حج اور عمرے کو پکنک مت بنائیے

ڈاکٹر علیم خان فلکی

( صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد)

ہر سال عمرہ پر جانے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ الحمدلللہ۔ جن کی استطاعت ہے وہ بھی اور جنکی استطاعت نہیں ہے وہ بھی کسی نہ کسی طرح اس نفل عبادت کو فرض کی طرح ادا کرنے پر مصر ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؛ احادیث میں اس کی شاندار فضیلت جو بیان ہوئی ہے۔ ایک عمرہ پہلے عمرے کے بعد کے گناہوں کو دھو دیتا ہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ حج یا عمرہ سے لوٹنے والے کو اللہ تعالیٰ اس ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح  کردیتا ہے   جو گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ غور کیجئے ایک معصوم بچہ جھوٹ ، چوری، فریب، تعصّب، مسلک و مذہب کے بھیدبھاؤ سے پاک ہوتا ہے اسلئے ساری دنیا اُسے پیار کرتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے عمرے یا حج سے لوٹنے والوں میں ہم وہ کیفیت پاتے ہیں جس کی بنا ساری دنیا ان سے پیار کرے؟ ہم کسی کو نفل حج یا عمرے کی مبارکباد تو پیش کرتے ہیں لیکن کیا انہیں دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں یہ خیال نہیں آتا کہ کئی فرائض، واجبات اور مؤکّدہ سنّتوں کو جان بوجھ کر ترک کرکے ایک نفل عبادت پر لاکھوں روپیہ لٹا دینے کا کیا مقصد ہے۔ کیا ایسا نہیں محسوس ہوتا ہے کہ آج لوگوں نے نفل حج اور عمرہ کو ایک مذہبی پکنک کا درجہ دے رکھا ہے؟

ہمارا مقصد ایک عظیم عبادت سے روکنا نہیں ہے بلکہ ان تقاضوں کو یاد دلانا ہے جن کو ادا کئے بغیر ثواب تو مل جائیگا لیکن مکّہ اور مدینہ کا جو انقلاب انگیز پیغام ہے وہ پیغام دنیا کو ہرگز نہیں پہنچے گا بلکہ غیرقوموں کو یہ پیغام ملے گا کہ جس طرح دوسرے مذہب کے لوگ دیوستھانموں یا واٹیکن چرچ وغیرہ جاتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی مکہ اور مدینہ کا ایک مقدّس سفر کرکے آتے ہیں۔ کیونکہ جسطرح دوسروں کے اپنے مذہبی مقامات سے لوٹنے کے بعد ان کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آتا، مسلمان کی زندگی میں بھی کوئی انقلاب نہیں آتا۔

یاد رہے کہ حج یا عمرہ حضرت ابراہیم ؑ کی یادگار ہے۔ مکہ کی تعمیر اور اسکی طرف بلاوا ایک خاص مقصد کیلئے ہے جس کو سمجھے بغیر چلے جانا بہت بڑی نادانی ہے۔ حج یا عمرہ محض ویزا، ٹکٹ اور ایرپورٹ سے ایرپورٹ کے سفر کا نام نہیں ، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کے اُس پورے سفر کا نام ہے جو ان کے گھر سے لے کر مکّہ تک تھا۔

پہلا پڑاؤ: حلال آمدنی کی خاطر باپ کا گھر چھوڑ دینا

چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کی آمدنی حلال نہیں تھی ، وہ بُت بنا کر بیچتے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے والد کا گھر چھوڑ دیا۔ حلال کمائی کی اہمیت اس قدر شدّت سے بیان ہوئی ہے کہ اس کے بغیر نہ کوئی حج یا عمرہ اور نہ کوئی اور عبادت قبول ہوتی ہے بلکہ منہ پر مار دی جاتی ہے۔ قیامت میں نماز، روزے وغیرہ سے بھی پہلے جو پانچ لازمی سوالات ہوں گے ان میں حلال کمائی کے بارے میں سوالات ہیں کہ مال آیا کہاں سے  اور مال خرچ کہاں ہوا۔ احادیث میں یہ تک بیان ہوا ہے کہ جس بندے کی کمائی حلال کی نہ ہو اس کی دعاؤں کو زمین سے ایک فِٹ اوپر بھی نہیں اٹھایاجاتا۔ آج جتنے بزنس مین ، سیاستدان، مدارس والے، علماومشائخین، چندے کی رسید بکیں لے جانے والے ، بلڈرس، ڈاکٹرس، اسکولوں ہوٹلوں شادی خانوں دواخانوں کے مالک، پہلوان، لینڈ گرابرس، سرکاری افسر، بیٹوں کا جہیز اور کھانا مانگنے والے، اوپر کی آمدنی کو جائز کرنے والے ،  تما م حاجی  یہ سوچ لیں کہ ان کی آمدنی میں کتنی جھوٹ، چکمہ بازی، رشوت کا لین اور دین دونوں، ناانصافی اور خیانت شامل ہے۔ یہاں یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائیگی کہ عمرہ کرنے والوں اور دعائیں کرنے والوں میں ہر سال اضافہ کے باوجود کیوں کوئی دعا قبول نہیں ہوتی، کیوں یہ امّت مسلسل ذلّت و رسوائی اور شکست  خوردگی کے گڑھے میں گرتی جارہی ہے۔ پتہ یہ چلا کہ ہمارے سفر کا نقطۂ آغاز ہی غلط ہے۔ جب تک آمدنی مکمل حلال نہیں ہوگی مکہ کا سفر شروع ہی نہیں ہوسکتا۔ اور حلال کمائی کے بغیر ایک لاکھ عمرے بھی کرلیں تو وہ انعام حاصل نہیں ہوسکتا جوحج کا اصلی مقصد ہے۔

دوسرا پڑاؤ: بتوں کو توڑنا

گھر چھوڑنے کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کے سامنے بتوں کی محبت کو لوگوں کے دلوں سے نکالنا تھا۔ اس کے لئے بتوں کو توڑنا لازمی ہے۔ آج یقیناً مٹی یا پتھر کے بتوں کو کوئی مسلمان نہیں پوجتا لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور بُت ہر گھر اور ہر شخص کے دل میں نسب ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے صرف بُت منہدم نہیں کئے بلکہ ان عقائد کا خاتمہ کیا جو ان بتوں سے وابستہ تھے۔ یعنی غلط عقائد کے بت، مشرکانہ رسم ورواج کے بت، دوستوں اور رشتہ داروں سے کٹ جانے کےخوف کے بت، بکروں اور مینڈھوں کی طرح اکثریت کے ساتھ چلنے کے بت، انا کے بت، خاندان، طاقت، دولت اور سیاست کے بت ، حکومت اور قانون کے خوف کے بت، جیل اور سزائے موت کے خوف کے بت۔ جب تک آدمی اِن بتوں کو نہیں توڑتا اس وقت تک اس کا اصلی سفر شروع ہی نہیں ہوتا۔ جب ابراہیم ؑ نے ایک ایک کرکے ان سارے بتوں کو توڑا تو پہلے گھر چھوٹا، پھر محلّہ، پھر شہر اور پھر اس کے بعد ملک بھی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور اسکے  بعد سوائے مکہ کی طرف نکلنے کے اور کوئی راستہ ہی نہ رہا۔ عمرے یا حج کا بھی یہی نصاب ہے۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ جو بندہ اُس کی طرف آئے وہ تمام بتوں کو توڑ کرآئے۔ اللہ تعالیٰ کے پاک گھر جانے کی یہ شرط ہے کہ آدمی اپنے کردار کو پاک کرکے آئے۔ جو نہ حرام کمائی چھوڑے اور نہ ان تمام بتوں سے ناطہ توڑے پھر بھی منہ اٹھا کر مکّہ چلے آئے اسے ثواب یا زیارتوں کی خوشی تو شائد مل جائے لیکن  اُس کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آتا۔

تیسرا پڑاؤ :خاندان اور اولاد کی محبت کے بت توڑنا

جب ملک بھی چھوڑ کر نکل جاتے ہیں اور مکّہ پہنچ جاتے ہیں وہاں بھی ایک آزمائش اور باقی ہے وہ یہ  کہ بیوی اور بچے کو تنہا چھوڑ کر نکل جاو اور اگر اللہ کا حکم ہو تو یہ ثابت کردو کہ اللہ کے حکم کے آگے میں اولاد کو بھی ذبح کرسکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مکہ بلا کر جو انعام عطا کرنا چاہتا ہے وہ اس وقت تک نہیں دیتا جب تک کہ بندہ دل میں صرف اور صرف اللہ کی محبت کو نہ جاگزیں کردے۔ بندہ  اپنے مانباپ کا گھر، شہر اور ملک تو چھوڑ سکتا ہے جیسے کہ بے شمار این آر آئز چھوڑتے ہیں لیکن یہ سب اپنے بیوی اور بچوں کے مسقبل کی خاطر کرتا ہے۔ انہی کیلئے ہر گناہ کر گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔ ایک ہی دل میں دو دو کی محبّتیں نہیں پل سکتیں۔ کیونکہ زندگی میں قدم قدم پر یہ مرحلہ آتا ہے کہ یا تو اللہ کے حکم کے آگے بیوی بچوں کے مستقبل کی قربانی دو یا پھر اِن کی خاطر اللہ کی قربانی دو یعنی اس کے حکم کو جانتے بوجھتے ٹال دو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ جب ثابت کردیا کہ وہ اللہ کے حکم کے آگے بیوی تو کیا بیٹے کو بھی قربان کرسکتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ شاندار انعام عطا ہوتا ہے جس کی خاطر یہ امّت بنائی گئی ۔ جس کو حاصل کرنا اس امّت کے ہر فرد پر فرض کردیا گیا۔ اور وہ انعام ہے جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ  اِنّی جاَعلِلُکَ لِلّنّاسِ اِماَما یعنی ’’میں آپ کو تمام انسانوں کا امام بناتا ہوں‘‘.

پتہ یہ چلا کہ حج یا عمرہ کا اصل مقصد محض ثواب یا استغفار نہیں ہے بلکہ اس دنیا کی امامت کا عطا کیاجانا ہے تاکہ جب یہ عمرہ یا حج کرنے والا اپنے خاندان، اپنے گاؤں یا شہر کو لوٹے تو صداقت کا امام، انصاف کا امام، سیاست اور تجارت کا امام بن کر لوٹے اور ساری دنیا نہ صرف اسکی تقلید کرے بلکہ اُسے ویسا ہی پیار کرے جیسے گناہوں سے پاک ایک معصوم بچے کو پیار کرتی ہے۔

لوگوں کو عمرے تو یاد ہیں غزوات کیوں یاد نہیں؟

لوگوں کو یہ پتہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے لیکن یہ کیوں یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے زندگی میں انیس غزوات یعنی جنگیں کیں؟ ہم سعودیوں اور پاکستانیوں سے کہیں زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح شرک کے گڑھ میں پیدا کیا ہے۔ ہم حضرت ابراہیم ؑ کی سنّت جس شاندار طریقے سے ادا کرسکتے ہیں وہ کوئی اسلامی ملک والا ادا نہیں کرسکتا۔ جہاں شرک مسلّط ہوگا وہاں قدم قدم پر جنگ ہوگی۔ آج یقیناً وہ غزوات ہیں نہ وہ ابو لہب اور ابو جہل۔ لیکن غور کریں تو آج غزوات کے وہ پورے پورے تقاضے موجود ہیں جن کا مقابلہ کرنا ہم پر عمرے یا نفل حج کرنے سے کہیں زیادہ ہم ہے۔ اگر محض عمروں، حج اور دعاؤں سے اسلام قائم ہوجاتا تو اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ طاقتور دعا بھلا اور کس کی ہوسکتی تھی جو جنگیں کئے بغیر ، اپنے دانت شہید کئے بغیر، صحابہؓ کے شہید ہوئے بغیراسلام قائم ہوجاتا ۔ اسی لئے آپ ﷺ کا ایک ارشاد ہمیں ملتا ہے کہ جس نے جہاد نہ کیا یا جہاد کا ارادہ بھی نہ کیا اور مرگیا وہ ہلاکت کی موت مرا۔ آج بھی وہی ابو جہل اور ابولہب ہر قدم پر دندناتے پھررہے ہیں۔ آج بھی اُن کا مقصد ہے  کہ اسلام اور مسلمانوں کو ختم کردیا جائے۔ مسجدوں کو مٹا دیا جائے۔ دینی تعلیم اور مدرسوں کو تہس نہس کردیا جائے، مسلمانوں کوغربت و افلاس سے دوچار کرکے انہیں تیسرے اور چوتھے درجے کا شہری بنادیا جائے، ان کے مردوں کو ڈرائیوروں، واچ مین اور ٹھیلے والوں کی قوم بناکر ان کی لڑکیوں کو ارتداد پر مجبور کردیا جائے،  ان کو نہ میڈیا میں آنے دیا جائے نہ سیاست میں ، نہ کھیل کود میں، نہ قومی دھارے میں نہ سرکاری دفتروں میں، نہ پولیس یا فوج کے اعلیٰ عہدوں پر انہیں آنے دیاجائے۔ دشمن کے وار کا آج طریقۂ کار مختلف ہے۔ آج کی جنگ میدان میں نہیں لڑی جارہی ہے بلکہ تعلیم، میڈیا اور ٹکنالوجی کے ذریعے لڑی جارہی ہے۔ کہیں کہیں نیچ ذات کے غنڈوں کو خوب پیسہ دے کر مسلمانوں کی آبادیوں، مسجدوں  اور تجارتوں کو تباہ و تاراج کرنے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان پر گئوماتا، یوگا، سوریہ نمسکار، وندے ماترم کو مسلّط کیا جارہا ہے۔ جو بھی ان محاذوں پر مقابلہ کرنے کی سوچے اسے دہشت گردی کے الزامات میں پھنسایا جارہا ہے۔ کیا یہ ساری باتیں ان تمام غزوات کے پہلے کے حالات کی یاد نہیں دلاتے؟ کیا ان حالات کا مقابلہ کرنا  نفل حج یا عمرہ  کرنے سے کہیں زیادہ اہم نہیں ہے؟  آج ہندوتوا کو مسلّط کرنے کیلئے سو سو کروڑ میں ایک ایک ایم ایل اے یا ایم پی کو خریدا جارہا ہے۔ کیوں؟ اُن کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ یہ پیسہ اُن کی قوم اُن کے قدموں میں نچھاور کررہی ہے۔ اور ایک ہماری قوم ہے کہ تھوڑا سا پیسہ اگر ہاتھ آجائے تو فوری شادیوں پر لٹاتی ہے، پھر  سالگرہوں، ختنہ، عقیقہ، روزہ رکھوائی، چہلم، فاتحہ وغیرہ پر لٹا دیتی ہے۔ پھر  ایک پولیس والے یا بلدیہ والے کو جس طرح کچھ دے دلا کر اپنے کام نکالتے ہیں اسی طرح  یہ لوگ دو چار لاکھ نفل حج یا عمرے پر پھینک کر اللہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اپنے ضمیر کی تسلیّ کیلئے فرائض اور اصل سنّتوںکو چھوڑ کر عمرے پر عمرے کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ یہ مدرسوں اور مسجدوں کو خوب چندے دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ خود اللہ میاں کی کفالت یہ کررہے ہیں اسلئے اپنی فرصت  اور موڈ سے جب بھی موڈ بنااللہ میاں سے ملنے نکل پڑتے ہیں لیکن بات جب اپنے بیٹے بیٹی کی شادی کی بات چیت کی آتی ہے، یا سیاسی گٹھ جوڑ کی ، یا تجارتی میٹنگ کی، یا اپنے پروفیشنل معاملات کی تو اللہ اور اس کے رسول کو باہر بٹھاتے ہیں۔ اللہ اور رسول کو اندر آنے اور ان کے معاملات میں رہنمائی کرنے کا حق نہیں۔ اللہ اور رسول کا مقام وہی ہے جو یہ اپنی مصلحت سے موقع محل نکال کر خود دیں، اوران ہی کی دیکھا دیکھی  دوسرے بھی  کہیں شوق میں کہیں احساسِ کمتری میں اور کہیں مقابلے اور برابری اور دکھاوے کے چکّر میں عمرہ پر عمرہ کرنے کی دوڑ لگارہے ہیں۔

ذرا حساب کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سال ہندوستان سے تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار لوگوں نے عمرہ ادا کیا۔ حج کا کوٹہ بھی اتنا  ہی ہے۔ ان میں آدھے سے زیادہ وہ ہوتے ہیں جو پہلے ہی حج یا عمرے کرچکے ہوتے ہیں۔ اوسطاً دو لاکھ فی کس کے حساب سے کروڑوں نہیں اربوں روپیہ جو ایرلائنس، ایجنٹس، ہوٹلوں اور سعودی تاجروں کے حوالے ہورہا ہے۔پاکستان کا بھی یہی حال ہے۔ قوم غربت، افلاس، دہشت گردی، جہالت ، تو کہیں آفاتِ سماوی کا شکار ہے اور ہر امیر آدمی عمرہ کرنے جارہا ہے۔  یہ امت کا بہت بڑا نقصان ہے۔ علمائے دین چاہے جس مسلک کے ہوں وہ اس بات کی اجازت دے ہی نہیں دےسکتے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ   قوم جنگ جیسی صورتِ حال سے گزررہی ہے ، قوم اپنے سرمائے کو بجائے قوم کی فوری مدد کرنے کےنفل عبادتوں پر خرچ کرے۔ ایسے وقت میں  ایک طرف علی ابن ابی طالبؓ ، خالدبن ولیدؓ، عمربن خطابؓ  اورابوعبیدہؓ  جیسے ذہین مردانِ مجاہد چاہئے تو دوسری طرف عثمانِ غنیؓ  اور عبدالرحمان بن عوفؓ جیسے مالدار لوگ بھی چاہئے جو ایسے نازک وقت میں اپنا مال اُن مردانِ مجاہد کے قدموں میں رکھ دیں۔ آج پورے خلوص و للٰہیت کے ساتھ دین کیلئے جان کی بازی لگانے والے افراد تو موجود ہیں لیکن مالداروں نے انہیں پسپائی پر مجبور کردیاہے۔ اپنی جیبوں سے مال نہیں نکالتے۔ اپنی ذات کو ملنے والی خوشی اور اطمینان کرنے والی نیکی تو ضرور کرینگے، چاہے وہ شادی ہو یا عمرہ ، لیکن اگر قوم کیلئے کچھ کرنے کی بات کی جائے تو گویا اِن کی ماں مرجاتی ہے، بیوا کی طرح ہائے ہائے کرنے لگتے ہیں، حالات خراب ہیں کا دکھڑا سنانے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا بھی یہی ہوتی ہے کہ یہ ساری زندگی ضروریات سے فارغ نہیں ہوسکتے، پریشانیاں اور مزید ضرورتیں ان کے ساتھ ان کی آخری سانس تک چمٹی رہتی ہیں۔ سارا مال یا تو بیٹے اور داماد لے جاتے ہیں یا پھر بے شمار تو ایسے ہیں جو اچانک مرجاتے ہیں، ان کے پاس کتنا مال تھا اس کا پتہ خود ان کے اپنوں کو نہیں ہوتا۔ اور کئی تو ایسے ہیں جو قوم پر خرچ نہیں کرسکتے ان کو کبھی سرکار، کبھی غنڈے  اورکبھی لیڈر لوٹ لیتے ہیں۔

ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ ہرگز نفل حج یا عمرہ نہ کریں۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ اگر  صرف ایک عمرہ کم کرلیں اور وہ پیسہ امّت کے ان افراد کے حوالے کردیں جو اس شکست خوردہ بلکہ ذلّت پذیر قوم کو تعلیم، دعوت و تبلیغ، اصلاح ِ معاشرہ، میڈیا اور ٹکنالوجی کے ذریعے اوپر اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں، دیکھئے قوم کی تقدیر بدل جائیگی۔ انشااللہ ۔

کُند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام  

 ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا  

(علامہ اقبال)

تبصرے بند ہیں۔