حامدی کاشمیری: ایک ہمہ جہت شخصیت

مصباحیؔ شبیر

یہ ایک حقیقت ہے کہ اُردو زبان و ادب کے مقبول و معتبر نقاد، محقق وتجزیہ نگار پروفیسر حامدی کاشمیری کی وفات اُردو زبان و ادب کے لئے کسی ناقابلِ فراموش سانحہ سے کم نہیں ہے۔  حامدی کاشمیری صاحب کا شمار بر صغیر کے نامور ادیبوں میں ہوتا تھا۔ برصغیر ہندو پاک کے باہر بھی اُن کی ادبی خدمات کو سراہا گیا ہے۔ ایسی شخصیات صدیوں میں جنم لیتی ہیں۔ جو ادبی خدمات انہوں نے انجام دی تھیں شاید اس کی بھر پائی کوئی اور کر سکے۔ اہل علم و ادب کے لئے حامدی صاحب کی ذات کسی مرجع و ماخذ سے کم نہیں تھی۔ جب وہ 1990سے 1993تک کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے تو کشمیر یونیورسٹی میں اپنی گوناں گوں صلاحیتوں  سے ایک روح سی پھونکی تھی۔ ان کی تصانیف کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔ ان کی اعلیٰ ذہانت، بیداری مغزی ودور اندیشی اور سب سے زیادہ ادب نوازی ان کی تحریر کردہ کتب کے مطالعہ سے اشکار ہوتی ہے۔ اُن کا ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے نہ صر ف اُردو زبان کی بے مثال خدمات انجام دی ہیں بلکہ اپنی مادری زبان کشمیری کوبھی بام ِ عروج تک لے جانے میں اُن کی خدمات ناقابل ِفراموش ہیں۔ اُن کی خدمات کو سراہاتے ہوئے انہیں ’’پدم شری ‘‘ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

پروفیسر حامدی کاشمیری ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار،شاعر اورتنقید نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں مشہور ہیں۔ لیکن اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود حامدی کاشمیری ایک خاموش طبع اور خوش اخلاق انسان تھے اُن کے بارے میں میں نے اُردو کے مشہور افسانہ نگار جوگندر پال کا ایک قول پڑھا تھا ’’ حامدی کاشمیری صاحب کے چہرے پر ہمیشہ پہاڑی موسم کا سماں بندھا رہتا ہے۔ ناراضگی میں بھی مسکراتے رہتے ہیں ‘‘اسی طرح محترمہ مصرہ مریم لکھتی ہیں۔ ’’ کم گوئی حامدی کاشمیری کی عادت ہے۔ چند ضروری باتیں کر لیتے ہیں اور بس، گھر میں بھی غیر ضروری باتیں نہیں کرتے ہیں۔ نہ کسی کی شکایت نہ مخالفت نہ غیبت نہ کسی پر تبصرہ نہ تنقید،وہاں بات ہوتی ہے تو اپنے بارے میں، اپنے گھر، اپنے بچوں، اپنے لکھنے پڑھنے کے بارے میں سب سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ لیکن اس سنجیدہ فضا کو حامدی ؔ ہی اپنے زور دار قہقہوں سے توڑتے بھی ہیں، ان میں مزاح اور شرارت بھی ہے۔ باتوں باتوں میں فقرے چست کرتے ہیں یا اچانک کوئی مزاحیہ بات کہہ جاتے ہیں۔ یا فی البدیہہ مزاحیہ شعر کہتے ہیں۔ یا کوئی ایسی حرکت کرتے ہیں کہ گھر زعفران زار بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں ’’ میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ ہر وقت ہنستے رہو۔ ‘‘ بچوں سے بالکل ایک دوست کی طرح برتائو کرتے ہیں۔ سختی اور درشتی ان کو چھو کر بھی نہیں گئی ہے ان کو غصہ بہت کم آتا ہے ‘‘.

پروفیسر حامدی کشمیری صاحب کے انتقال کی خبر سن کر دل بہت اُداس سا ہے۔ اہل کشمیر کے لئے حامدی کاشمیری کا نام قابلِ افتخار تھا۔ آخر موت سے مفر کسے ہے سو حامدی کاشمیری بھی داغ ِ مفارقت دے کر چلے گئے۔ پروفیسر حامدی کاشمیری کا انتقال اُردو و کشمیری زبان و ادب کے لئے ایک ناقابل ِ تلافی نقصان ہے۔ اُن کے اچانک انتقال سے جو خلاپیدا ہوا اُس کو پُر کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے۔

تبصرے بند ہیں۔