حج ایک نظر میں

عبدالعزیز

فرضیتِ حج: حج اللہ تعالیٰ کا عائد کردہ فرض ہے ان سب مسلمانوں کے لئے جو عاقل، بالغ اور اہل و عیال کی بنیادی ضروریات کا اپنی غیر حاضری کے دوران انتظام کرکے سفر حج کی آمد و رفت کے اخراجات اپنے پاس رکھتے ہوں ۔

اس فریضہ کے عاید ہوجانے کے بعد اس میں سستی کرنا کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔ حج ادا کرنے کو مومن بندے کے ذمّے اللہ کا حق قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا ہے:۔

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاوَّمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (سورہ آل عمران،آیت: 97)

اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہونچنے کی قدرت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔

اس آیت میں قدرت حج کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے اس فعل کو کفر کہا گیا ہے۔ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:

’’جس کو نہ کسی صریح احتیاج نے حج سے روکا، نہ کسی ظالم حکومت نے ، نہ کسی روکنے والے مرض نے اور پھر بھی

اس نے حج نہ کیا اور اسی حالت میں اسے موت آگئی تو اسے اختیار ہے کہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی بن کر مرے۔‘‘

اس ارشاد گرامی کی مزید وضاحت اپنے انداز میں حضرت عمر فاروق  ؓنے ان الفاظ میں کی:

’’جو لوگ قدرت کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جز یہ لگادوں ۔ وہ مسلمان نہیں ہیں ، خدا کی قسم وہ مسلمان نہیں ہیں ۔‘‘

اللہ کے خوش بخت بندے جو اللہ کی توفیق پاکر حج کا ارادہ کرلیتے ہیں ان کیلئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ حج کی نیت کو خالص اللہ کیلئے خاص کریں ۔ اس میں اور کسی غرض کی آمیزش نہ ہو۔

روانـگی :

حج کیلئے توفیق الٰہی پانے پر شکرانے کے دو نفل ادا کریں اور بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَے اللّٰہِ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کی دعا کے ساتھ راہِ حق میں روانہ ہوں ۔

احرام:

میقات پر پہونچ کر غسل کریں ۔ شکرانے کے نفل پڑھیں ۔ سِلا ہوا لباس اتار کر دو چادروں والا راہِ خدا کا لباسِ فقر پہنیں اور لبیّک لبیّک کے ترانۂ بندگی کا آغاز کردیں ۔ اس ترانے میں والہانہ پن اور جذب و شوق کی کیفیت کا نمایاں ہونا بہت ضروری ہے۔

بیت اللہ پر پہلی نظر: بیت اللہ شریف پر پہلی نظر پڑھتے ہی فوراً اپنی مغفرت کی دعا مانگیں اور پھر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ کا ورد شروع کردیں ۔

داخلۂ حرم:

باوضوہوکر باب السلام سے حرم میں داخل ہوں ۔ داخل ہوتے ہوئے دعا پڑھیں : بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰے رَسُوْلُ اللّٰہِ

 حرم میں پہلا کام: حرم میں داخل ہوکر سب سے پہلا کام حجر اسود کی طرف جاکر اسے بوسہ دینا ہے۔ بس پھر اس کے بعد دیوانہ وار طواف شروع کردیں ۔ بیت اللہ شریف میں تحیۃ المسجد طواف کے بعد ہوتا ہے۔

طواف کی نیت:

بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدِ۔

طواف: پھر حجر اسود کو بوسہ دے کر خانہ کعبہ کے گرد گردش شروع کرنے سے طواف کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جب آپ سات چکّر لگائیں گے، تو آپ کا ایک طواف مکمّل ہوجائے گا۔

پہلے تین چکّر رمل کے طریقہ پر قوت و توانائی والی چال کے ساتھ لگانا چاہئے۔ بعد کے چکّر پر سکون متانت و احساس بندگی و عجز کے ساتھ لگائیں ہر چکر کی تکمیل پر حجر اسود کو بوسہ دیں یا چھوتیں یا دور سے اس کی طرف اشارہ کریں ۔ طواف کے دوراں جو دعائیں یاد ہوں بس وہی پڑھتے رہیں ۔ اپنی زبان میں دعائیں ۔ عجز و بندگی کا اظہار، خشیت کا اہتمام، خوف اور محبت کے ساتھ مالک سے دعائیں ۔ اور اس کی قربت کا احساس، والہانہ پن اور دنیا سے بے تعلق ہوکر صرف درِ مولیٰ سے وابستگی کا ذوق و شوق۔

نوافلِ شکرانہ: طواف کی تکمیل پر 2 رکعت نفل شکرانے کے پڑھیں ہو سکے تو مقامِ ابراہیم ؑ پر ادا کریں ، ورنہ جہاں بھی جگہ مل جائے۔

ملتزم کا آستانۂ محبوب: اب کر مالک کی چوکھٹ پر آجائیے۔ حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ گویا درِ آقا کی چوکھٹ ہے۔ اس سے لپٹ جائیے اور اپنے دل کی ساری باتیں اور اپنی ساری آرزوئیں طلب کیجئے۔ اپنی ساری کوتاہیاں بیان کرکے رو رو کر معافی مانگئے۔جب تک طبیعت میں سکون پیدا نہ ہو چوکھٹ نہ چھوڑئیے۔

زم زم کا حوض:

اب آنکھیں خشک کرتے ہوئے زمزم کی طرف آئیے جو مالک کا عطا کردہ ایمانی آب حیات کا چشمہ ہے۔ اسے خوب سیر ہوکر پیجئے اور اس کا شکر ادا کیجئے جس نے عین مشکل کے وقت اسے ننھے اسماعیل ؑ کی خاطر نکالا اور اب ساری انسانیت کو صدیوں سے سیراب کررہا ہے۔

صفا و مروہ کی سعی: اب پیاس بجھ گئی ہے۔ کچھ تکان اتر گئی ہے تو چلئے اب راہ حق میں دوڑ لگائیے۔ پہلے حجر اسود کے پاس آکر دوبارہ اس کا استلام کیجئے یا بوسہ دیجئے، دعا کیجئے اور پھر باب الصفاء سے گزر کر صفا کی پہاڑی پر تین سیڑیاں چڑھ جائیے۔ پلٹ کر بیت اللہ کی طرف رخ کیجئے اور کندھوں تک ہاتھ اٹھاکر دعا کیجئے اور پھر مروہ کی طرف چل پڑئیے۔ جب کہ زبان پر درود وسلام ہو۔ جب سبز و ہرے ستون آئیں تو ان کے درمیان دوڑ کر چلئے۔ سامنے مروہ کی پہاڑی چٹان کی صورت میں آئے گی۔ وہاں پہونچکر کھڑے ہوکر دعا کیجئے۔

یہ آپ کا ایک چکر ہوگیا۔ اسی طرح سات پھیرے ہوں گے تو سعی مکمل ہوجائیگی۔

نفل شکرانہ :

سعی کی تکمیل کے بعد واپس مطاف میں آکر ایک طرف دو نفل شکرانے کے ادا کیجئے۔

بال ترشوانا:

اس کے بعد سر کے بال ترشوائیں کہ یہ آپ کا عمرہ مکمل ہوگیا ہے۔

ایّامِ حج: ایامِ حج 8؍ ذوالحج سے12؍ذو الحج تک 5 دن ہوتے ہیں ۔ اس دوران میں تلبیہ جاری رہے اور ہر نماز کے بعد تکبیریں بلند کی جائیں گی۔ تکبیر یہ ہے:

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ

یوم الترویہ:

8؍ذو الحج کا دن یوم الترویہ کہلاتا ہے جس روز حاجی حضرات تیار ہوکر حج کیلئے مکّہ مکرّمہ سے منٰی کیلئے روانہ ہوجاتے اور رات منٰی میں جاکر ٹھہرتے ہیں جو مکّہ مکرّمہ سے ۵ میل کے فاصلے پر ہے۔

وقوف عرفات: 9؍ذو الحج کی صبح کو حاجی عرفات کیلئے روانہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ جو منٰی سے 5 میل کے فاصلے پر ہے۔ عرفات میں پہونچنا حج کا اہم ترین رکن ہے۔ اس لئے اس دوران کثرت سے اللہ کی یاد کریں اور ہوسکے تو جبل رحمت کے پاس جاکر قیام کریں ۔ اس روز ظہر اور عصر کی نمازیں ملاکر میدانِ عرفات کی مسجد نمرہ میں ہوں گی اور خطبۂ حج ہوگا۔ مغرب کی نماز عرفات میں نہیں ہوگی۔

وقوف مزدلفہ:

مغرب کے وقت میدانِ عرفات سے واپسی شروع ہوجائیگی۔ میدانِ مزدلفہ منٰی کی طرف تین میل کے فاصلے پر ہے۔ اسی میدان میں پہونچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ملاکر پڑھی جائیں گی اور ذکر و فکر میں رات گزاری جائے گی اس میدان میں کثرت سے کنکریاں ہیں ۔ رمی جمار کیلئے کنکریاں اسی میدان سے چنی جاسکتی ہیں ۔

منیٰ کو واپسی:

10؍ذو الحج کو نماز فجر کے بعد مزدلفہ سے منٰی کی طرف روانگی شروع ہوجائے گی اور دن اچھی طرح نکلنے تک آپ منٰی کی وسیع و عریض وادی میں واپس اپنے کیمپ میں آجائیں گے۔ اب یہاں 10؍ذوالحج سے 12؍ذوالحج کی شام تک قیام رہے گا۔

رمی جمرۂ عقبہ: 10؍ ذو الحج کو ہی مزدلفہ سے واپسی کے بعد سب سے پہلے جمرۂ عقبہ کو سات کنکریاں ماری جائیں گی۔ یہ جمرۂ مکّہ مکرّمہ کی طرف ہے۔ یہ تین ستون میں جو منٰی اور مکّہ مکرّمہ کے درمیان واقع ہیں ۔ ان میں سے منٰی کی طرف سے پہلا ستون جمرۂ اولیٰ کہلاتا ہے۔ مکہّ کی طرف سے پہلا جمرہ عقبہ کہلاتا ہے اور درمیان والا جمرۂ وسطیٰ کہلاتا ہے پہلے دن 10؍ذو الحج کو صرف جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارتے ہیں ۔ اس جمرہ کو کنکریاں مارنے کے بعد تلبیہ کی پکار ختم ہوجاتی ہے۔ باقی دن صرف تکبیریں کہی جاتی ہیں ۔

قربانی:

رمی جمرہ عقبہ کے بعد قربانی دی جائے گی جو 10؍ذو الحج سے 12؍ ذو الحج کے ایام میں جب چاہیں دے سکتے ہیں ۔

حلق یا تقـصیر:

قربانی کے بعد سرمنڈادیا جاتا ہے یا بال ترشوادیئے جاتے ہیں اس کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں گویا احرام باندھنا تکبیر تحریمہ کی مانند ہے جس سے نماز حج شروع ہوجاتی ہے اور حلق کروانا ایسا ہے جیسے نماز سے سلام پھیر دینا۔

طوافِ زیارۃ یا افاضہ:

قربانی کے بعد طواف زیارۃ کیلئے مکّہ مکرّمہ میں پہونچ کر بیت اللہ شریف کا طواف کیا جاتا جو اسی طرح ہوتا ہے جیسے پہلے کیا گیا ہوتا ہے۔ اس طواف کے بعد جو باقی پابندیاں مباح چیزوں پر رہ گئی تھیں وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں ۔

رمی جمرات:

11؍ذوالحج کو منٰی کی طرف سے نماز ظہر کے بعد جمرات کی رمی کی جاتی ہے۔ اور جمرہ اولیٰ سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ رمی تینوں جمرات کی ہوتی ہے۔ اس روز اکیس کنکریاں استعمال ہوتی ہیں ۔ پھر 12 ؍ذو الحج کو ان ستونوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں جو فی ستون سات کے حساب سے 21 ہوتی ہیں ۔

کنکریاں مارتے ہوئے یہ دعا پڑھتے ہیں :

عَلٰی طَاعَتِ الرَّحْمٰنِ وَرَغْمًا لِلشَّیْطٰنِ

تبصرے بند ہیں۔