حجیت حدیث

انس بدام

جسٹس مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ حضرت کو اللہ تعالیٰ نے علوم دینیہ اور خصوصا علم فقہ پر جو دسترس دی ہے وہ کس بھی اہل علم سے مخفی نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس دور پر فتن میں اسلاف کی یادگار و باقیات کا نمونہ، علم و عمل کا حسین امتزاج اور مرجع عام و خاص نیز عصری و دینی علوم کا حامل ایسا آئڈل بنایا ہے جو مرج البحرین اور در کف جام شریعت و در کف سندان عشق کا مکمل مصداق ہے۔

حضرت کے قلم سے نکلی کئی تصانیف نے مقبولیت کے بہت سے نئے رکارڈ قائم کئے ہیں، اور حضرت کی انگریزی دانی اور اس پر کمانڈ کا اندازہ حضرت کے قلم سے نکلے انگریزی ترجمۂ قرآن سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن جیسی عظیم الشان اور نازک کتاب کے مطالب و معانی کا دوسری زبان میں تمام نزاکتوں و رعایتوں کو مدنظر رکھ کر ڈھالنا اسی شخص کے لیے ممکن ہو سکتا ہے جو عربی و انگریزی دونوں زبانوں پر کامل دسترس اور مکمل کمانڈ رکھتا ہو۔اسی سلسلے کی ایک کڑی زیر تذکرہ کتاب ہے، جو دراصل ایک مقالہ کی شکل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں "حجیت حدیث”کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔

کتاب کیا ہے، ایک ایسا تشفی بخش جوابوں کا مرقع اور عہد حاضر کے الجھے ہوئے ذہنوں کے تسلی بخش جوابات کا تجزیہ ہے جس کے مطالعہ سے تمام ڈاؤٹس اور شبہے کلیئر ہو جاتے ہیں۔

کتاب کا موضوع اس کے نام ہی سے ظاہر ہے، یعنی سنت کی اہمیت و حجیت اور اس کا استنادی معیار اور مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اسلامی قانون میں سنت کا درجہ اور بحیثیت اسلامی قانون کے مآخذ کے کیا مقام ہے؟ اس پر تفصیلی اور منطقی بحث کی گئی ہے۔
کتاب کل چھ ابواب مشتمل ہے۔جو بالترتیب

۱۔ "سنت: اسلامی قانون کا دوسرا سرچشمہ

۲۔وحی کی دو اقسام

۳۔حجیت رسالت اور اس کا وسیع دائرۂ اختیار

۴۔سنت کا درجہ استناد: تاریخ کی رو سے

۵۔تاریخ تدوین حدیث اور

۶۔احادیث پر جرح و تعدیل "جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔

کتاب دراصل انگریزی زبان میں لکھے مقالہ کا اردو ترجمہ ہے، جسے سعود اشرف عثمانی صاحب نے اتنے سلیس و عام فہم انداز میں اردو کا جامہ پہنایا ہے کہ پوری کتاب میں قاری کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی کتاب کا ترجمہ ہے۔علمی موضوع پر  اس قدر عام فہم انداز میں اتنی سلیس کتاب میرے محدود و مختصر مطالعہ میں نہیں آئی۔دراصل یہ ایک عام قاری ہی کے لیے لکھی گئی ہے اور خاص کر ان حضرات کے لیے جو ہمارے عہد کے مستشرقین اور گمراہ کن  مصنفین کی کتابیں پڑھ کر اپنے ذہن و دماغ میں شکوک و شبہات کے بیج بوئے ہوئے ہیں، اور خاص کر حدیث کی حجیت و وحی غیر متلو کے منکر ہو گئے ہوں۔

165صفحات پر مشتمل یہ کتاب مختصر لیکن مدلل اور معروضی انداز میں ان تمام شکوک شبہات کے رفع کرنے کے لیے کافی ہے۔اس کے پہلے باب میں سنت کی تعریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور ان کا واجب الاتباع و واجب الاطاعت ہونا قرآن کی متعدد آیات سے ثابت کیا گیا ہے۔

دوسرے باب میں وحی کی دو اقسام وحی متلو اور وحی غیر متلو کی تعریف نیز وحی غیر متلو بھی قرآن ہی کی طرح قابل حجت اور واجب التعمیل ہے اس بات کو قرآن ہی سے اور عقلی و منطقی انداز میں تقریبا سولہ آیات سے ثابت کیا ہے۔اس کے علاوہ پیغمبر کی اطاعت اور حاکم اطاعت میں فرق کو بہترین و مدلل طریقے سے واضح فرمایا ہے۔

تیسرے باب میں آپ کی حجیت رسالت اور اس کا دائرہ اختیار بیان فرمایا ہے، جس میں آپ کے اختیارات بحیثیت قانون ساز، مفسر قرآن، دنیوی معاملات میں کن امور میں پیغمبر کی حاکمیت ہے؟ ان امور پر واضح قرآنی مثالوں سے معقول انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
چوتھے باب میں سنت کے درجۂ استناد کو تاریخی اعتبار سے کس قدر معتبر ہے؟ ثابت کیا گیا ہے۔ذخیرۂ حدیث کو کن معتبر ذرائع سے محفوظ و مدون کیا گیاہے اس پر بہت قیمتی اور معلومات افزا بحث ہے۔

پانچویں باب میں تدوین حدیث کی تاریخ پر مختصر لیکن جامع انداز میں بحث کی گئی ہے۔حفاظت حدیث عہد رسالت سے کن کن طریقوں سے کی گئی اور کتابت حدیث کا عہد رسالت میں مروج و معمول میں ہونا نیز وہ ذخیرہ کتب جو عہد رسالت و عہد صحابہ میں تحریری شکل میں وجود میں آئیں ان پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور ان ذخیرۂ کتب کی جو پہلی صدی، دوسری صدی ہجری میں مدون ہوئی ایک قیمتی فہرست دی ہے۔

چھٹا باب جو کتاب کا آخری باب ہے، احادیث پر جرح و تعدیل، جانچ پڑتال کے طریقے اور رواۃ حدیث کا عظیم علم فن رجال پر بحث کرتا ہے۔جس میں احادیث کی مشہور اقسام اور حدیث کے صحیح اور حسن ہونے کے معیار و ٹیسٹ پر بہت ہی معلومات آفریں بحث ہے۔مجموعی طور پر یہ کتاب ان سوالوں کا جواب ہے۔

رسول اللہ کی سنت کیا ہے؟ اس کا درجہ کیا ہے؟

اس کے احکامات کیوں اور کیسے واجب التعمیل ہے؟

احادیث کی حفاظت اور آئندہ نسلوں تک محفوظ صورت میں منتقل کرنے کے لیے کیا معیار تشکیل دیے گئے ہیں ؟

اسلامی قانون میں قرآن کے علاوہ کوئی اور بھی ذریعہ حجیت و استناد کا درجہ رکھتا ہے؟

کیا رسول کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے؟ یا اس کی اطاعت و اتباع بھی ضروری ہے؟

کیا رسول کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت و اتباع ہے؟

قرآنی وحی کے علاوہ بھی آپ پر کچھ نازل ہوتا تھا؟ اگر ہوتا تھا تو اس کا کیا درجہ ہے؟ آیا وہ بھی حجت اور واجب التعمیل ہے یا نہیں؟

کیا رسول کی اطاعت کافی ہے یا اتباع بھی ضروری ہے؟

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت حاکم تھے یا پیغمبر؟ یا دونوں ؟

کیا رسول کی حرام و جائز کی ہوئی چیزیں حرام و جائز کا درجہ رکھتی ہے؟

کیا قرآن کو واقعی کسی تشریح کی ضرورت ہے؟ قرآن کے اس دعویٰ میں جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو آسان بنایا گیا ہے؟ سے کیا مراد ہے؟

کیا رسول کی اطاعت ان کے زمانے کے لوگوں ہی کے ساتھ خاص تھی؟

رسول اللہؐ ایک محدود وقت اور مخصوص قوم کے لیے ہی پیغمبر بنائے گئے تھے؟ یا تمام بنی نوع انسانیت کے لیے؟

دنیاوی معاملات میں آپ کی آرا و اقوال حجت ہے یا نہیں ؟

کیا تدوین حدیث کا کام تیسری صدی سے پہلے نہیں ہوا؟

یہ اور اس قسم کے دوسرے کئی اہم سوالات کے مدلل اور منطقی جوابات حضرت مفتی صاحب نے قرآنی اور تاریخی حوالوں کے ساتھ قلمبند فرمائیں ہیں۔

یہ ایسی کتاب ہے جسے ہر اردو خواں کو کم از کم ایک بار ضرور پڑھنی چاہیے۔اگر کوئی اردو سے واقف نہیں تو اس کا انگریزی ورزن پڑھ کر مذکورہ سوالات جو آج کل فرقۂ باطلہ کی طرف سے اور دشمنان اسلام کی طرف سے بڑے زور و شور سے اٹھائے جا رہے ہیں، ان سے واقف ہونا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔