حج: عاشقانہ عبادت 

  مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم ؑکوکئی انعامات عطا فرمائے اور ان میں سب سے بڑاانعام یہ دیاکہ عبادت حج کوحضرت ابراہیم ؑ اوران کے گھرانے کے نام منسوب کر دیا۔ حضرت ابراہیم ؑ عاشق صادق تھے حج بھی عاشقانہ عبادت ہے۔ ابتداء سے انتہاء تک پوری عبادت عشق سے عبارت ہے۔ لوگ اپنے دل میں بیت اللہ کے طواف اورروضہ رسول ﷺ پہ حاضری کی جستجو لے کر احرام باند ھ کے نکل پڑتے ہیں ہرسال انسانوں کاجم غفیر کئی ممالک سے ایک ہی مقا م پہ اکھٹاہوتاہے اس کی کیاوجہ ہے اور یہ بھی کہ وہاں کیوں مذہبی رسومات اداکی جاتی ہیں آخر اس عبادت حج کی کیااہمیت ہے؟ان تمام باتوں پہ غور کرنے کے لیے ہمیں کلام الٰہی ے رہنمائی لینی چاہیے۔

یہ عبادت بڑی محبوب ہے اس کی فضلیت اورشان کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن میں ایک سورۃ نازل کی گئی اوریہ سورۃ قرآن مجید میں 17پارہ میں ہے اس میں میرے پیارے رب نے حج کے احکام اورفضائل بیان کیے ہیں اوراس سورۃکانام ہی ’’سورۃ حج ‘‘رکھاگیاہے، اس سورۃ کاآغاز اس آیت کریمہ سے ہواہے۔ یایھاالناس اتقو ربکم ان زلزلۃ الساعۃ شئی عظیم، اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو بے شک قیامت کازلزلہ ایک بڑی ہولناک شے ہے اس دن تم دیکھوگے کہ مائیں اپنے بچوں کودودھ پلاناچھوڑ دیں گیں حالانکہ ماں کی ممتاکوسب گواراہے بچے کی جدائی گوارانہیں لیکن اس روزمائیں اپنے بچوں کودیکھیں گی بھی نہیں، قیامت کازلزلہ اتناشدید ہوگاکہ حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے یہ ایسی تنگی کادن ہوگاکہ لوگ نشے اورمدہوشی کے عالم میں ہونگے قیامت کازلزلہ اتناشدید ہوگاکہ اس کی دہشت سے لوگوں کابراحال ہوگااور لوگ حواس باختہ نظر آئیں گے یہ سورۃ پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کاش کہ آج کامسلمان اس سورۃ کو دل کی تڑپ کے ساتھ تلاوت کرتا۔ یہ سورۃ تو حج کے متعلق ہے لیکن ابتدائی آیات میں قیامت کاذکر ہے اب حج اورقیامت میں کیاجوڑ اورکیاربط ہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ حج کی عباد عرفات کے میدان میں حاضری سے ادا ہوتی ہے یہ ایک وسیع وعریض کھلامیدان ہے جہاں دنیابھر سے آئے ہوئے ہررنگ ہرنسل اورہرزبان ہرقوم ہر عمر ہرشکل کے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ یہاں بڑے چھوٹے، شاہ وگدا میں کوئی امتیاز نہیں سب کی ایک ہی حالت اورکیفیت ہوتی ہے یہاں سب کاایک ہی اعلان ہوتاہے

لبیک اللھم لبیک ان الحمدوالنعمۃ لک والملک لاشریک لک۔ ۔

لاکھوں فرزندان توحید آج سے ہزاروں برس پہلے دی گئی ندائے ابراہیم کاجواب دینے کے لیے یہاں اکھٹے ہوتے ہیں اورساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ تیراکوئی شریک نہیں تیری ذات تمام صفات کی مالک ہے سب نعمتیں تیرے قبضہ قدرت میں ہیں، ملک بھی تیری، حکومتیں بھی تیری، بس ایک اعلان کے لیے ساری خدائی یہاں مرکزی مقام پہ اکھٹی ہوتی ہے یہاں جمع ہونے کاایک مقصد تویہ ہے کہ کل عالم اسلام کے مسلمان اجتماعی طور پر اللہ پاک کی الوہیت وعظمت اورکبریائی بیان کریں دوسرامقصد جوسورۃ حج کے آغازمیں ہے جس طرح میدان عرفات میں ہر رنگ، نسل قوم، زبان عقل وشکل کے مختلف انسان جمع ہیں اس اجتماع اوراس میدان سے میدان محشر اورآکرت کے اجتماع کی یاد تازہ کریں اورسوچیں کہ ایک دن وہ بڑااجتماع بھی منعقد ہونے والاہے جہاں اسی طرح دنیابھر کی مختلف قوموں نسلوں اورمختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے انسان ہوں گے۔ یہ اجتماع دراصل میدان محشر میں ہونے والے اجتماع کی یاد تازہ کرنے کے لیے منعقد ہوتاہے تاکہ امت مصطفی ﷺ کے اعمال میں اخلاص پیداہواوروہ دنیاہی کے اندراپنی اصلاح کر سکیں اسی مقصد کے لیے سورۃ حج کے آغاز میں میدان محشر کامنظر بیان کیاگیاہے اوریہی وہ ربط ہے جوسورۃ حج میں بیان کر کے قائم کیاگیاہے

حضرت امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ حج کی وضع بالکل سفر آخرت کی سی ہے مقصود یہ ہے کہ حجاج کواعمال حج اداکرنے سے مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات یاد آجائیں مثلاًشروع سفر میں بال بچوں سے رخصت ہوتے وقت سکرات موت کے وقت اہل وعیال سے رخصت ہونے کویاد کرو:

اپنے وطن یاملک سے باہر نکلت وقت یہ سمجھو کہ تم فانی دنیاسے باہر نکل رہے ہو۔

سواری کے جانور یاآج کل جدید سواری کوجنازہ کی چارپائی تصور کرو۔

احرام کی چادر کوکفن کی چادر شمار کرو۔

میقات حج تک پہنچنے میں جنگ بیاباں قطع کرتے وقت عالم برزخ یعنی قبر کی گہرائیوں کاتصور رکھو۔

لبیک اللھم لبیک کوقبروں سے اتھنے اورمیدان محشر کی حاضری صدا سمجھوغرضیکہ اسی طرح ہرایک عمل میں عبر ت اورہرمعاملہ آخرت کی یاد دہانی ہے۔

حج کاایک اورمقصد یہ ہے کہ اس عباد کے اندراجتماعیت ہے ہمارادین ایک عالمگیر دین ہے

اگر کوئی شخص اپنے گھر میں اکیلانماز پڑھ لے توایک نماز کاثواب دس نمازوں کے برابر ملے گااوراگر وہی نماز شہر کی مرکزی مسجد میں اداکرے توپچاس نمازوں کاثوب ملے گااسی طرح اگر اوراہم جگہ چلاگیاتوثواب بڑھ جائے گایہانتک کہ اگر مسجد اقصیٰ میں وہی نماز اداکی گئی تواسے پچاس ہزارنمازوں کاثواب ملے گااوربیت اللہ میں وہی نماز اداکی گئی تواسے ایک لاکھ نمازوں کاثواب ملے گااب سوچنے کی بات ہے کہ نماز وہی ہے ثواب میں زیادتی آتی گئی اس بات سے یہ معلوم ہواکہ مسلمانوں کے اندرجوں جوں مرکزیت اوراجتماعیت بڑھے گی اجروثواب میں کئی گنااضافہ ہوتاجائے گا۔ حج بیت اللہ اورمیدان عرفات میں مسلمانوں کی وحدت فکر اوروحدت عمل کاسب سے بڑااجتماع ہوتاہے اللہ پاک کے نزدیک مسلمانوں کے اجتماع اوراتحاد میں اتنی برکت ہے کہ وہ ذات رحیم سابقہ گناہ ہی بخش دیتی ہے۔ اتحاد میں برکت ہے، حج کاسب سے بڑامقصد یہی ہے کہ سرورکائنات ﷺ کی امت اتحاد کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اللہ پاک ہم سب کوحج بیت اللہ نصب فرمائے (آمین)

تبصرے بند ہیں۔