں ’’جانی لاج‘‘ ہی کہتے ہیں ۔ اس نے بڑی محبت اور تپاک سے اپنی چادر ان کی نماز کیلئے بچھائی تھی اور اپنی آنکھیں فرش راہ کی تھیں ۔ ہم اس سے عید ملنے گئے تھے لیکن وہ وہاں نہ تھا۔ جب اسے معلوم ہوا تو دوڑا ہوا آیا اور کچھ دیر ہمارے پاس بیٹھا رہا۔ اس کا واقعہ بھی عجیب ہے اور جو ہر انسانیت کو سمجھنے کیلئے چونکا دینے والا واقعہ ہے۔ یہاں آکر پہلا واقعہ ہم نے یہی سنا:

جانی نے بتایا ’’میں بچپن سے جرم اور گناہ کی زندگی گزار رہا تھا۔ دو سال پہلے تک قسم لے لو جو کبھی میں نے حلال کی کمائی کھائی ہو۔ میری بوٹی بوٹی اور ریشہ ریشہ حرام سے بنا ہے‘‘۔ پھر اس نے اپنا جسم دکھایا۔ جسم کا کوئی حصہ ایسانہیں تھا، جس پر چاقوؤں کے گہرے اور لمبے نشانات نہ ہوں ۔ چھ انچ کھال بھی زخم کے نشان کے بغیر نہ تھی اور بہت سے زخم کئی کئی انچ لمبے تھے۔ اس نے بتایا کہ ہر قسم کے جرائم میں وہ ماخوذ رہا ہے اور بارہا جیل آچکا ہے؛ بلکہ ’’میرا گھر ہی جیل ہے۔ باہر نہ ماں ہے، نہ بیوی نہ اولاد، نہ کوئی اور رشتہ دار!‘‘

لیکن ایک واقعہ ایسا ہوا کہ اسی عادی مجرم کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی! اسی کی زبان سے سنئے:

’’میں نے ’لی مارکیٹ‘ پر ایک بڈھے کی جیب کاٹی، شاید 40روپئے تھے۔ فوراً شراب خانے گیا اور خوب پی۔ میں واپس آرہا تھا تو سڑک کے کنارے ایک جگہ مجمع لگا ہوا دیکھا، میں بھی لڑکھڑاتا ہوا وہیں پہنچ گیا۔ دیکھا تو ایک بوڑھا آدمی زار و قطار رو رہا ہے اور لوگوں کو اپنی بپتا سنا رہا ہے کہ میرے بیٹے کی میت گھر پر پڑی ہے، میری کل پونجی چالیس روپئے، جو لے کر اس کے کفن اور تدفین کے انتظامات کیلئے گھر سے چلا تھا کہ کسی ظالم نے میری جیب کاٹ لی ہے اور میں خالی ہاتھ رہ گیا ہوں ‘‘… یہ آواز جو میرے کان پر پڑی تو میں چونکا، میرا نشہ ہرن ہوگیا اور میں نے اسے غور سے دیکھا۔ یہ تو وہی بڈھا تھا جس کی جیب میں نے کاٹی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: جانی! تجھ پہ خدا کی لعنت ہو! تو کس مقام پر اتر آیا ہے۔ دوسرے ہی لمحے میں اس بڈھے کے قدموں پر گرگیا۔ میں نے کہا: ’’بابا! میں ہی وہ بدبخت ہوں جس نے تیری جیب کاٹی ہے اور تیرے روپے سے شراب پی ہے… یہ لے بس یہ روپے باقی بچے ہیں اور تو مجھے مار ڈال۔ مجھے زندہ رہنے کا حق نہیں ۔ ’’بڈھے پر اس کا بڑا اثر ہوا۔ بڑا شریف آدمی تھا، اس نے مجھے سینے سے لگالیا۔ دوسروں نے کچھ مدد کی اور وہ اپنے بیٹے کی تدفین کے انتظام کیلئے چلاگیا… لیکن میرا حال غیر تھا، دل تھا کہ امنڈا آتا تھا، کسی پہلو قرار نہ تھا۔ اگلے دن خود مجسٹریٹ کے سامنے پہنچ گیا اور اسے پوری کہانی سنائی اور کہا کہ میں نے چوری کی ہے، میرے ہاتھ کاٹ دو، میرے جرم کا یہ بدلہ ہے! مقدمہ کی سماعت ہوئی، بڈھے نے گواہی دی اور کہاکہ میں اسے معاف کرتا ہوں اور مجسٹریٹ نے بھی میرے ساتھ ہمدردی کی، اس نے مجھے چھوڑ دیا اور میں نے قسم کھائی کہ آج کے بعد حرام نہیں کماؤں گا اور اپنی محنت سے حلال روزی کھاؤں گا‘‘۔

 یہ کہہ کر جانی رک گیا۔ اسکے چہرے پر ایک معصوم سی وحشت تھی! اس نے پھر کہا: ’’لیکن یہ میری مشکلات کا اختتام نہ تھا بلکہ اب تو نئی مصیبتیں شروع ہوگئیں ۔ میں دو تین روپے روز کماتا، دن بھر کام کرتا۔ اب میرا ضمیر مطمئن تھا۔ میں خوش تھا کہ جرم اور گناہ کی زندگی سے بچ گیا، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پولس کے کچھ لوگوں نے مجھے تلاش کرلیا۔ میں نے بہتیرا کہاکہ اب میں تائب ہوچکا ہوں لیکن انھوں نے کہاکہ اب تم ہمارے لئے کام کرو اور فلاں فلاں بدمعاشوں کی مخبری کرو، ورنہ ہم تم کو ماریں گے اور جیل کرا دیں گے۔ میں بہتیرا بچا لیکن پولس سے کہاں بچ سکتا تھا، بارہا پٹا۔ مخالف پارٹی کوبھی علم ہوگیا۔ اب وہ بھی میری جان کے دشمن ہوگئے۔ ادھر یہ مارتے اور ادھر وہ۔ بار بار میرے قدم ڈگمگائے ۔ پھر اس زندگی کی طرف لوٹنے والا تھا کہ پولس نے ایک مقدمہ میں رکھ کر یہاں بھیج دیا‘‘۔

 یہ اس کی روایت ہے۔ اس میں کس قدر صداقت ہے، اس کو خدا ہی جانتا ہے، لیکن جیب کاٹنے والا واقعہ درست معلوم ہوتا ہے۔ جانی پر غصہ اور جھنجلاہٹ طاری تھی۔ اس نے یہ بھی کہا ’’جب ہر حالت میں ذلت، قید اور موت ہی ہے تو پھر کوئی بڑا قتل کرکے مروں گا کیونکہ اور کوئی نجات کی صورت نہیں !‘‘… ہم سب لوگ جب اس کی کھولی سے روانہ ہونے لگے تو صادق صاحب نے دروازے پر اس کے کندھے پر ہاتھ کر کہا: ’’دیکھو جانی! جو عہد تم نے اپنے رب سے کیا اس پر قائم رہنا، مردانگی یہی ہے کہ کہ ہر حال میں آدمی عہد پر قائم رہے۔ خدا ضرور تمہاری مدد کرے گا‘‘ جانی کی زبان خاموش تھی۔ شدتِ جذبات سے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، اس کا چہرہ کہہ رہا تھا: اچھا میں عہد پر قائم رہوں گا۔

 بقرعید پر جانی سے ہماری ملاقات نہ ہوسکی،اس لئے کہ اسے کسی دوسری جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے، لیکن جانے سے پہلے وہ ہم سے ملنے آیا تھا۔ اب اس کے چہرے پر داڑھی تھی جو بڑی بھلی لگ رہی تھی۔ ہم اس سے گلے ملے، اس کو سگریٹ دیئے۔ صادق صاحب نے پوچھا: جانی! اپنی توبہ پر قائم ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں ! بالکل قائم ہوں ۔ خدا سے اپنی توبہ پر ہمیشہ قائم رکھے اور نیک زندگی کی راہ اس کیلئے آسان کر دے۔ آمین

اس واقعہ میں عبرت کے پہلو بھی ہیں اور امید کے بھی۔ بڑے سے بڑے مجرم میں انسانیت موجود ہے، ضرورت اسے بیدار کرنے کی ہے! برے سے برے اور گنہگار سے گنہگار مسلمان میں بھی اخلاقی حس اور دینی جذبہ موجود ہے، ضرورت اسے نکھارنے اور ترقی دینے کی ہے! جنھیں ہم مجرم کہتے ہیں ، ان میں بڑا قیمتی انسانی جوہر موجود ہے۔ ان کو ضائع کرنے اور سڑنے کیلئے پھینک دینے کی بجائے ضرورت ان کو سینے سے لگانے، اوپر اٹھانے اور ان کی انسانیت اور مسلمانیت بیدار کرنے کی ہے۔ کاش! اس ملک کو ایک اچھی اور صالح قیادت میسر آئے جو دین و اخلاق کے ذریعے اس قوم کی زندگیوں میں انقلاب لائے…  ع

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔